کورونا وائرس اور عبرت وموعظت کے چند پہلو
چند ماہ قبل ہم کورونا وائرس نامی وبا سے آشنا ہوئے ، اس نے بہت ہی قلیل عرصہ میں عالمی وبا کی شکل اختیار کرلی ،کئی لوگ اس کا شکار ہوکر لقمۂ اجل بن چکے ہیں، اور کئی اس سے متاثر ہوکر ہسپتالوں اور گھروں میں محصور ہیں، مساجد ،منادر چرچ اور کلیسا سب غیر آباد اور ویران ہوکر رہ گئے ،دینی وعصری درس گاہوں کی رونق ماند پڑگئی ، آمد ورفت کے بیشتر ذرائع مسد ود ہوگئے، صنعت وتجارت ٹھپ ہوکر رہ گئی ہے ، لوگوں میں خوف ودہشت کا ماحول ہے، آپسی میل جول اور باہمی تعلقات سے لوگ خود کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں ،خلاصہ یہ کہ تمام شعبہائے حیات اس سے بے حد متاثر ہوکر رہ گئے ہیں ۔
کورونا کیا ہے؟
کورونا وائرس کی حیثیت ایک بڑے خاندان کی ہے ،جس کی مختلف شاخیں ہیں ، ان میں سے ایک حالیہ وباہے جسے کووڈ ۱۹ کا نام دیا گیا ہے ، ’’کو‘‘کا مطلب کورونا، ’’وی‘‘ کا مطلب وائرس ،’’ڈی‘‘سے مراد (disease)یعنی بیماری ہے، اور ۱۹ /کا ہندسہ ۲۰۱۹ء کی نشان دہی کرتا ہے ، کورونا وائرس مائیکرواسکوپ میں نوک دار ونگس جیسا نظر آتا ہے ، جو اس کے وائرل اینولیپ کے ارد گرد ایک ہالہ سا بنادیتے ہیں ، کورونا وائرس میں آراین اے کی ایک لڑی ہوتی ہے ان کی تعداد اسی وقت بڑھتی ہے جب کہ وہ زندہ خلیات میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے، ایک بار داخل ہونے کے بعد یہ خلیہ کو ایک وائرس فیکٹری میں تبدیل کردیتا ہے، اور مالی کولہ زنجیر کو مزید وائرس بنانے کے لئے استعمال کرنے لگتا ہے ،پھر یہ وائرس دیگر خلیات کو متاثر کرتا ہے، عموما اس طرح کا وائرس جانوروں میں پایا جاتا ہے ،اور جب یہ انسانوں میں منتقل ہوتا ہے تو خصوصا ان افراد کے نظام تنفس کے سنگین امراض کا باعث بنتا ہے جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے ۔
کورونا کا آغاز کہاں سے؟
یہ وائرس پہلے چمگاڈر میں موجود تھا ،چین کے کسی علاقہ میں اڑتی ہوئی ایک چمگاڈر نے اپنی لید میں کورونا وائرس چھوڑا ،پینگولین نامی جانور کو اس فضلہ سے یہ وائرس ملا ، جس سے دوسرے جانوروں میں پھیلا ،ان متاثرہ جانوروں میں سے چند چین کے شہر ووہان کی سی فوڈ ہول سیل مارکیٹ میں لائے گئے ، واضح رہے کہ اس مارکیٹ میں مچھلی کے علاوہ چمگاڈر ، سانپ اور دیگر جنگلی جانوروں کا گوشت بھی فروخت ہوتا ہے ،پھر انسانوں نے ان کا گوشت خرید کر استعمال کیا، اس طرح سے یہ وبا انسانوں میں پھیل گئی۔
کورونا کس طرح پھیلتا ہے؟
سائنس دانوں اور اطباء کے مطابق یہ ایک(droplet infection) ہے ، یعنی متاثر شخص کے ساتھ قریبی رابطے ،اس کے ٹچ میں رہنے اور نشست وبرخاست کی وجہ سے اس کی کھانسی، چھینک اور سانسوں سے نکل کر ،اسی طرح اس سے ہاتھ ملاکر اسی سے اپنے منہ اور ناک کو چھونے سے یہ وائرس دوسرے میں منتقل ہوجا تا ہے۔
کورونا کی علامتیں
۱)سوکھی کھانسی ۲) بخار ۳)سانس لینے میں پریشانی ۔(یہ تینوں علامتیں خاص ہیں ، اسی طرح ڈاکٹر وں نے سونگھنے اور چکھنے کی صلاحیت کے خاتمہ کو بھی ان میں شمار کیا ہے ) ۵)سردرد ۶)جوڑوں میں درد ۷)گلے میں سوجن اور خراش ۸) تھکان ۔( یہ چار علامتیں ہوسکتی ہیں ؛ لیکن ضروری نہیں ) ۹)دست ۱۰) ناک کا بہنا ۔ ( یہ دو علامتیں بہت کم ہوتی ہے )
احتیاطی تدابیر
کورونا سے بچاؤ کے لئے جو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایات دی جارہی ہیں ان میں کچھ عمومی قسم کی ہیں ، جیسے: لاک ڈاؤن وغیرہ ،کچھ کا تعلق وبائی مرض سے متاثرہ علاقہ سے ہے ، جیسے: ریڈزون وغیرہ ، کچھ کا تعلق مرض کے شکار افراد سے ہے ، جیسے :قرنطینہ وغیرہ ، اور بیشتر کا تعلق وبا سے محفوظ لوگوں سے ہے ، جیسے :باہر کم نکلنا ،بھیڑ کا جمع نہ ہونا ، چہرے پر ماسک لگانا ، باقاعدگی کے ساتھ ہاتھ دھونا ،سماجی فاصلہ کو ملحوظ رکھنا اور سنیٹائزر کرنا وغیرہ ۔
کورونا ایک قدرتی وبا یا منصوبہ بند سازش؟
عوام الناس کورونا کو ایک قدرتی وبا سمجھتی رہی ہے؛ لیکن اکثر محققین اسے کسی سازش کا حصہ قرار دے رہے ہیں ؛ البتہ سازش کی تعیین میں ان کی رائیں مختلف ہیں ،بعض کہتے ہیں کہ یہ اسرائیل اور امریکہ کی ملی بھگت ہے ،جس کا مقصد چین کی معیشت کو تباہ کرنا ہے ، ایک طبقہ کہتا ہے کہ یہ سائنسی ترقیات کا شاخسانہ ہے ، ایک جماعت کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ یہ حیاتیاتی ہتھیار اور بایولوجیکل وار ہے، اور ایک فرقہ اسے یہودی حملہ قرار دیتا ہے ، جس کا مقصد دنیا کی آبادی میں کمی اور ظہور دجال کی تیاری ہے ، ہر ایک کے پاس اپنے موقف پر قرائن ودلائل موجود ہیں ، کسی کو ترجیح دینا مشکل ہے ؛ البتہ اس کا کسی منصوبہ بند سازش کا حصہ ہونا یقینی اور حتمی ہے ۔
چند سبق آموز پہلو
امت مسلمہ …جو وحی الہی کی دولت سے بہرہ مند ہے اور زندگی کے ہر نشیب وفراز میں اس کو اسلامی ہدایات میسر ہیں …کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اس وبا کو صرف سائنسی نقطۂ نظر سے دیکھے ،اور اس کے جلو میں جو نصیحت کے انمول موتی ہیں انہیں حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے ؛ بلکہ اس وبا کے پس پردہ عبرت وموعظت کے جو پہلو ہیں ان سے عبرت پذیری ایک مؤمن کے شایان شان ہے ، اور جو شخص سائنسی توجیہات کو حر ف آخر سمجھ بیٹھتا ہے گو یا وہ منافقین کی طرح ضلالت وگمراہی کا شکار ہے، قرآن مجید میں اسی کی جانب اشارہ کیا گیا ہے ، ارشادباری تعالی ہے :
کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ وہ ہرسال ایک دو مرتبہ کسی آزمائش میں مبتلا ہوتے ہیں ، پھر بھی نہ وہ توبہ کرتے ہیں ،اور نہ کوئی سبق حاصل کرتے ہیں ۔(التوبۃ:۱۲۶)
ابن عباس ؓ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
منافقین کی ہرسال ایک دومرتبہ بیماری کے ذریعہ آزمائش کی جاتی ہے ،پھر بھی وہ نفاق سے توبہ نہیں کرتے ،اور اس وبا سے عبرت حاصل نہیں کرتے ، حالاں کہ مؤمن جب بیمار ہوتا ہے تو بیماری سے نصیحت پکڑتا ہے ، چنانچہ اپنے گناہوں کا اور اللہ کے حضور جواب دہی کا تصور کرتاہے ، جس کی بنا پر اس کے ایمان اور خشیت الہی میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ رحمت الہی ورضائے خداوندی کا مستحق ہوجاتا ہے ۔(تفسیر رازی: ۱۶/۱۷۵)
لہذا ایک مخلص مؤمن پر لازم ہے کہ وہ کورونا وائرس میں جو نصائح ومواعظ کا پہلو ہے اس سے استفادہ کرے ، ذیل میں کورونا کے چند سبق آموز پہلوؤں کو ذکر کیا جاتا ہے :
عقائد واعمال کی اصلاح
دنیا کے اندر جو بھی مصیبتیں عام انسانوں کو لاحق ہوتی ہیں ، وہ ان کے اعمال بدکا خمیازہ ہوتی ہیں، قرآن کریم میں مختلف مواقع پر اس مضمون کو ذکر کیا گیا ہے ، فرمان خداوندی ہے :
لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا؛ تاکہ انہوں نے جو کام کئے ہیں اللہ ان میں سے کچھ کا مزہ انہیں چکھائے ، شاید وہ باز آجائیں ۔(الروم:۴۱)
امام رازی اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں :
ہر فسادکی اصل وجہ شرک ہے، ایک شرک تو قولی اور اعتقادی ہوتا ہے ، اور ایک شرک فعلی ہوتا ہے ، جس کو گناہ اور فسق کا نام دیا جاتا ہے ،گناہ کو شرک کہنے کی وجہ یہ ہے کہ گناہ نفس کے لئے ہوتا ہے ، تو گویا فاسق اپنے فعل میں نفس کو اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا ہے ۔(تفسیر رازی:۲۵/۱۰۵)
یہی مضمون ایک دوسری آیت میں بھی بیان کیا گیا ہے ، کلام الہی ہے :
اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہونچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کئے ہوئے کاموں کی وجہ سے پہونچتی ہے ، اور بہت سے کاموں سے تو وہ درگزر ہی کرتا ہے ۔(الشوری: ۳۰)
مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں امت محمدیہ کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ، انہیں غور وفکر کرنا چاہیے کہ کہیں وہ عقائد میں جادۂ حق سے منحرف تو نہیں ہورہے ہیں ، عبادات میں کمیت یا کیفیت کے اعتبار سے کوئی کوتا ہی تو نہیں ہورہی ہے ، معاشرتی زندگی میں ان کی وجہ سے کوئی تکلیف زدہ اور آزردہ تو نہیں ہے ، معاملات میں وہ شرعی اصولوں کی پاس داری کررہے ہیں کہ نہیں ، ممنوعات اور محرمات میں سے کسی شئ کا ارتکاب تو نہیں کررہے ہیں ، الغرض کورونا ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ زندگی کا ہمہ جہت احتساب کریں اور قابل اصلاح امور کی اصلاح کریں ۔
قدرت خداوندی کی برتری
کورونا کا ایک سبق یہ ہے کہ انسان سائنسی ومادی طور پر ترقی کے کتنے ہی منازل طے کرلے ، پھر بھی اس کی ترقیات طاقت خداوندی کے مقابلہ میں ہیچ اور بے حیثیت ہیں ، چاند پر کمندیں ڈالنے والا ،خلاؤں میں پرواز کرنے والا ،بحر وبر پر اپنا اقتدار جمانے والااور ہواؤں کی لہروں پر تصاویر اور آوازوں کو آن واحد میں دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہونچادینے والا انسان قدرت خداوندی کے آگے نہایت ہی مجبور اور بے بس ہے ،انسان اپنے نت نئے ایجادات کی بنیاد پر اس خوش فہمی اور خام خیالی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ کوئی اس کو شکست وریخت سے دوچار نہیں کرسکتا ،اور وہ خدائی لشکر سے غافل ہوجاتا ہے ، عین اسی موقعہ پر اللہ ایسی بلا نازل فرمادیتے ہیں جو اس کے لئے تازیانۂ عبرت ثابت ہوتی ہے ، انسان اپنی عاجزی ولاچاری کا معترف ہوجاتا ہے ، اور یہ خدائی فرمان اپنی تمام جلوہ سامانیوں کے ساتھ آشکارا ہوجاتا ہے :
اور نہ تم زمین میں (اللہ کو)عاجز کرسکتے ہو اور نہ آسمان میں ۔(العنکبوت: ۲۲)
مضر صحبت سے اجتناب
کورونا کا ایک اور پیغام یہ ہے کہ انسان ان افراد زکی صحبت سے کلی طور پر گریز کرے جو ظاہری وباطنی اور جسمانی وروحانی اعتبار سے مضرت رساں اور نقصان دہ ہوں ، شریعت اسلامیہ کی بھی یہی تعلیم ہے ،چنانچہ قرآن کریم میں کفار ومنافقین اور یہود ونصاری کی صحبت سے اجتناب کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے، اور حدیث میں بھی برے ہم نشیں سے دور رہنے کی ترغیب دی گئی ہے، اور یہ کہا گیا ہے کہ جس طرح لوہار کی بھٹی کے قریب بیٹھنے کی وجہ سے کپڑا یا بدن آگ میں جل جائے گا یا ناک میں دھواں تو جائے گا ہی، اسی طرح برا ہم نشیں انسان کو رفتہ رفتہ صراط مستقیم سے ہٹاکر زیغ وضلالت کی پر خطر وادی میں ڈھکیل دے گا ۔
موت کا استحضار
کورونا وبا کے شکار ہوکر ہر عمر کے افراد موت کے آغوش میں چلے جارہے ہیں ، کیا بچے، کیا جوان ، کیا بوڑھے ، اسی طرح کیا لحیم وشحیم اور کیا نحیف ونزار سب اس کا لقمۂ تر ثابت ہورہے ہیں ، یہ ہم سب کے لئے مقام عبرت ہے ،یہ وبا ہم کو موت کے استحضار اور اس کے لئے تیاری کرنے کی تعلیم دیتی ہے، حدیث میں بھی کثرت سے اس کو یاد کرنے کی تلقین کی گئی ہے ، ارشاد رسول ہے :
لذتوں کو ختم کرنے والی (موت)کو کثرت سے یاد کیا کرو۔(نسائی، حدیث نمبر:۱۸۲۴)۔
فضول خرچی سے گریز
کورونا وبا کے نتیجہ میں اسباب معاش محدود اور مسدود ہوچکے ہیں ، اور معیشت کی راہیں تنگ ہوچکی ہیں ، اس صورت حال کی بنا پر ہر شخص فضول خرچی اور اسراف سے اجتناب کررہا ہے ، یہ عادت ہمیں پوری زندگی اپنائے رکھنے کی ضرورت ہے ، یہی شریعت کی تعلیم ہے، چنانچہ قرآن کریم میں فضول خرچ افراد شیطان کے بھائی قرار دئے گئے ہیں :
یقین جانو کہ جو لوگ بے ہودہ کاموں میں مال اڑاتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں ۔(بنی اسرائیل:۲۷)
اور حدیث میں بھی پیسوں کے خرچ کرنے میں میانہ روی اور اعتدال پسندی کو نصف معاش قرار دیا گیا ہے ، ارشاد رسول ہے :
مال خرچ کرنے میں میانہ روی اختیار کرنا نصف معیشت ہے ۔(المعجم الاوسط : ۶۷۴۴)
شادی میں سادگی
کورونا کی وجہ سے حکومت نے مجمع کے یکجا ہونے پر پابندی لگادی ہے ،چنانچہ اس دوران جتنی بھی شادیوں کی تقریبات عمل میں آرہی ہیں ان میں سادگی نمایاں طور پر جھلک رہی ہے ، تو کیا ہم اتنے بے حس اور شریعت کے نا قدرے ہوچکے ہیں کہ حکومت کی پابندی کی وجہ سے تو ہماری شادی کی محفلیں سادگی کے ساتھ انجام پائیں ؛ لیکن عام حالات میں شریعت کے حکم سے اعراض کرتے ہوئے بہت ہی دھوم دھام سے شادی کریںاور اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیں، عمومی احوال میں تو شریعت کا حکم ماننے کی راہ میں اپنی انا اور حیثیت کا مسئلہ روڑا بن جاتا ہے ؛ لیکن جب حکومت نے پابندی عائد کردی تو تمام مسائل یکلخت ختم ہوجاتے ہیں ، کورونا ہمیں سبق دیتا ہے کہ شادی کے مبارک اور مسنون عمل کو سادگی کے ساتھ انجام دیں ،اور اسراف وتبذیر سے بچتے ہوئے اس کا انعقاد کریں ۔
علماء کی قدردانی
جس دن سے کورونا کی ابتدا ہوئی اس دن سے آج تک کئی جلیل القدر علماء ہمارے درمیا ن سے رخصت ہوگئے ، علماء کا اس طرح کوچ کرجانا قرب قیامت کی علامت ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
اللہ تبارک وتعالی علم کو اس طور پر قبض نہیں کریں گے کہ اس کو بندوں کے سینے سے نکال لیں ؛ بلکہ علماء کے اٹھتے رہنے سے علم بھی قبض ہوتا چلاجائے گا ۔(بخاری ،حدیث نمبر :۱۰۰)
لہذا ہمیں چاہیے کہ موجودہ علماء کو غنیمت جانیں ، ان کے قدر دان بنیں اور ان سے بھر پور استفادہ کی کوشش کریں ۔