اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جدید ٹیکنالوجی نے ڈھیر ساری سہولتیں فراہم کی ہیں، جو سفر مہینوں میں طے ہوتا تھا، وہ ا ب گھنٹوں میں طے ہوتا ہے، جس پیغام کو پہنچانے میں مدت درکار ہوتی تھی، اب لمحوں میں دنیا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے پہنچ جاتا ہے؛ لیکن یہ ترقی جہاں آسانی فراہم کرتی ہے، وہیں خطرات کو بھی جنم دیتی ہے، پیدل چلنے کے مقابلہ میں سائیکل، اور سائیکل کے مقابلہ میں موٹر سائیکل، اور موٹر سائیکل کے مقابلہ میں ہوائی جہاز کا سفر نسبتاََ پُر خطر ہوتا ہے، ان خطرات کا تقاضا ہوتا ہے کہ اگر آدمی ان سے بچ نہ سکتا ہو تو کم سے کم اس کی تلافی صورت ہو، اسی پس منظر میں موجودہ دور میں انشورنس کا نظام شروع ہوا، جس کا مقصد یہ ہے کہ جس نقصان کو دوچار افراد برداشت کرنے سے قاصر ہوں، اس کو اتنے افراد پر تقسیم کردیا جائے کہ وہ قابل برداشت ہو جائے، مثلاََ ایک ٹیکسی ڈرائیور کے ذریعہ کسی شخص کی موت ہو گئی اور اس کو پانچ لاکھ روپئے ہرجانہ دینا پڑے تو بظاہر اس کے لئے اس بوجھ کو اُٹھانا دشوار ہوگا؛ لیکن فرض کیجئے کہ اس شہر میں ایک لاکھ ڈرائیور کام کرتے ہوں اور ان کے درمیان طے ہو جائے کہ ان میں سے کسی سے بھی ایکسیڈنٹ ہو جائے تو اس کا جرمانہ ادا کرنے کے لئے ہر شخص کو پانچ روپیہ ادا کرنا ہوگا تو بہ آسانی۵؍لاکھ جمع ہو جائیں گے، اور یہ چنداں دشوار نہیں ہوگا، یعنی ایک فرد پانچ لاکھ کا نقصان برداشت نہیں کر سکتا؛ لیکن ایک لاکھ افراد پانچ لاکھ کے نقصان کو بسہولت برداشت کر سکتے ہیں، انشورنس میں بنیادی طور پر یہی کام کیا جاتا ہے، مثلاََ ایک لاکھ ڈرائیور کمپنی کے ممبر ہو گئے، ان سب نے ایک متعینہ رقم جمع کی ، پھر اس گروپ میں سے جو شخص ایسے حادثہ سے دور چار ہوتا ہے، کمپنی اس کی مدد کرتی ہے۔
غور کیا جائے تو اپنی اصل کے اعتبار سے یہ طریقۂ کار شریعت اسلامی سے ہم آہنگ ہے، اور اس کی مثال دیت یعنی خون بہا ہے، شریعت میں جتنے واجبات رکھے گئے ہیں، ان میں سب سے زیادہ مقدار دیت کی ہے، جو قاتل مقتول کے ورثہ کو ادا کرتا ہے، مگر شریعت نے تنہا قاتل پر اس کی ذـمہ داری نہیں رکھی ہے؛ بلکہ اس کے تمام رشتہ داروں کو اس میں شامل کیا ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس میں مزید وسعت پیدا فرمائی، اور اس کے طریقۂ کار سے استفادہ کرتے ہوئے امام ابو حنیفہؒ نے ایک پیشہ سے جُڑے ہوئے تمام لوگوں کو ان کا عاقلہ قرار دیا کہ یہ سب لوگ مل کر اپنے ہم پیشہ فرد کی دیت ادا کریں گے۔
اس پہلو سے غور کیجئے تو انشورنس کا نظام شریعت کے مزاج سے ہم آہنگ ہے؛ چوں کہ موجودہ دور میں پورا معاشی نظام یہودیوں کے ہاتھوں میں ہے اور حالاں کہ تورات میں بھی سود کو منع کیا گیا ہے؛ لیکن یہودو نصاریٰ نے عملاََ اس کو اپنے لئے حلال کر لیا ہے؛ اس لئے انھوں نے بینک اور انشورنس کے نظام کو سود دے آلودہ کر رکھا ہے، اور انشورنس میں تو سود کے علاوہ قمار بھی شامل ہے؛ اس لئے اگرچہ علماء عرب میں سے مشہور حنفی فقیہ شیخ مصطفیٰ زرقاء، معروف محقق شیخ علی خفیف ، اور ہندوستان کے اہل علم میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے انشورنس کو تعاون کی ایک صورت قرار دیا ہے، اور اس لئے اس کے جواز کا حکم لگایا ہے؛ مگر عالم اسلام اور برصغیر کے جمہور علماء نے سود اور قمار کی شکل پائی جانے کی وجہ سے اس کو ناجائز ہی قرار دیا ہے، اور یہی راجح ہے۔
لیکن ہندوستان میں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مسلمانوں کی جان ومال پر منصوبہ بند حملے کئے جا رہے ہیں، پولس جس کا کام امن وامان کی حفاظت ہے، خود فرقہ پرستی میں مبتلا ہے، بعض جگہ خود پولس بلوائیوں کے ساتھ شریک ہو جاتی ہے، جب مسلمان اپنا معاملہ لے کر جاتے ہیں تو ایف آئی آر درج کرنے پر بھی تیار نہیں ہوتی، اور اگر کیس لیتی ہے تو اتنی کمزور دفعات کے تحت جو عدالت میں چل نہیں سکتیں، اور اگر چل جائے تو معمولی سزا پا کر مجرم رہا ہو جائے، بعض دفعہ تو مظلوم کو ہی ظالم کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے، آر ایس ایس نے اتنے بڑے پیمانہ پر ملک کی انتظامیہ میں اپنے لوگوں کو شامل کر دیا ہے کہ قانون کی حفاظت کرنے والے خود قانون شکنی پر تُلے ہوئے ہیں، اور اب تو حکومتیں بھی کھلے عام مفسدین کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔
یوں تو مسلمان ۱۹۴۷ء سے ہی اس صورت حال سے دو چار ہیں، اور راورکیلا، جمشیدپور، بھاگلپور سے لے کر مرادآباد تک کتنے ہی مقتل سجائے جا چکے ہیں؛ لیکن گجرات میں نریندرمودی کے اقتدار کے بعد اس خوں آشامی کا ایک نیا دور شروع ہوا، ۲۰۰۲ء میں گجرات کا جو فساد ہوا، وہ کوئی وقتی فساد نہیں تھا؛ بلکہ مسلمانوں کی منصوبہ بند نسل کشی تھی، پھر جب ۲۰۱۴ء میں مودی کو وزارت عظمیٰ کا تاج پہنا یا گیا تو نفرت کی یہ لہر پورے ملک میں دوڑائی گئی، جب اپنے پانچ سالہ اقتدار میں وہ اپنا کوئی وعدہ پورا نہیں کر سکے تو خاص طور پر پوری قوت کے ساتھ نفرت کے ایجنڈے کو بڑھایا گیا، اور گھر گھر اسے پہنچایا گیا، اس کی وجہ سے ہجومی تشدد کی جو صورت حال پیش آرہی ہے، اور لوگوں سے’’ جے شری رام ، وندے ماترم اور بھارت ماتا کی جے ‘‘ جیسے نعروں کا مطالبہ کیا جاتا ہے،ا ور اس کے پورا نہ کرنے پر لوگوں سے زندہ رہنے کا حق چھینا جا رہا ہے؛ اس لئے مسلمان دین وایمان کے ساتھ ساتھ جان ومال اور عزت وآبرو کے تحفظ کے سلسلہ میں دشوار سے دشوار تر حالات سے دوچار ہیں۔
ان حالات میں سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان لائف انشورنس یا دکان اور کاروبار کا انشورنس کر سکتے ہیں؟– اس سلسلہ میں اس بات کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ عوام کی جان ومال کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے، اگر حکومت اس ذمہ داری کو ادا نہیں کرتی تو وہ قصور وار ہے، اور خاص کر جب حکومت کے نمائندے خود کوتاہی میں مبتلا ہوں تو یہ ظلم بالائے ظلم ہے، دوسری طرف انشورنس بھی ایک سرکاری کمپنی ہے اور اصول ہے کہ اگر کسی شخص کا حق باقی ہو اور وہ حق ادا کرنے میں ٹال مٹول سے کام لے یا انکار کرے اور اس کی کوئی چیز صاحب حق کے قبضہ میں آجائے تو وہ اس سے پنا حق وصول کر سکتا ہے، اس کو فقہ کی اصطلاح میں ’’ظفر بالحق‘‘ کہتے ہیں،– پس ایسی صورت میں کہ حکومت جان ومال کا ہرجانہ ادا نہیں کرتی ، کیا انشورنس سے ملنے والی رقم کو اپنے حق کی وصولی تصور کیا جا سکتا ہے؟ دوسرے: بعض دفعہ گھر کے ایسے مرد کو قتل کر دیا جاتا ہے، جس پر گھر کی تمام ذمہ داریاں ہوتی ہیں، یا دکان اور کاروبار کو نذر آتش کر دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ سڑک پر آجاتا ہے، ایسے لوگوں کے لئے اس طرح کی اسکیمیں جو کسی درجہ میں نقصان کی تلافی کر سکیں، حاجت کا درجہ اختیار کر لیتی ہیں، اور ضرورت وحاجت کی وجہ سے حکم میں تخفیف ہوتی ہے، تیسرے: انشورنس کی رقم براہ راست نہ سہی، بالواسطہ حکومت ہی ادا کرتی ہے، اگر مظلوموں کو یہ رقم ادا کرنی پڑے تو شاید اس کی وجہ سے حکومت کو تنبہ ہو اور وہ ایسے واقعات کو روکنے کے لئے چوکسی کا ثبوت دے، یہ مختلف پہلو ہیں، جن کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔
ان حالات میں ہندوستان کے بہت سے علماء اور ارباب افتاء نے گنجائش کا پہلو نکالا ہے؛ چنانچہ ۱۹۶۰ء کے بعد جب ملک بھر میں فسادات کی لہر چل رہی تھی، حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی دعوت پر ندوہ کے زیر انتظام مجلس تحقیقات شرعیہ نے ۱۵؍۱۶؍دسمبر ۱۹۶۵ء کو غور وفکر کے لئے ہندوستان کے چند اہم علماء کو مدعو کیا، جس میں حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کے علاوہ حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ، حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ، حضرت مولانا فخر الحسن صاحبؒ سابق صدر مدرس دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحیؒ سابق مفتی دارالعلوم دیوبند وغیرہ شامل تھے، ان حضرات نے جو فیصلہ کیا وہ حسب ذیل ہے:
’’ مجلس یہ رائے رکھتی ہے کہ اگرچہ انشورنس کی سب شکلوں کے لئے ’’ ربا وقمار‘‘ لازم ہے، اور ایک کلمہ گو کے لئے ہر حال میں اصول پر قائم رہنے کی کوشش کرنا بھی واجب ہے؛ لیکن جان ومال کے تحفظ وبقا کا جو مقام شریعت اسلامیہ میں ہے، مجلس اسے بھی وزن دیتی ہے، نیز مجلس اس صورت حال سے بھی صَرف نظر نہیں کر سکتی کہ موجودہ دور میں نہ صرف ملکی؛ بلکہ بین الاقوامی سطح پر انشورنس انسانی زندگی میں اس طرح دخیل ہو گیا ہے کہ اس کے بغیر اجتماعی اور کاروباری زندگی میں طرح طرح کی دشواریاں پیش آتی ہیں، اور جان ومال کے تحفظ کے لئے بھی بعض حالات میں اس سے مفر نہیں ہوتا؛ اس لئے ضرورت شدیدہ کے پیش نظر اگر کوئی شخص اپنی زندگی یا اپنے مال یا اپنی جائداد کا بیمہ کرائے تو شرعاََ اس کی گنجائش ہے‘‘
پھر ان ہی حالات کو دیکھتے ہوئے۱۹۹۰ء میں ادارۃ المباحث الفقہیہ جمعیۃ علماء ہند نے نہ صرف اس کے جواز کا فتویٰ صادر کیا؛ بلکہ مطبوعہ پمفلٹ کی شکل میں پورے ملک میں پہنچایا، اس پر دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کے مفتیان کرام اور متعدد اساتذہ کے بھی دستخط تھے، پھر ۳۰؍اکتوبر ۱۹۹۲ء کو اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا نے اپنے پانچویں سیمینار منعقدہ اعظم گڑھ میں اسی نقطۂ نظر کو دہرایا، اس فیصلہ پر دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، امارت شرعیہ بہار اور جنوبی ہند کے ممتاز علماء نے دستخط کئے اور اپنا اتفاق کا اظہار کیا، جس کے الفاظ اس طرح ہیں:
’’ مروجہ انشورنس اگرچہ شریعت میں ناجائز ہے؛ کیوں کہ وہ ربو، قمار غرر جیسے شرعی طور پر ممنوع معاملات پر مشتمل ہے؛ لیکن ہندوستان کے موجودہ حالات میں جب کہ مسلمانوں کی جان ومال، صنعت وتجارت وغیرہ کو فسادات کی وجہ سے ہر آن شدید خطرہ لاحق رہتا ہے، اس کے پیش نظر ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ رفع ضرر، دفع حرج اور تحفظ جان ومال کی شرعاََ اہمیت کی بناء پر ہندوستان کے موجودہ حالات میں جان ومال کا بیمہ کرانے کی شرعاََ اجازت ہے‘‘۔
جہاں تک انفرادی فتاویٰ کی بات ہے تو علماء بریلی اور جنوبی ہند کے بعض بڑے دارالافتاء چوں کہ ہندوستان کو دارالحرب مانتے ہیں اور وہ فقہ حنفی کے مشہور نقطۂ نظر کے مطابق ہندوستان میں سود کے تحقق ہی کو تسلیم نہیں کرتے اور دھوکہ اور جبر کے بغیر تمام عقود فاسدہ کو درست قرار دیتے ہیں؛ اس لئے ان کے نزدیک یوں بھی انشورنس کرانا اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے فائدہ اُٹھانا جائز ہے؛ لیکن جو حضرات ہندوستان میں سود اور قمار کو ناجائز کہتے ہیں، انھوں نے اپنے انفرادی فتاویٰ میں بھی ملک کے حالات کے پس منظر میں اس کو جائز قرار دیا ہے؛ چنانچہ ماضی قریب کے صاحب نظر مفتی حضرت مولانا مفتی عبدالرحیم لاجپوریؒ فرماتے ہیں:
’’ … مگر سوال میں جن خطرات کی نشاندہی کی گئی ہے، وہ بھی واقعہ ہیں اور بیمہ کرالینے کی صورت میں فسادیوں کی نظرِ بد سے دوکان وغیرہ کی بہ ظن غالب حفاظت ہو جاتی ہے؛ اس لئے قانونِ فقہ ’’ الضرر یزال‘‘ کے پیش نظر خطرے کی چیزوں کا بیمہ کرالینے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے، اس شرط کے ساتھ کہ بیمہ کمپنی میں جو رقم جمع کرائی ہے، اس سے زیادہ جو رقم ملے، وہ غرباء اور محتاجوں میں بلا نیت ثواب تقسیم کر دی جائے، اپنے کام میں ہرگز نہ لی جائے، ہاں، اگر خدانخواستہ خود ہی محتاج ہو جائے تو علماء کرام سے فتویٰ حاصل کر کے بقدر ضرورت اپنے استعمال میں لینے کی گنجائش ہے‘‘ (فتاویٰ رحیمیہ: ۶؍۱۳۲)
استاذ گرامی سابق صدر مفتی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا مفتی محمودالحسن گنگوہیؒ اپنے فتاویٰ میں فرماتے ہیں:
’’ بیمہ میں سود بھی ے اور جو ا بھی، یہ دونوں چیزیں شرعاََ ممنوع ہیں، بیمہ بھی ممنوع ہے؛ لیکن اگر کوئی شخص ایسے مقام پر اور ایسے ماحول میں ہو کہ بیمہ کرائے بغیر جان ومال کی حفاظت ہی نہ ہو سکتی ہو یا قانونی مجبوری ہو تو بیمہ کرانا درست ہے‘‘ (فتاویٰ محمودیہ:ُ ۲۴؍۴۵۴)
دارالعلوم دیوبند کے ایک اور سابق مفتی حضرۃ الاستاذ مولانا مفتی نظام الدین صاحبؒ فرماتے ہیں:
’’ قانونی مجبوری یا ملکی فساد وغیرہ کے خطرہ سے بچنے کی نیت سے انشورنس کرانے کی گنجائش ہے، باقی اپنے جمع کئے ہوئے روپئے سے زائد جو روپیہ ملے، اس کا حکم یہ ہے کہ اگر گورنمنٹ کمپنی سے زائد رقم ملے تو اس کو ایسے ٹیکس میں دینا درست ہے، جو براہ راست گورنمنٹ خزانے میں پہنچتا ہو، جیسا کہ (۴) کے تحت لکھے ہوئے ضابطہ میں بتلادیا گیا ہے، اگر اس طرح کے ٹیکس میں نہ دینا ہو یا دینے سے بچ جائے تو پھر ایسی صورت میں اس کے وبال سے بچنے کی نیت سے ثواب کی نیت کے بغیر غرباء ومساکین کو جلد سے جلد دے کر یا ایسے مدارس دینیہ میں دے کر جس میں غیر مستطیع طلبہ کو کھانا کپڑا دیا جاتا ہو، اپنی مِلک سے نکال دیں، اور ان مدارس میں دیتے وقت ان کے مصارف میں صرف کرنے کی تاکید کر دیں؛ بلکہ اگر اپنے یہاں ایسے دینی مدارس موجود نہ ہوں اور ان مدارس کی ضرورت ہو تو ایسے مدارس قائم کر کے غریب بچوں کو اس میں کھانا کپڑا وغیرہ دینے کا نظم کر کے اس میں بغیر نیت ثواب دے ینا چاہئے کہ اس سے دین اور علم دین کو فروغ اور ترقی ہوگی، اور اس فروغ اور ترقی کا ثواب خود بخود ملے گا‘‘۔(منتخبات نظام الفتاویٰ:۳؍۹۹- ۱۰۰)
لہٰذا اس وقت ملک کی جو صورت حال ہے، اس میں شریعت کے احکام ومصالح اور مسلمانوں کے ساتھ کئے جانے والے مظالم کے پس منظر میں جو بات سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ ہے کہ:
(۱) زندگی اور املاک کا انشورنس اصلاََ جائز نہیں ہے؛ اس لئے عمومی طور پر مسلمانوں کو اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
(۲) جن علاقوں میں مسلمانوں کے جان ومال کو خطرہ درپیش ہو اور وہاں بار بار فسادات کی نوبت آتی ہو، وہاں بھی ایسے اہل ثروت کے لئے انشورنس جائز نہیں ہے، جو اس نوع کے مالی نقصانات کو برداشت کر سکتے ہوں، اور جن کو یہ اندیشہ نہ ہو کہ جانی ومالی نقصان کی وجہ سے وقتی طور پر سہی، بحالت موجودہ ان کے لوگ بے سہارا ہو جائیں گے۔
(۳) جو لوگ ایسی محفوظ آبادیوں میں رہتے ہوں یا ایسے علاقوں میں ان کی دوکانیں ہوں کہ وہ جانی ومالی خطرات سے دو چار نہ ہوں تو ان کے لئے بھی انشورنس سے اجتناب ضروری ہے۔
(۴) جو مسلمان غریب ہوں، ایسی آبادیوں میں رہتے ہوں، یا ایسی آبادیوں سے بار بار گزرنے کی نوبت آتی ہو، جس میں جان ومال کو خطرہ ہو، یا ایسے ہی غیر محفوظ علاقہ میں ان کی تجارت اور کاروبار ہو تو ان کے لئے جان ومال کے انشورنس کی گنجائش ہے۔
(۵) جان ومال کا انشورنس کرانے کی صورت بیمہ کرانے والے کے لئے اس کی اصل رقم ہی جائز ہوگی، ملنے والی زائد رقم جائز نہیں ہوگی، اور ضروری ہوگا کہ بغیر نیت ثواب غرباء پر صدقہ کر دے یا یہ رقم رفاہی کاموں میں خرچ کر دی جائے؛ لیکن یہ حکم اس وقت ہے جب موت طبعی طور پر ہوئی ہو، یا کاروبار کسی آفت سماوی کا شکار ہوا ہو، اگر فسادات میں ہلاکت واقع ہوئی، یا کاروبار متأثر ہوا تو اب پوری رقم جائز ہوگی؛ اس لئے کہ انشورنس کمپنی نیم سرکاری کمپنی ہے، اور مسلمانوں کا تحفظ بھی سرکاری ذمہ داری ہے، حکومت کی طرف سے مسلمانوں کی حفاظت میں غفلت؛ بلکہ ان کو نقصان پہنچانے کی سعی میں شرکت شب وروز کا مشاہدہ ہے؛ اس لئے یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے تغافل کا ہرجانہ ادا کرے۔
ان امور کی رعایت کے ساتھ موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لئے انشورنس کی گنجائش نکلتی ہے، اور اگر کوئی دوسرے غریب شخص کا انشورنس کرا دے تو اس میں فقہی نقطۂ نظر سے قباحت مزید کم ہو جاتی ہے۔ واللہ اعلم۔