چند دن محدثین وفقہاء کی بارگاہ میں! (۱)
علوم اسلامی کا کون طالب علم ہوگا جس نے بخاری وسمرقند ، ترمذوخرتنگ، خوارزم اور ماوراء النہر کا نام نہ سنا ہو، اور حسین خوابوں کی اس سرزمین میں پہنچنے کا آرزو مند نہ ہو،یہ سارے علاقے اس وقت روس کے استبداد سے آزاد ہونے والی وسط ایشیائی جمہوریتوں میں سے ایک ازبکستان میں واقع ہیں، روسی قبضہ کے زمانہ میں کوئی پرندہ بھی یہاں حکومت کے منشاء کے خلاف پَر نہیں مار سکتا تھا، اور خاص کر مسلمانوں کا اور علماء کا تو یہاں پہنچنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا،جب روس کا اقتدار ختم ہوا تو بحمد اللہ یہاں آمدورفت کا راستہ کھلا۔
در اصل اس خطہ میں ترکی نسل سے تعلق رکھنے والی پانچ ریاستیں ہیں، جو ایک ہی نسل کی مختلف شاخوں کی آبادیاں ہیں: ازبکستان، قازقستان، کرغزستان، ترکمانستان، آذربائیجان، یہاں جو زبانیں بولی جاتی ہیں، وہ بھی ترکی سے ملتی جلتی ہیں، اسی خطہ میں تاجکستان ہے، جہاں تاجک زبان بولی جاتی ہے، یہ فارسی سے قریب ہے، اور معلوم ہوا کہ نسلی اعتبار سے بھی وہاں کی بڑی آبادی فارسی النسل ہے، یہ ملک نہ صرف خود چاروں طرف سے خشکی سے گھِرا ہوا ہے؛ بلکہ جن ممالک کے درمیان ہے، وہ بھی ساحلِ سمندر سے محروم ہیں؛ لیکن قدیم زمانہ سے اس علاقہ کو خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے؛ کیوں کہ شاہراہ ریشم جو چین اور یورپ کے درمیان تجارت کا راستہ تھا، یہیں سے گزرتی تھی۔
مسلمانوں کی آمد سے پہلے یہ علاقہ تین حکمرانوں میں منقسم تھا: خوارزم شاہ، چنگیز خان اور تیمور، قتیبہؒ بن مسلم نے (۸۷ھ– ۷۰۵ء ہیں) میں اس علاقہ کو فتح کیا اور بہ تدریج یہ خطہ دامن اسلام میں آگیا، زار روس کے قبضہ سے پہلے یہ خطہ تین حصوں میں بٹا ہوا تھا: بخاریٰ، خوارزم، قہقان، تینوں ریاستوں میں حکومت مسلمانوں ہی کی تھی؛ لیکن الگ الگ قبائل کی، یہاں تک کہ ۱۸۶۰ء میں زار روس نے اِس پورے علاقہ پر قبضہ کر لیا، زار نے بھی کچھ کم ستم نہیں ڈھائے؛ البتہ اس نے کمیونسٹوں کی طرح مذہب کے معاملہ میں دخل نہیں دیا، پھر جب روس میں کمیونسٹ اقتدار میں آئے تو انھوں نے ۱۹۱۷ء میں اس پورے خطہ پر اپنا قبضہ جما لیا، ابتداء میں مزاحمت کی گئی، اور بالخصوص علماء نے بڑی قربانیاں دیں؛ لیکن آخر اس نے اس طرح شکنجہ کسا کہ مسلمانوں کو آہ کرنے کا بھی یارا نہ رہا، اُس وقت روس ہتھیاروں کی کثرت کے لحاظ سے پہلے نمبر پرتھا اور اس کی فوجی طاقت ناقابل تسخیر سمجھی جاتی تھی، ان ملکوں کے لئے بہ ظاہر اس کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں تھا؛ مگر ناامیدی اور مایوسی کی اسی تیرہ و تاریک شب میں خدا کی غیبی طاقت کا نور طلوع ہوا، جو افغانستان سے اُٹھا اور اُس نے روس جیسی طاقت کی پھیلائی ہوئی ظلمت کو پاش پاش کر دیا، آخر جب افغان مجاہدین نے اس سُپر طاقت کا غرور خاک میں ملا دیا اور اس نے وہاں سے رخت سفر باندھا تو بہت جلد وہ اِن ملکوں سے بھی واپسی پر مجبور ہوا، اور یہاں آزادی کا سورج طلوع ہوسکا، جیسے ہندوستان میں لوگوں کو انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرنی پڑی، یہاں ایسا نہیں ہوا؛ بلکہ اس کاسبب یہ ہوا کہ افغانستان کی جنگ سے روس کو فوجیوں اور ہتھیاروں کا جو نقصان ہوا ، وہ تو ہوا ہی، معاشی اعتبار سے بھی اس کی کمر ٹوٹ گئی، اور اس کی مثال اس دیو ہیکل درخت کی ہو گئی، جو اپنے آپ سوکھ کر گر گیا ہو۔
روسی دور اقتدار میں یوں تو ہر طبقہ متأثر ہوا، کمیونزم کے غیر فطری نظام کی وجہ سے محنت کشوں کا جذبۂ محنت سرد پڑ گیا، صنعت کاروں میں جذبۂ مسابقت باقی نہیں رہا، اس کی وجہ سے معاشی ترقی رک گئی، حکومت کی پوری توجہ اس غیر فطری نظام کو تقویت پہنچانے کے لئے فوجی طاقت میں اضافہ پر مرکوز ہوگئی، بین الاقوامی تجارت میں اس کا حصہ کم سے کم تر ہوتا گیا؛ لیکن اس سے سب سے زیادہ مذہبی طبقہ اور جمہوریت پسند گروہ متأثر ہوا؛ کیوں کہ کمیونزم کا خلاصہ یہی تھا کہ عوام دو کفِ جَو کے بدلے، اپنا ضمیر، اپنا عقیدہ، اپنی رائے اور اپنی زبان کو فروخت کر دیں، ازبکستان میں مردم شماری کے مطابق یوں تو مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں؛ لیکن ان کی تعداد بہت مختصر ہے، اورروس کی مذہب دشمن حکومت کے مقابلہ ان کی طرف سے کوئی مزاحمت بھی نہیں ہوئی، جو کچھ ہوئی مسلمانوں کی طرف سے ہوئی؛ اس لئے مسلمانوں کی مذہبی شناخت مٹانے کی زیادہ کوشش کی گئی۔
اکابرِمحدثین وفقہاء سے منسوب اس پورے خطہ میں مدارس کی کثرت تھی، اور یہ درسگاہیں طالبان علوم نبوت سے معمور تھیں؛ لیکن سارے مدارس بند کر دیے گئے، بعض دوسرے کاموں کے لئے استعمال ہونے لگے، اور بعض منہدم کر دیے گئے، پورے ملک میں صرف ایک مدرسہ میرعرب باقی رکھا گیا، اور اس میں بھی اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں کو پڑھنے سے منع کر دیا گیا، تاشقند جیسے بڑے شہر میں صرف دو مسجدوں میں نماز کی اجازت دی گئی، وہ بھی صرف بوڑھے لوگوں کو، مسجدیں یا تو میوزیم اور مارکیٹ میں تبدیل کر دی گئیں، یا زمیں بوس کر دی گئیں، پردہ پر سخت پابندی عائد کر دی گئی، نہ قرآن مجید رکھنے کی اجازت تھی، نہ اسلام پر کوئی کتاب طبع کرنے کی، لوگوں کے پاس جو قدیم کتابیںتھیں، وہ ان کو چُھپا چُھپا کر رکھتے تھے۔
اس خطہ میں فارسی رسم الخط کا استعمال ہوتا تھا، ۱۹۲۵ء میں جبراََ اس کو روسی رسم الخط میں تبدیل کر دیا گیا، پورے ملک میں کثرت سے محدثین، متکلمین، فقہاء اور صوفیاء کی قبریں ہیں، بہت سے مزارات بھی منہدم کر دیے گئے، اسکولوں میں کوئی دینی تعلیم نہیں دی جا سکتی تھی؛ البتہ ’’آداب نامہ‘‘ کے نام سے ایک مضمون شامل تھا، جس میں عمومی اخلاقیات کی تعلیم ہوتی تھی، روسی بڑی تعداد میں یہاں بسائے گئے، مسلمانوں سے ان کے ازدواجی رشتے بھی قائم ہوئے؛ بلکہ روسی عورت سے نکاح کو قابلِ افتخار سمجھا جاتا تھا، کمیونزم کے خلاف مزاحمت یا اسلام سے تعلق کی بناء پر جو لوگ شہید کئے گئے، وہ اتنے زیادہ تھے کہ ان کا کوئی شمار نہیں تھا۔
اس ماحول میں یہاں علماء نے جان کی بازی لگا کر جس حُسن تدبیر سے اسلام کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا، وہ تاریخِ دعوت وعزیمت کا ایک روشن باب ہے، لوگوں کو اسلام پر قائم رہنے کے لئے اپنی داڑھیاں منڈانا پڑیں، جوانوں کے لئے تو داڑھی کی اجازت بالکل نہ تھی، بوڑھوں کے لئے تھوڑی رعایت تھی، علماء نے حجروں کی خفیہ تعلیم کا نظام قائم کیا ، زیر زمین حجرے بنائے جاتے، جو پہلے اس خطہ کی خانقاہوں میں ذاکرین کے لئے بنائے جاتے تھے، اس میں چُھپ چُھپا کر لوگ آتے اور قرآن مجید نیز اسلام کی بنیادی باتیں سیکھتے، بعض دفعہ پہلے حجرہ میں الماریوں میں شراب کی بوتلیں رکھی جاتیں؛ تاکہ پولیس پہنچے تو اسے شراب خانہ سمجھے، اور اندر کے حجرہ میں تعلیم دی جاتی ، کبھی کھانے کی دعوت دی جاتی اور کھانے کے بہانے اپنے معتمد لوگوں کے سامنے اسلامی تعلیمات پیش کی جاتیں، جاسوس اتنے زیادہ تھے کہ ہر لمحہ خطرہ محسوس کیا جاتا، بعض اوقات شوہر وبیوی یا باپ بیٹا دونوں مسلمان ہوتے؛ مگر ایک دوسرے سے اپنا مسلمان ہونا چھپاتے، خوف وہراس اور ظلم وجور کی اس فضاء میں علماء ومشائخ نے لوگوں کے ایمان کی حفاظت کا سروسامان کیا۔
۷۵؍ سال کے طویل وقفہ میں ایسا لگتا تھا کہ اس سرزمین سے اسلام کا نام ونشان مٹ چکا ہوگا، مگر یہ اسلام کا اعجاز ہے کہ جوں ہی روس کا جبری نظام ختم ہوا، مسلمانوں کے سینوں میں دبی ہوئی ایمان کی چنگاری پھر سے روشن ہوگئی، جو لوگ کمیونسٹ ہونے پر فخر کرتے تھے، یا تو خود انھوں نے کلمہ پڑھ لیا، یا ان کی نسلوں نے اشتراکیت کا طوق اپنی گردن سے اتار پھینکا، نوجوان عمومی طور پر اسلام کے سایہ میں واپس آگئے، جو روسی اس خطہ میں آباد کئے گئے تھے، ان میں بیشتر تو واپس ہوگئے، اور جو رہ گئے، وہ زیادہ تر مسلمان ہو گئے، فضاء میں ایسی تبدیلی ہوئی کہ جو اپنے آپ کو ملحد کہتے تھے، وہ بھی کم سے کم زبانی طور پر خود کو مسلمان کہنے لگے۔
روس سے آزادی کے بعد ازبکستان کے پہلے صدر اسلام کریموف ہوئے، اگرچہ اسلام کی طرف ان کا زیادہ جھکاؤ نہیں تھا؛ لیکن ان کے دور میں سختیاں کچھ کم ہو گئیں، بہت سی مسجدیں بحال کی گئیں، مائک میں اذان کی اجازت ملی، ان کے بعد موجودہ صدر شوکت ضیائیف صدر منتخب ہوئے، ان کے عہد میں کافی سہولتیں پیدا کی گئی ہیں، بہت سی مسجدیں آباد ہوئی ہیں، بعض مسجدیں اور مقابر جو منہدم کر دیے گئے تھے، موجودہ حکومت نے دوبارہ پہلے ڈیزائن پر ہی ان کو تعمیر کرایا ہے، عوام کو خود مختار مدارس قائم کرنے کی اجازت تو نہیں ہے؛ لیکن حکومت کے زیر نگرانی اس وقت ملک بھر میں ۱۱؍ مدارس چل رہے ہیں، جن میں تین وہاں کی اصطلاح میں ’’عالیہ‘‘ ہیں، یعنی وہاں سے طلبہ فارغ ہوتے ہیں، موجودہ فرمانروا کے اِس طرز عمل سے عوام بہت خوش ہیں، اس خطہ میں آکر سب سے زیادہ جس چیز نے شاد کام کیا، وہ یہ کہ ماشاء اللہ ہر نماز میں مسجدیں آباد رہتی ہیں، اوربڑی حد تک نمازیوں سے پُر رہتی ہیں، نیز ممانعت کے باوجود ان میں غالب تعداد نوجوانوں کی ہوتی ہے۔
اِس وقت ملک کا دستور سیکولرزم پر مبنی ہے، یعنی حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہے؛ لیکن عوام کے لئے ذاتی زندگی میں ایک حد تک مذہب پر عمل کرنے کی اجازت ہے، یکم ستمبرکو اس کا’’ یوم استقلال‘‘ قرار دیا گیا ہے، یعنی قومی دن کو یوم آزادی کی بجائے ’’یوم خود مختاری ‘‘ کا نام دیا گیا ہے، ملک کا دستور زیادہ تر روس کے دستور سے ماخوذ ہے، یہاں بحیثیت مجموعی ۱۹؍ مذاہب کے ماننے والے لوگ ہیں؛ لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے، ۳؍ کروڑ ۳۰؍ لاکھ کی آبادی میں ۹۶؍ فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں، سرکاری زبان اُزبک ہے؛ لیکن روسی زبان بھی کثرت سے بولی جاتی ہے، شہروں میں لوگوں کا معیار زندگی کافی اچھا ہے؛ لیکن دیہاتوں میں کافی غربت ہے ، جہاں بہت سے مٹی کے کچے مکانات نظر آتے ہیں، روس نے یہاں کھیتوں کی سینچائی کا اچھا نظام بنایا ہے، اور زیادہ سے زیادہ زرعی اراضی تک پانی پہنچانے کی کوشش کی ہے، زمین میں کھلی نالیوں کے بجائے زمین کی سطح سے تقریباََ دو فٹ اوپر اوپر پائپ کے ذریعہ نالیاں بنائی گئی ہیں، اور ان کو کھیتوں تک پہنچایا گیا ہے، شاید پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے ایسا کیا گیا ہے، سیرابی کا بنیادی ذریعہ دو دریا ہیں، ایک: دریائے آمور، جس کا پرانا نام دریائے جیحون ہے، دوسرا: دریائے سیحون، ملک کو کئی قدرتی وسائل بھی حاصل ہے، جن میں سونا، چاندی، نیچرل گیس، ہائیڈروجن گیس اور ملک کی ضرورت کے بقدر پٹرول اہم ہیں، کاٹن کی پیداوار کے اعتبار سے یہ دنیا کے چند گنے چنے ملکوں میں ہے؛ اسی لئے یہاں ٹیکسٹائل اور قالین کی صنعت کافی ترقی یافتہ ہے، لوگوں کا معیار زندگی تو بہت اچھا ہے؛ لیکن یہاں کی کرنسی جو– سوم– کہلاتی ہے ، کی قیمت بہت ہی کم ہے،9500 سوم ایک امریکی ڈالر کے برابر ہے، روس نے اس ملک کو جو فائدہ پہنچایا ہے، ان میں یہ ہے کہ سڑکیں کشادہ اور بہتر ہیں، لائٹ کا بہت اچھا نظم ہے، اور ملک کے ہر شہری کو ذاتی مکان حاصل ہے۔
اس ملک کی علمی تاریخ کی وجہ سے یہاں حاضری کی خواہش تو بہت عرصہ سے تھی؛ لیکن کچھ دنوں پہلے گجرات کے سفر میں دارالعلوم کھروڑ کے استاذ محب عزیز مولانا محمد ارشد صاحب سے ملاقات ہوگئی، اور کسی مناسبت سے بخاریٰ وسمرقند کا ذکر آگیا تو معلوم ہوا کہ وہ اس ملک کا سفر کر چکے ہیں، میں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ اگر رمضان المبارک کے بعد سفر کی کوئی صورت بنتی ہو تو میں بھی شریکِ سفر ہونا چاہوں گا، اسی دن اتفاق سے گفتگو میں ان ہی کے ہم نام عزیز مکرم مولانا محمد ارشد فلاحی سلمہ (استاذ فلاح دارین ترکیسر) بھی شامل ہوگئے، جو المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد کے ابتدائی دور کے فضلاء میں ہیں، اور انھوں نے کہا کہ اگر آپ کا سفر ہو تو میں بھی آپ کے ساتھ رہوںگا، اور آپ کی خدمت کروں گا؛ البتہ مدرسہ کی ضرورت کے لحاظ سے ان کی رائے ہوئی کہ رمضان المبارک سے پہلے ہی یہ سفر ہو جائے، میں نے بھی حامی بھر لی، ازبکستان کی راجدھانی تاشقند میں ایک نوجوان فاضل مولانا عبدالقیوم صاحب ہیں، جن سے گذشتہ سفر میں مولانا ارشد کھروڑ کی ملاقات ہوئی تھی، انھوں نے جب ان سے میرے ارادہ کے بارے میں بتایا تو بہت خوش ہوئے، انھوں نے اس حقیر کی کتاب ’’حدیث اور فقہ حنفی‘‘ کا ازبک زبان میں ترجمہ بھی کیا ہے، انھوں نے نہ صرف میری آمد پر اصرار کیا؛ بلکہ پورے سفر کے اخراجات اور انتظامات بہت ہی اصرار کے ساتھ اپنے ذمہ لے لیا۔
بالآخر ۱۰؍ مارچ ۲۰۲۰ء کو راقم الحروف اور ارشدین عزیزین کا سہ نفری قافلہ ممبئی سے ازبکستان ائیرلائنز کے ذریعہ تاشقند کے لئے روانہ ہوگیا، ساڑھے تین گھنٹہ میں ہم لوگ تاشقند پہنچ گئے، تاشقند سے ۲۲۲؍ کیلو میٹر پہلے برف کی دبیز چادروں سے ڈھکا ہوا پہاڑی سلسلہ نظر آیا، جو بڑا خوبصورت منظر تھا، ہم لوگ ائیرپورٹ سے اترے تو محب عزیز مولانا عبدالقیوم اپنے رفقاء کے ساتھ ائیرپورٹ پر موجود تھے، میزبان کی خواہش پر میں نے اپنی کچھ کتابیں ساتھ رکھ لی تھیں، اور مولانا ارشد کھروڈ نے مولانا عبدالقیوم کے آرڈر پر ان کے لئے کچھ کتابیں خریدی تھیں، دونوں ملا کر اچھی خاصی مقدار ہو گئی، کتابوں کے سلسلہ میں ائیرپورٹ کے عملہ کو کافی تأمل تھا؛ لیکن وضاحت کے بعد مسئلہ حل ہوگیا، اندازہ ہوا کہ مذہبی کتابوں کے سلسلہ میں ابھی بھی ان ملکوں کا رویہ کافی سخت یا محتاط ہے،ابھی صبح کا دس گیارہ ہی بجا تھا ،ہم لوگ ہوٹل لے جائے گئے، وہیں ناشتہ کیا اور کچھ دیر آرام کے بعد شہر کے لئے نکلے، تاشقند وہی شہر ہے جو قدیم دور میں’’ شاش‘‘ کہلاتا تھا، شاش کے معنیٰ ترکی زبان میں پتھر اور چٹان کے ہیں، اور ’’ قند‘‘ کے معنیٰ شہر کے ہیں، بعد کو یہ تاشقند کے نام سے معروف ہوگیا۔
تاشقند کی ایک شام
نظام یہ طے ہوا کہ بخاریٰ وسمرقند اور ترمذ کے بعد تاشقند کی سیر کی جائے؛ لیکن آج جو وقت بچا ہوا تھا، یہ بھی استعمال میں آجائے؛ اس لئے ہم لوگ یہاں کی ایک قدیم درسگاہ مدرسہ کوکل داش جس کو آج کل’’ گوگل داس‘‘ کہا جاتا ہے ، کی زیارت کے لئے پہنچے، اس کا شمار یہاں کے مدارس عالیہ میں ہوتا ہے، یہاں دو سو طلبہ زیر تعلیم ہیں، مدرسہ کے اندر جانے کا موقع نہیں ملا؛ کیوں کہ کسی بیرونی مہمان کو مدرسہ کے اندر جانے اور طلبہ سے ملاقات کرنے کی اجازت نہیں ہے، اس مدرسہ کی تعمیر عبد اللہ خان کے زمانہ اقتدار میں ہوئی، ۱۵۵۷ء سے ۱۵۹۸ء تک ان کی حکومت تھی، یہ ۱۶۰؍ کمروں پر مشتمل ہے، اور ۱۹۹۲ء میں اس کو ورلڈ ہیری ٹیج میں شامل کر لیا گیا ہے، اس مدرسہ کے سامنے ’’ مسجد کلاں‘‘ ہے، یہ بڑی وسیع مسجد ہے، ہم لوگوں نے اسی میں مغرب کی نماز ادا کی، اسی کے قریب ’’شور بازار‘‘ ہے، جو یہاں کا قدیم اور وسیع مارکٹ ہے، ہر سامان کا الگ الگ حصہ ہے، ہر حصہ میں صرف اسی کی دکانیں ہیں، سفر کے آخری دنوں میں ہم لوگ اِس بازار میں بھی گئے، عصر کے بعد ہم لوگ تاشقند کے نئے شہر پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے کے لئے کار سے نکلے اور کافی دیر چلتے رہے، یہاں عام طور پر عمارتیں زیادہ اونچی نہیں ہیں اور یورپ کے انداز پر چھپر نما صورت میں بنی ہوئی ہیں؛ کیوں کہ ٹھنڈ کے موسم میں کافی برف باری ہوتی ہے، یہاں سڑکوں کو روشنی سے سجانے اور قمقموں کے جھالر لگانے کا بڑا رواج ہے، اور چوں کہ نیروز کا تہذیبی تہوار بھی قریب تھا؛ اس لئے لوگوں نے زیادہ اہتمام سے شہر کو سجا رکھا تھا، یہ بڑا خوبصورت منظر تھا، ایسا لگتا تھا کہ روشنی کی بارش ہو رہی ہے، مغرب بعد ہم لوگ مولانا اکرام صاحب کے یہاں واپس آئے، جو آج عشائیہ کے میزبان تھے، اکرام صاحب کے والد کا نام مولانا عبداللطیف خان تھا، جو ایک عالم تھے ، ازبک زبان میں فارسی قواعد پر ان کی ایک کتاب بھی ہے، جو مدارس میں پڑھائی جاتی تھی، وہ خود بھی ایک مدرسہ عالیہ سے فارغ ہیں، یہاں کھانے پر مولانا حکمت اللہ صاحب بھی آگئے، جو حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے شاگرد ہیںاور اچھی اردو بولتے ہیں۔ (جاری)