نئی دہلی: 29/مارچ (پریس ریلیز) ایک طرف کورونا وائر س جیسی خطرناک وباسے ہندوستان کے عوام جہاں مستعدی سے جنگ لڑرہے ہیں وہیں دوسری طرف غیر منظم طریقہ سے کئے گئے لاک ڈاؤن سے اب عام لوگوں کی زندگی بھی مشکل ترہوتی جارہی ہے، سب سے زیادہ پریشانی میں تو دہلی فسادکے متاثرین ہیں جن کی بازآبادکاری کا کام چل ہی رہا تھا کہ اچانک لاک ڈاؤن سے ان کے سامنے ایک نئی مصیبت آن کھڑی ہوئی ہے اوران تک پہنچنے والی امدادکی راہیں بھی مسدودہوتی جارہی ہیں، اس نازک وقت میں ان کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے مولانا سیدا رشدمدنی کی ہدایت پر جمعیۃعلماء ہند ایک بارپھر مدد کے لئے سامنے آگئی تاکہ یہ متاثرین ضروری اشاء کی خریداری بآسانی کرسکیں چنانچہ کل پہلے مرحلہ میں 91خاندانوں میں نقدی رقم تقسیم کی گئی اور یہ مالی مدد ہندومسلم کی تفریق کئے بغیر کی گئی ہے ان میں قابل قدرتعدادضرورت مند اورمجبورہندوخاندانوں کی بھی ہے،مولانا مدنی کی ہدایت پرمفتی عبدالرازق کی نگرانی میں کھجوری خاص اور گڑھی مینڈھواوردیگر علاقوں کے متاثرین کویہ مالی مددفراہم کی گئی ہے، جمعیۃعلماء ہند کی طرف سے سوعددمکانوں کی تعمیر اورمرمت کا کام بھی چل رہاتھا ساتھ ہی متاثرین کی بازآبادکاری بھی لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے سردست رک گیاہے، مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند پہلے سے ہی دہلی فسادمتاثرین کے درمیان کام کررہی ہے مگر لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد ہم نے شدت سے یہ بات محسوس کی کہ بہت سے لوگوں کو ضروری اشیاء کیلئے پیسے کی اشدضرورت ہوگی چنانچہ کچھ علاقوں میں لوگوں تک امدادی رقم نقد پہنچادی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے پھیلنے اورلاک ڈاؤن کی وجہ سے جوہنگامی حالات پیداہوئے ہیں اس کے پیش نظرجمعیۃعلماء ہند کی تمام صوبائی یونٹوں کو اس بات کی ہدایت کردی گئی ہے کہ وہ مذہب کی تفریق کے بغیر ہر ضرورت مند کی مددکریں،اترپردیش کے تقریبا مختلف اضلاع میں ہمارے رضاکارامداداورراحت کے کام میں مصروف ہیں دوسری ریاستوں میں بھی ضرورت مندوں کوراشن اوردوسری چیزیں مہیاکرانے کی کوشش ہورہی ہے مولانا مدنی نے کہا کہ ملک کے لئے یہ نازک گھڑی ہے اور اس نازک گھڑی میں ہم سب کا یہ اخلاقی اورمذہبی فرض ہے کہ ضرورت منداور پریشان کی ہرممکن طریقہ سے مددکریں اور اس بات کا خیال رکھیں کہ ہمارے پڑوس اورمحلہ میں کوئی شخص بھوکا نہ رہے۔ قابل ذکر ہے کہ جمعیۃعلماء ہند ایک انتہائی قدیم اورنمائندہ تنظیم ہے جس نے اپنے قومی وملی نظریہ پر قائم رہتے ہوئے ہر موقع پر انسانوں کی خدمت کی ہے فسادات ہویا پھرقدرتی آفات سے ہونے والی تباہی اس نے مذہب سے اوپر اٹھ کر متاثرین کی مددکو ہمیشہ اپنا نصب العین سمجھاہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ غیر منظم اندازمیں جس طرح لاک ڈاؤن کااعلان کیا گیا اس کے مضراثرات رفتہ رفتہ ایک خطرناک شکل میں ہمارے سامنے آنے لگے ہیں دہلی اترپردیش کی سرحد پر بے بس اورمجبورانسانوں کا سیلاب یہ بتاتاہے کہ لاک ڈاؤن کا فیصلہ لیتے ہوئے ہندوستان جیسے ملک پر پڑنے والے اثرات پر غورنہیں کیا گیا جس کی وجہ سے لاک ڈاؤن شہری زندگی کے علاوہ بے معنی ہوکر رہ گیا ہے، اور اس صورت میں عام شہریوں کو جو پریشانی یا دقت ہوسکتی ہے اس کابھی اندازہ نہیں لگایا گیا اس بات کا ہی لحاظ نہیں رکھا گیا کہ ضروری اشیاء کی سپلائی کیوں کرممکن ہوگی، 14اپریل کی تاریخ ابھی بہت دورہے مگر ابھی سے ضروری اشیاء کی قلت شروع ہوچکی ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ اس طرح کے فیصلوں سے پہلے حکومتوں کو ان تمام باتوں پر غورکرنا چاہئے تھا مگر افسوس ایسا نہیں ہوا، کورونا وائر س کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے لاک ڈاؤن ضروری تھا مگر اس کے لئے پہلے سے تیاری بھی کی جانی چاہئے تھی اب سڑکوں پر لاکھوں کی تعداد میں بے بس اور غریب لوگوں کی اپنے گھروں کو واپس لوٹنے کی مجبوری یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ حالات لاک ڈاؤن کی وجہ سے کس طرح ابتر ہوتے جارہے ہیں، وزارت صحت کے مطابق کوروناسے بچاؤ کا سب سے اہم علاج بھیڑمیں نہ شامل ہونا اوراکیلے میں رہنا اور دوسرے سے فاصلہ بناکر رکھنا ہی اس کا علاج ہے، لیکن اب جس طرح لوگ بھیڑ کی شکل میں نقل مکانی کررہے ہیں اس سے لاک ڈاؤن کی افادیت ہی ختم ہوگئی ہے، جس طرح افراتفری کا ماحول ہے اس سے اس وباکے پھیل جانے کے خطرات مزید بڑھ سکتے ہیں خدانخواستہ جس سے پوراملک متاثرہوسکتاہے۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جو کام حکومتوں کو کرنا چاہئے تھا غیر سرکاری تنظیمیں کررہی ہیں جس کے رضاکاراپنی جان جوکھم میں ڈال کراس طرح کی لوگوں کی ہر ممکن طرح سے مددکررہے ہیں مگر حکومتوں کی طرف سے ان کی کوئی مددنہیں ہورہی ہے المیہ تو یہ ہے کہ پولس کو کھلی چھوٹ دیدی گئی ہے کہ جوبے گناہ شہریوں کو ظلم وستم کا نشانہ بنارہی ہے، یہاں تک کہ لوگ ضروری سامان کی خرید کے لئے بھی گھروں سے باہر نکلنے کا حوصلہ نہیں کرپارہے ہیں۔