نئی دہلی: 17؍مارچ (پریس ریلیز) دہلی فساد کے دو ہفتے بعد جب جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے دہلی ہائی کورٹ میں محمد مرسلین کی بازیابی کو لے کر عرضی داخل کی گئی تو اس کی اگلے دن پولس نے بلاکر جی ٹی بی ہسپتال سے اس کی لاش رشتہ داروں کے حوالے کردی جب کہ اندراوہار میں رہنے وا لی اس کی بیوہ اور بھائی اسے 26؍فروری سے مسلسل تلاش رہے تھے ۔ اسی مسئلے کو لے کر آج جسٹس وی پن سانگھی اور رجنیش بھٹناگر کی ڈویژن بنچ نے دہلی پولس سے سوال کیا کہ اب تک ایف آئی آر کیو ں نہیں درج ہوئی ؟ پولس جو پہلے سے ہی اس معاملے کو فساد سے علیحدہ کرکے پیش کررہی ہے اور اسے عام قتل کا وا قعہ بتا کر ہلکا کرنے کی کوشش کررہی ہے وہ عدالت میں تشفی بخش جواب نہیں دے سکی ۔ جس کے بعد عدالت نے صاف لفظو ںمیں پولس سے کہا کہ وہ بلاتاخیر ایف آئی آر درج کرے اور اس سلسلے میں اس کی بیوہ کا اضافی بیان بھی درج کیا جائے ۔
واضح ہو کہ محمد مرسلین ۲۶؍فروری کو مراد نگر سے دہلی آرہا تھا، لیکن 13؍مارچ تک اس کا کوئی پتہ نہیں چلا ،پولس نے لاش حوالہ کرنے کے وقت اس کی مسخ شدہ تصویر بھی دکھلائی جس میں وہ کسی نالے سے نکالا گیا ہے ۔جمعیۃ علماء ہند کے وفد نے گزشتہ ہفتے اس کے اہل خانہ سے ملاقات کی تھی اور اہل خانہ کو وقتی مالی تعاون کے علاوہ انصاف دلانے کا وعدہ کیا تھا ۔جمعیۃ علماء ہند ایسے کم شدہ افراد کو لے کر ہائی کورٹ میں کئی عرضیاں داخل کرچکی ہیں ، جن میں چند افراد کی بازیابی ہو چکی ہے ، گزشتہ ہفتے مصطفی آباد کا اٹھارہ سالہ محمد حمزہ عدالت کی شنوائی کے اگلے دن ہی گھرواپس لوٹ آیا تھا۔
جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے عدالت میں ایڈوکیٹ محمد نوراللہ اور ایڈوکیٹ حبیب الرحمن پیش ہوئے۔دہلی فساد سے متعلق مقدمات کی نگرانی کرنے والے جمعیۃ علماء ہند کے سکریٹری ایڈوکیٹ نیاز احمد فاروقی نے بتایا کہ جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی صاحب نے پہلے دن سے یہ طے کیا ہے کہ لوگوں کو عدالتی چارہ جوئی کے ذریعہ انصاف دلانے کو ترجیحی طور سے لیا جائے ۔جہاں تک لوگوں کی رہائشی ، سماجی ومعاشی بازآبادکاری نیز متاثرین کو روزگار سے جوڑنے کا تعلق ہے تو اس کے لیے جمعیۃ ریلیف کمیٹی مسلسل کام کررہی ہے اور حسب روایت سروے وغیرہ کے سا تھ مدد کا سلسلہ جاری ہے۔