ریاست و ملک

جمعیۃ علماء ہند و دیگر مسلم رہ نماؤں کے وفد کی مرکزی وزیر داخلہ امت شاه سے ملاقات

نئی دہلی۔21/ستمبر2019 (پریس ریلیز) جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری کی قیادت میں مسلمانوں کے ایک وفد نے آج بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ سے ان کی رہائش گاہ کرشنا مینن مارگ پر ملاقات کی اور ملک و ملت کو درپیش کئی اہم اور سلگتے مسائل پر دو ٹوک گفتگو کی۔ اس وفد میں سربراہ کے علاوہ جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی، امیر جمعیت اہل حدیث ہند مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، مفتی محمد سلمان منصورپوری رکن مجلس عاملہ جمعیۃ علماء ہند، مولانا نیاز احمد فاروقی سکریٹری جمعیۃ علما ء ہند، مولانا متین الحق اسامہ کانپور صدر جمعیۃ علماء اترپردیش، مولانا حافظ پیر شبیر احمد حیدر آباد، شکیل احمدسید رکن مجلس عاملہ جمعیۃ علماء ہند، مولانا حافظ ندیم صدیقی صدر جمعیۃ علماء مہاراشٹرا، مولانا معزالدین احمد،مولانا یحیی کریمی میوات، مفتی محمد عفان منصورپوری اور حبیب فاروقی ممبئی شامل تھے۔
ملاقات کے وقت جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے حالیہ اجلاس مجلس منتظمہ جمعیۃ علماء ہند میں منظور کردہ تجاویز کا ہندی ایڈیشن پیش کیا اور کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کی منتظمہ کمیٹی ایسے ممبروں پر مشتمل ہے جو ملک کے ہر حصے اور ہر صوبے کے مسلمانوں کی قیادت کرتے ہیں۔مولانا مدنی نے کہا کہ اگرچہ حکومت کے ساتھ بہت سی باتوں میں ہمارا اختلاف ہے لیکن جہاں ملکی مفاد کی بات کرے گی تو ہم ملک کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔اسی لیے ہماری منتظمہ کمیٹی نے کشمیر کے موضوع پر قرار داد میں صاف کہا ہے کہ کشمیر اور کشمیری سب ہمارے ہیں، ہم ان کو الگ نہیں کرسکتے اور ہندستانی مسلمان ہر طرح کی علیحدگی پسندی کے خلاف ہے اور جمعیۃ علماء ہند پہلے ہی سے متحدہ ہندستان کی حامی رہی ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ جہاں تک این آرسی کا مسئلہ ہے تو آسام کے حوالے سے مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی کوشش اور پورے ملک میں نفاذ سے متعلق آپ کے بیانات کو دھمکی بنا کر پیش کیا جارہا ہے، اگر آپ کی طرف سے مناسب وضاحت ہو تو یہ قومی مفاد میں بہتر ہوگا۔ اسی طرح ہم نے یو اے پی اے کی ترمیمات سے متعلق تجویز منظور کی ہے، ہم نے مانا کہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے ترمیم ناگزیر ہے، لیکن اس کے سا تھ پولس اور انتظامیہ کے ذریعہ ناجائزطاقت کے استعمال کا سدباب بھی ضروری ہے۔
ان تمام معروضات کے سننے کے بعد وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دفعہ 370 کا ختم کرنا کشمیریوں کے مفاد میں ہے، اس دفعہ سے کشمیری عوام کو فائدہ کے بجائے نقصان تھا جس کی انھوں نے کئی مثالیں بھی پیش کیں تاہم انھوں نے یقین دلایا کہ اس کی وجہ سے کشمیریوں کی تہذیب کو ہرگز متاثر نہیں ہو نے دیں گے۔ اس پر مفتی محمد سلمان منصورپوری نے کہا کہ کشمیر میں میڈیا و دیگر ذرائع پر پابندی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو پریشانی لاحق ہے،ا س لیے اس کا فوری حل نکلناچاہیے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ کشمیر میں 196 پولس اسٹیشن ہیں، ان میں صرف سات میں 144 نافذ ہے، کرفیو نہیں ہے، صرف چودہ پولیس اسٹیشنوں پر رات میں کرفیو نافذ ہوتاہے، جہاں تک موبایل بند کرنے کا قضیہ ہے تو اس کی وجہ پاکستان کے ذریعہ سوشل میڈیا پروپیگنڈا ہے۔جس طرح کے اشتعال انگیز فرضی مواد شائع کیے جارہے ہیں ان سے امن و امان کو شدید خطرہ لاحق ہے ، لیکن ہم نے متبادل کے طور پر لینڈ لائن فون کا انتظام کیا ہے اور کوئی بھی شخص چھ گھنٹے کے اندر یہ سروس حاصل کرسکتا ہے،مزید یہ کہ ہم نے ایک ہزار پی سی او لگائے ہیں تا کہ لوگ رابطہ کرسکیں، لیکن جو دور دراز کا علاقہ ہے، وہاں تھوڑی پریشانی ہے،۔اسکول کھول دیے گئے ہیں، تاہم ہم لوگوں پر جبر نہیں کرتے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ حالات نارمل ہورہے ہیں او رہم اس کے لیے ہر طرح سے کوشاں ہیں۔
صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری کے این آرسی سے متعلق وضاحت طلب کیے جانے پر وزیر داخلہ نے کہا کہ این آرسی کے سلسلے میں لوگوں کو خائف ہو نے کوئی ضرور ت نہیں ہے، آسام کے سلسلے میں ہم نے سرکولر جاری کیا ہے کہ جن لوگوں کا نام شامل نہیں ہوا تو ہم ان کے لیے سرکاری طور سے مفت قانونی خدمت فراہم کریں گے اور اگر کوئی شحص خود اپنا وکیل کرلے تو ہم اس کا خرچ بھی برداشت کریں گے۔ ہم آپ سے کہتے ہیں کہ آپ چار پانچ لوگوں کا وفد لے کر آسام جائیں اور اس پورے معاملے کی تحقیق کیجئے۔انھوں نے بتایا کہ جہاں تک پورے ملک میں این آرسی کی بات ہے تو دنیا کا کوئی ایک ملک بتا دیجئے جہاں این آرسی نہ ہوا۔ ہمارا مقصد اقلیتوں کو ہراساں کرنا نہیں ہے، ہم یہ یقینی بنائیں گے کہ کوئی بھی شخص مذہب کی بنیاد پر زد میں نہ آئے۔ جہاں تک دراندازوں کا مسئلہ ہے تو ہم ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔ لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ یہ ملک کا مسئلہ ہے اور یہ قدم ملک کی حفاظت کے لیے ضروری ہے۔یو اے پی اے ایکٹ میں ترمیمات سے متعلق وزیر داخلہ نے کہا کہ جو بھی قانون بنایا ہے اس کے اندر اس کا لحاظ کیا گیا ہے کہ اس کا غلط استعمال نہ ہو، اس میں سخت شرائط موجود ہیں۔و زیر داخلہ نے سدبھاؤ نا کمیٹی کے قیام پر جمعیۃ کی ستائش کی اور کہاکہ اس کی کوشش جاری رکھئے، آج کے دور میں باہمی گفتگو کی بڑی ضرورت ہے۔
جمعیت اہل حدیث اہل ہند کے امیر مولانا اصغر امام مہدی سلفی نے وزیر داخلہ سے کہا کہ ہم ڈائیلوگ اور باہمی گفتگو میں یقین رکھتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ملک کے مسائل بالخصوص اقلیتوں کو درپیش دشواریوں کو اسی راہ سے حل کیا جائے۔وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم تمام مسلم تنظیموں کے ساتھ کھلے دل سے بات کرنے کو تیار ہیں۔

Related Articles

9 Comments

  1. ماشاء اللہ, بہت خوب اور اچھی کوشش ہے, ہم جمعیت کے ساتھ کھڑے ہیں, اللہ جمعیت کی حفاظت فرمائے اور ہمارے ان لیڈران اور قائدین کی حفاظت فرمائے, آمین ثم آمین یارب

  2. عزت مآب وزیر داخلہ امت شاہ سےمسلمانوں کے ایک وفد کی ملاقات جس کا ذکر اس مضمون میں تفصیل سے ہے قابل داد ہے۰ اس ملاقات سے نہ صرف ہندوستان کے مسلمان بلکہ غیر مسلم بھائ بھی خوش ہوے ہوں گے۰ دیش کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایسی ملاقاتوں کی اشد ضرورت ہے۰ علماء کرام کی باتوں کو سننے کے بعد جناب امت شاہ صاحب نے بہت ہی اچھے انداز میں وفد کو سمجھایا ہے جسے پڑھکر ہم جیسے عوام کو ملک کے حالات کے بارے میں کافی معلومات حاصل ہوتے ہیں۰

  3. ما شاء اللہ، اپ حضرات نے بہت ہی اچھا کام کیا ہے۔
    اس کی سخت ضرورت بھی تھی۔
    اللہ تعالی آپ حضرات کی کاوشوں کو قبول فرمائے!
    اور آپ سب کو اس نیک کام کے لئے بہترین بدلہ عطا فرمائے!
    آمین!

    1. ماشاء اللہ بہت ہی اچھی کوشش ہے اور وقت کا تقاضا ہے اللہ ان ہمدردان قوم و ملت کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین این آر سی کے متعلق جو بات ہوئی قابل ستائش ہے

  4. لیکن ہم کیسے یقین کریں جو باتیں وزیر داخلہ نے کہی ہیں اور جو یقین دہانی کرائی ہے اس پر عمل ہو ان کی کرنی اور کتہنی میں بہت فرق ہوتا ہے اس سے پہلے وزیراعظم نے بھی کہا تھا کہ سب کا ساتھ سب کا وکاس سب کا وشواس اس نعرہ کے بعد مسلمانوں کا ایک طبقہ مطمئن ہو گیاتھا لیکن اسکے بعد سے آج تک ہم مشاہدہ کررہے ہیں کیسے وشواس حاصل کیا جا رہا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×