ایک زمانہ تھا جب مسلم سماج میں علماء اور حفاظ کی بہت کمی تھی، نمازتراویح کے لئے لوگ کئی کئی ماہ پہلے سے حافظ کو تلاش کرتے تھے، اور تراویح پڑھانے والوں کے بڑے ناز وانداز اور مطالبات ہوتے تھے، علماء تو بہت ہی کم ہوتے تھے، ایک متوسط درجہ کے شہر میں علماء کی تعداد اتنی کم ہوتی تھی کہ انگلیوں پر گنا جا سکتا تھا، بیشتر مسجدوں میں صرف حافظ امام ملتے تھے، جمعہ میں لوگ کتاب پڑھ کر سنا دیتے تھے، زیادہ تر مسجدوں میں زبانی بیان کرنے والے لوگ نہیں ہوتے تھے، دیہاتوں کی صورت حال یہ تھی کہ نکاح پڑھانے کے لئے بھی دور دور سے عالم کو بلاکر لاتے تھے، آج سے تیس چالیس سال پہلے تک ملک کے بیشتر حصوں میں یہی صورت حال تھی، مدارس کم تھے اور دارالاقامہ والے مدارس اور کم تھے، اور وہ اقامتی مدارس جن میں عالمیت تک مکمل تعلیم ہو، بہت ہی کم تھے، پوری ریاست میں چند مدارس ہوتے تھے۔
اللہ تعالیٰ کا شکر واحسان ہے کہ علماء نے جو مدارس کی تحریک شروع کی تھی، وہ ترقی کرتی گئی، آج چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی علماء کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے، قصبات اور بڑے دیہاتوں میں بھی علماء علم کی روشنی پھیلانے کا کام کر رہے ہیں، اب دور اُفتادہ قریہ جات ہی ہیں جہاں کوئی مدرسہ اور مکتب نہیں ہے، یاعلماء وحفاظ نہیں ہیں اور اس میں بھی دخل مقامی مسلمانوں کی غفلت، جہالت اور بے توجہی کا ہے، یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اب بڑے بلکہ متوسط شہروں میں بھی ضرورت سے زیادہ مدارس قائم ہو گئے ہیں، مثلاََ فرض کیجئے کہ کسی شہر میں پچیس ہزار مسلمان آباد ہوں تو وہاں زیادہ سے زیادہ ڈھائی سو بچوں کے بارے میں امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ حفظ قرآن مجید یا عالم کورس کی تعلیم حاصل کریں گے، یہ تعداد ڈھائی فیصد ہوتی ہے؛ لیکن آج کل بہت سے علاقوں میں اتنے چھوٹے چھوٹے مدارس ہیں کہ ان میں چالیس پچاس بلکہ بیس پچیس طلبہ پڑھتے ہیں اور وہ ابتدائی درجات کی تعلیم حاصل کرتے ہیں، اگر دیانت کے ساتھ ایسے پانچ چھ مدارس کو جمع کر دیا جائے تو ایک مدرسہ کی تعداد بنتی ہے، یہ تیس چالیس اور پچاس ساٹھ بچوں کی درسگاہوں کی کثرت کی وجہ سے وسائل ضائع ہوتے ہیں؛ چوں کہ ہر ادارہ میں کلاس کے اعتبار سے استاذ رکھنا ہوتا ہے، چاہے کلاس میں پانچ طالب علم ہوں یا پچیس، ہر ادارہ میں منتظم اور طباخ کی ضرورت پیش آتی ہے، اگر پانچ اداروں کو یکجا کر دیا جائے تو نصف سے بھی کم خرچ میں ان تمام طلبہ کی تعلیم ہو سکتی ہے، اس کی وجہ سے مستحق مدارس کی آمدنی کم ہو جاتی ہے، اور وہ اس موقف میں نہیں ہوتے کہ اساتذہ کو مناسب معاوضہ دیں اور سہولتیں فراہم کر سکیں، دوسری طرف تمام فارغین اپنا معاش مدرسہ اور مسجد ہی میں تلاش کرتے ہیں، یہ بھی مدارس کی معاشی کمزوری کی ایک وجہ ہے۔
بہر حال مدارس کی یہ کثرت مفید ہو یا نہیں اور مناسب ہو یا غیر مناسب؛ لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس کی وجہ سے طلبہ کی پہلے سے زیادہ تعداد بڑے مدارس میں پہنچتی ہے، پھر بڑے مدارس کا حال یہ ہے کہ ان کے یہاں تعلیمی مراحل کی تقسیم نہیں ہے، جیسا کہ دنیا کے تمام تعلیمی نظام میں ہوا کرتی ہے، جو مدارس درس نظامی کہلاتے ہیں، عام طور پر ان میں تعلیم کی ابتداء عربی زبان کے گرامر کی ایک کتاب ’’ میزان الصرف ‘‘ سے ہوتی ہے، اب صورت حال یہ ہے کہ جس بچے نے’’ میزان الصرف‘‘ کی جماعت میں داخلہ لے لیا، اس کے لئے دوہی راستے ہیں، یا تو بخاری شریف تک پہنچے اور مکمل عالم وفاضل کی سند لے کر تعلیم کی دنیا سے باہر آئے، اور اگر اس کا ذہن ساتھ نہ دے یا گھریلو حالات ساتھ نہ دیں تو تھک ہا رکر بیٹھ جائے، تعلیمی سلسلہ کو منقطع کر دے اور اس حال میں مدرسہ سے باہر آئے کہ اس کے پاس کوئی سند نہ ہو، اس کا نتیجہ ہے کہ سند یافتہ کم صلاحیت علماء کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، دوسری طرف بڑے مدارس کی شکایت بھی قائم ہے کہ ہمیں باصلاحیت اور باکردار اساتذہ نہیں ملتے۔
یہ بات بھی ظاہر ہے کہ معاش انسان کی بنیادی ضرورت ہے، کوئی شخص اس ضرورت سے مستغنی نہیں ہو سکتا، نہ حافظ نہ مولوی، نہ عالم نہ پیر، دنیا کی بعض قوموں میں یہ روایت ہے کہ ان کے مذہبی قائدین نہ شادی کرتے ہیں نہ کماتے ہیں؛ بلکہ وہ قوم کے نذرانوں پر اپنی زندگی گزارتے ہیں اور جب شادی نہ ہو، بیوی بچے نہ ہوں تو یوں بھی ان کی ضروریات محدود ہو جاتی ہوں گی، ہمارے ملک میں بھی اکثر مذہبی گروہوں کا یہی حال ہے؛ لیکن اسلام ایسے توکل کا قائل نہیں ہے، اکابر صحابہؓ، بڑے بڑے تابعین، فقہاء ومحدثین صنعت وتجارت کے ذریعہ اپنی ضرورتیں پوری کرتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ دین کی خدمت بھی کرتے تھے، اسلام نے ہنر مند اور باصلاحیت کو بے کار، کاہل اور سست مومن کے مقابلے بہتر قرار دیا ہے؛ لیکن دشواری یہ ہے کہ جب طلب کے مقابلہ رسد بڑھ جائے اور کسی میدان میں جتنے افراد کار کی ضرورت ہو، اس سے زیادہ افراد تیار ہونے لگیں تو چیز سستی ہو جاتی ہے اور انسان کی قدر گھٹ جاتی ہے، اس وقت مدارس سے فارغ ہونے والے نئے فضلاء اسی صورت حال سے دو چار ہیں، ضرورت ایک کی ہوتی ہے اور کئی لوگ اس کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں، پھر اگلا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ عام طورپر اس کام کے لئے جس معاوضہ کی ادائیگی کا رواج ہے، اس سے بہت کم پر راضی ہو جاتے ہیں، اگر یہ راضی ہونا اللہ کے دین کی خدمت اور قرآن وسنت کے اشاعت کے جذبہ سے ہو تب تو یہ فائدہ کا سودا ہے، اور ایسا سوچنے والے لوگ بھی الحمدللہ موجود ہیں اور منجانب اللہ لوگوں کے دلوں میں ان کی قدر بڑھ جاتی ہے؛ لیکن بہت سے لوگوں کی نیت اتنی بلند نہیں ہوتی، اور وہ مجبوری سمجھ کر اس پر راضی ہو جاتے ہیں، وہ اپنی سوچ کے اعتبار سے دنیا کا نقصان بھی اٹھاتے ہیں اور اپنی نیت کے اعتبار سے آخرت کے نقصان کا بھی اندیشہ ہے۔
اس لئے نوجوان فضلاء میں شدت سے معاشی محرومی کا احساس پایا جاتا ہے، اس احساس کو کئی باتیں بڑھاتی ہیں، سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ آج سے چالیس پچاس پہلے پرائیویٹ ملازمتوں اور گورنمنٹ ملازمتوں کی تنخواہیں بھی کچھ بہت زیادہ نہیں تھیں، اب چوں کہ ہندوستان افرادی وسائل کے اعتبار سے چین کے بعد دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے؛ اس لئے ترقی یافتہ ممالک کی کمپنیاں اپنا کاروبار یا کاروبار کے انتظامی اور تجارتی دفاتر ہندوستان میں قائم کر رہے ہیں، ان کمپنیوں میں کام کرنے والے نوجوانوں کو ہندوستان کے لحاظ سے اعلیٰ درجہ کی تنخواہیں ملتی ہیں؛ لیکن وہ تنخواہیں ان کے ملکوں کے لحاظ سے بہت کم ہوتی ہیں، اب اگر ایک ماں باپ کے پانچ بچے ہیں، چار عصری تعلیم کے میدان میں ہیں اور وہ مختلف کمپنیوں میں خدمت انجام دے کر اونچی تنخواہیں حاصل کرتے ہیں، اور ایک بھائی کسی مسجد میں امامت کرتا ہے یا کسی مدرسہ میں پڑھاتا ہے اور اس کی تنخواہ اپنے دوسرے بھائیوں کے مقابلہ مشکل سے دس بیس فیصد ہوتی ہے تو ایک ہی گھر میں دوسرے بھائیوں اور ان کے بال بچوں کا جو دنیوی معیار ہے، وہ اس بھائی سے بہت اونچا ہے، اگر مدرسہ سے پڑھا ہوا ایک فاضل قرآن وحدیث کی برکت سے اپنی خواہش پر قابو پا بھی لے اور اپنے آپ کو قناعت پر آمادہ کر لے تب بھی یہ بہت مشکل ہے کہ اس کے بیوی اور بچے بھی اس پر راضی ہو جائیں، اور ایک طرح کی کشمکش پیدا ہو جاتی ہے ، ان فضلاء کو بعض دفعہ ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ انھوں نے دینی تعلیم کے میدان میں آکر غلطی کی ہے، نعوذ باللہ۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ ان کو اداروں کے ذمہ داران اور مساجد کمیٹیوں کے ارکان کو دیکھ کر یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ان کے رہن سہن کا معیار ہم سے اونچا ہے، ان کے پاس گاڑی ہے، دیگر سہولتیں ہیں، ہمارے پاس یہ سب نہیں ہیں، یا کم معیار کی ہیں، اس سے ایک طرح کا جذبۂ منافرت جنم لیتا ہے، وہ اس بات کو سوشل میڈیا پر بھی لکھتے ہیں ، لوگوں کے درمیان بھی کہتے ہیں؛ لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا، پھر اس سے ان کی خفگی اور زیادہ بڑھتی ہے؛ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک قدیم استاذ یا ذمہ دار تیس چالیس خدمت کر کے جس مقام پر پہنچا ہے، آپ آج ہی وہ مقام حاصل کرلیں، یہ کیسے ممکن ہے؟ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تنخواہوں میں اضافہ ہوتا ہے، ان کے بچے بڑے ہوتے ہیں اور ان کی آمدنی بھی والد کے لئے معاشی تقویت کا سبب بنتی ہے، ان کی طویل خدمت کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا ہوتی ہے اور وہ ان کے خاموش تعاون کو اپنے لئے وجہ سعادت سمجھتے ہیں، یہ چیزیں ان کے لئے زندگی کے آخر حصہ میں فراخی کا باعث بنتی ہیں؛ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ بعض چھوٹے چھوٹے ادارے جس کے ذمہ دار کسی خاص ملّی ضرورت کے بغیر ادارے چلاتے ہیں، ان کے پاس بہت جلد بہت سی سہولتیں مہیا ہو جاتی ہیں؛ لیکن یہ ادارے بھی اور ان کے ذمہ داران بھی امت کی نظر میں بے وزن اور بے وقعت ہیں، نہ ان کے یہاں حساب وکتاب ہے، نہ کوئی مجلس انتظامی ہے، ایسے چند ادارے ضرور ہیں، بعض تو ایسے بھی ہیں، جن کا زمین پر کوئی وجود ہی نہیں ہے، صرف تعارف ناموں میں آپ ان کا نام پڑھ سکتے ہیں؛ لیکن اللہ کا شکر ہے کہ بیشتر مدارس کی صورت حال ایسی نہیں ہے، اور اس کا انتظام کرنے والی شخصیت یا کمیٹی حساب وکتاب کے نظام کے ساتھ پورے کام کو انجام دیتی ہے۔
ادارے کی انتظامیہ کے لئے مشکل یہ ہے کہ ان کا انحصار عوامی تعاون پر ہے، جو تعاون ادارہ کو حاصل ہو، اس سے بڑھ کر وہ کیسے اپنے عملہ کا حق الخدمت متعین کر سکتے ہیں، گورنمنٹ کے پاس تو بے انتہاء دولت ہے اور وہ بین الاقوامی اداروں سے قرض لینے کا بھی بڑا ’’حوصلہ‘‘ رکھتی ہے، اور جو کمپنیاں ہیں وہ تجارتی ادار ے ہیں، عصری تعلیمی اداروں کا بھی یہی حال ہے، وہ طلبہ سے موٹی موٹی فیس لیتے ہیں اور ان کا مقصد ہی تجارت ہے؛ لیکن دینی ادارے چریٹیبل ادارے ہیں، جہاں اللہ کے بھروسہ طلبہ کے لئے مفت تعلیم اور ضروریات کا وعدہ کیا جاتا ہے، وہ ظاہر ہے کہ اپنی آمدنی کے دائرہ ہی میں نظم ونسق چلا سکتے ہیں، ملک کے بعض بڑے تاریخی ادارے ایسے ضرور ہیں جنھوں نے تنخواہوں کا اعلیٰ معیار رکھا ہے؛ مگر ان کی ایک تاریخ ہے، جو اصحاب خیر کی خصوصی توجہ کا باعث بنتی ہے، یا صنعتی وتجارتی گروپوں نے ان کی کفالت قبول کر لی ہے، عام مدارس ان کی راہ پر نہیں چل سکتے؛ اس لئے یہ بات سمجھنی چاہئے کہ ہم نے جس راستے کا انتخاب کیا ہے، وہ پھولوں کی سیج نہیں ہے، کانٹوں کا بستر ہے، یہ بادشاہوں اور عیش کوشوں کا راستہ نہیں ہے، یہ وارثین انبیاء کا راستہ ہے، ہمیں اسی ذہن کے ساتھ کام کرنا چاہئے !!!
(جاری)