دیوبند،17؍ مارچ(سمیر چودھری)شہریت ترمیمی قانون ، این پی آر اور این آر سی کے خلاف دیوبند میں جاری خواتین کے احتجاج کو پچاس دن مکمل ہوگئے،آج منگل کے روز 51؍ ویں دن بھی خواتین کااحتجاج بدستور جاری ہے، حالانکہ کرونا وائرس کے سبب حکومتوں کی جانب سے اٹھائے جارہے احتیاطی اقدامات کے سبب انتظامیہ ان مظاہروں کو لیکر بھی از سر نو پالیسی بنارہی ہے ،وہیں لوگوں میں اس کو لیکر شش و پنج کا ماحول ہے حالانکہ احتجاج کرنے والی خواتین کا صاف کہناہے کہ ان کااحتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حکومت اپنے غیر آئینی اقدامات کو واپس نہیں لے لیتی ہے۔ اس دوران کرونا وائرس سے تحفظ کے لئے صاف صفائی اور حفاظتی اقدامات اختیار کرنے کی اپیل کی گئی۔ گزشتہ پچاس دنوں سے دھرنے پر بیٹھی خواتین کو شدید سردی ، موسلا دھار بارش سمیت مختلف پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ پیچھے نہیں ہٹیں۔ خواتین پرعزم ہیں او ران کہنا ہے کہ جب تک حکومت اپنا غلط فیصلہ واپس نہیں لیتی ہے اس وقت تک تحریک جاری رہے کی ۔مظاہرے کے پچاس ویں دن گزشتہ شب ممبئی سے آئی سماجی کارکن محفوظہ اور عائشہ نے کہا کہ دیوبند ستیہ گرہ خواتین کی طاقت کا زندہ ثبوت ہے، آئین کے تحفظ کے لئے جاری یہ تحریک تاریخ کا حصہ بن گئی۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ ابھی بھی ان تحریکوں سے دوری اختیار کر رہے ہیں ، ان کی آنے والی نسلیں ان سے سوال کریں گی اور ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔ خواتین کی بڑی تعداد سے خطاب کرتے ہوئے کمیٹی کی ذمہ دار آمنہ روشنی اور ارم عثمانی نے کہا کہ جب تک سی اے اے اور این پی آر میں ترمیم نہیں ہوتی اس وقت تک ہماری تحریک جاری رہے گی۔ انہوںنے کہاکہ عوام اور حکومت کی یہ لڑائی آر پار کی ہے۔ عرشی انصاری ، سائرہ عامر اور ثانیہ گوڑ نے کہا انصاف میں دیری بھی ناانصافی کے برابر ہے اسلئے عدالت عظمیٰ کو چاہئے کہ وہ موجودہ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے سی اے اے کو لیکر سرکاری کی ذمہ داری اور جواب دہی طے کرے اور ملک کے عوام کے جذبات کی قدر کرے۔اس دوران انقلابی نعروں کے ساتھ حکومت سے غیر آئینی فیصلے واپس لینے کی مانگ کی گئی۔ ادھر کورونا وائرس سے تحفظ اور لوگوں کو اس سے آگاہ کرنے میں انتظامیہ کی تحریک میں متحدہ خواتین کمیٹی کی خواتین بھی پیش پیش ہیں،کمیٹی کی ذمہ داران خواتین نے بزرگ خواتین اور چھوٹی بچیوں کو بیمار کا اثر ختم ہونے تک تحریک کاحصہ نہ بننے کی اپیل کی ہے۔ ساتھ ہی اپنے آس پاس صاف رکھنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر بھی زور دیا۔