نئی دہلی: 30؍دسمبر: (جامعہ کیمپس سے محمد علم اللہ کی رپورٹ) شہریت ترمیمی ایکٹ ، این آر سی اور این آر پی کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کی تحریک کا آج 18؍واں دن تھا۔ آج کے دن سخت سردی کے باوجود طلبہ اور اوکھلا کے عوام ہزاروں کی تعداد میں اپنا احتجاج درج کرایا۔ ایک طرف جہاں احتجاج میں کئی سماجی کارکنان اور طلبہ لیڈران شامل ہوئے وہیں ہندوستانی سیاست کے کچھ پرانے چہرے بھی نظر آئے ان سبھوں نے حکومت کی مسلم مخالف پالیسی اور ملک کو تقسیم کرنے والی سازش کی مخالفت کی۔ احتجاج کو خطاب کرتے ہوئے مدھیہ پردیش کے سابق ریاستی وزیر رما شنکر سنگھ نے کہاکہ مسلمان ہمیشہ سے ملک کے ساتھ تھا اور رہے گا، اس موقع پر انہوں نے مسلمانوں کو ملک سے باہر نکالنے کی بات کرنے والوں کی سخت مذمت کی اور کہاکہ جو جامعہ آزادی کی جنگ میں شامل تھا کوئی اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا ، ان فرقہ پرستوں کے ارادے ٹوٹ جائیں گے لیکن جامعہ نہیں ٹوٹے گا۔ سماجی کارکن اویس سلطان خان نے کہاکہ جس مسلم قوم کو ملک کے اندر دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی سازش ہوتی تھی آج وہ قوم ملک کے آئین کو بچانے کے لیے سڑکوں پر ہے اور اس وقت تک سڑکوں سے و اپس نہیں لوٹے گی جب تک کہ انہیں ان کا حق نہیں مل جاتا۔ آج اس لڑائی میں مسلمان قیادت کررہے ہیں او رجمہوریت کےلیے دوسرے مذاہب کے افراد اس کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے احتجاج کے دوران سبھی کو مولانا ابوالکلام آزاد کی وہ قسمیں بھی یاد دلائیں جو انہوں نے ملک کی تقسیم کے وقت مسلمانوں کو کھلائی تھیں۔ ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے جامعہ کے طلبہ اور اوکھلا کے عوام کو سلام پیش کرتے ہوئے کہاکہ جب تک اس تحریک میں ان کمیونٹی کا سہارا ملتا رہے گا جنہیں حکومت نے شہریت دینے کا وعدہ کیا ہے پھر اس تحریک کو کوئی نہیں توڑ پائے گا۔ اے آئی ایس اے دہلی کی صدر کنول پریت کور نے کہاکہ جو لوگ ملک کے شہری کو ان کے کپڑوں سے پہچانتے ہیں اور ان کے خلاف تشدد کی حمایت کرتے ہیں یہ اقتدار میں بیٹھے وہ فاشسٹ ہیں جو ملک کو توڑناچاہتے ہیں لیکن طلبہ نے ، شاہین باغ کی غیرت مند خواتین نے انہیں زور دار جواب دیا ہے۔ ڈی یو ٹی اے کی سابق صدر نندتا نارائن نے کہاکہ اقتدار میں آج جو سنگھی ذہنیت والے ہیں وہ ہر اس آواز کو دبانا چاہتے ہیں جو اس کے خلاف ہے او رجمہوریت کے ساتھ لیکن جامعہ اور تمام یونیورسٹیوں کے طلبا ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ سی اے اے کے خلاف شروع اس تحریک کی ایک بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس میں وہ لوگ بھی باہر نکل آئے ہیں جو اپنے آپ کو غیر سیاسی کہتے تھے۔ جے این یو کے طالب علم فاروق عالم نے مودی اور امیت شاہ کو ’ٹوایڈیٹس‘ کی جوڑی بتایا انہو ںنے موجودہ حکومت اور اس کےچہرے پر ایک گیت بھی پڑا جو انہوں نے خود لکھا تھا۔ بی ایس سی ای ایم کی صدر راجویر نے کہا کہ ہم طلبہ قوم پرست ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی پرست بھی ہیں دنیا میں جہاں جہاں ناانصافی ہوتی ہے اس کے خلاف ہم بولتے ہیں اور جو ناانصافی ملک کے اندر بی جے پی کی حکومت کررہی ہے اس کے خلاف بھی ہم بولیں گے۔ آج کے احتجاج میں ان مقررین کے ساتھ مقامی عوام اور دہلی کی مختلف یونیورسٹی سے آئے طلبہ نے بھی اپنی بات رکھی اور حکومت کی طلبہ مخالف یونیورسٹی پر حملہ کرنے والی پالیسیوں کی مخالفت کی۔ کئی طلبہ نے آج بھی ’ریڈ فار رولیوشن‘ کے نعرے کے ساتھ ریڈنگ سیشن کا انعقاد کیا۔ جامعہ کو آرڈینیشن کمیٹی کے اراکین او رجامعہ کے طلبا کا کہنا ہے کہ جب تک حکومت جمہوریت مخالف قانون واپس نہیں لے لیتی تب تک یہ تحریک جاری رہے گی اور انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پوری تحریک میں انہیں جامعہ الومنائی اورملک کی دیگر یونیورسٹیوں کے طلبہ کا مکمل تعاون مل رہا ہے۔