بھارت کے مسلمان اور اسلام ہی کیوں نشانہ؟
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو ابتداء ہی سے نشانہ بنایا گیا، مکہ میں، مکہ کے لوگ اور مدینہ میں، یہودی۔ اس کےبعد، عیسائی، مسلمانوں کے دشمن تھے اور اس دشمنی کی وجہ قرآن نے بتائی کہ: انکے دلوں میں مسلمانوں کےمتعلق "حسد” ہے۔ انکی کتابوں میں حضرت نبی اکرمﷺ کی آمد کی بشارتیں دی گئیں، تو وہ یہ سوچ رہے تھے کہ: آخری نبی بھی، بنی اسرائیل میں سے ہوں گے؛ کیونکہ اللہ نے اکثر نبیوں کو بنی اسرائیل میں ہی بھیجا؛ لیکن جب رحمتِ دوعالم ﷺ بنی اسماعیل میں پیدا ہوۓ تو وہ یہ جانتے ہوۓ کہ یہ آخری نبی ہیں، رسالت کا دروازہ بند ہوگیا ،اب آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئیں گے۔ پھر بھی انہوں نے نبی اکرمﷺ کی بات نہیں مانی، اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر ہی جمے رہے سواۓ چند لوگوں کے۔ اس لحاظ سے پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا جاتا رہا ہے۔یہ بات مسلمانوں کیلئے کوئی نئی نہیں ہے ؛لیکن ہمارے ملک میں ایک خوف و دہشت کا ماحول پیدا کردیا گیا ہے۔ مسلمان اپنی عبادتوں اور اسلامی تشخص کے ساتھ بھارت میں رہنے میں خوف محسوس کر رہا ہے اور کوئی اور ملک کا شہری بننے کی سوچ رہا ہے؛ لیکن یہ طبقہ وہی ہے جو اہلِ ثروت ہے، بقیہ مسلمان تو اپنے آپ کو یہ سوچ کر اسی ملک میں اپنی بقاء کو برداشت کر رہے ہیں کہ: جائیں توکہاں جائیں؟۔ ایک اور طبقہ ہے، جو بالکل ہی کم تعداد میں ان حالات کا مقابلہ کرنے اور اسلامی تشخص کے ساتھ اللہ پر بھروسہ کرکے یہیں رہنے کو تیار ہے۔
یہ حالات ہمارے ملک بھارت میں کیوں ھے؟
اس سوال کے جواب کیلۓ بھارت کی برسوں پرانی تاریخ کو جاننا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ: یہاں ایک قوم ایران کے راستے وسطی ایشیا سے1500 قبل مسیح میں آئی اور برہمن کے نام سے یہاں آکر بس گئی اوران لوگوں نے یہاں کے اصلی باشندوں کو اپنا غلام بنایا، تا کہ وہ برتر رہ سکے۔ حالات چلتے رہے اونچ نیچ ہوتی رہی۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا” و تلک الایام نداولھا بین الناس” اور اسی آیت کے سیاق سے یہ بات معلوم ہوتی ہےکہ: ایمان والوں سے، اللہ مخاطب ہوکر فرماتا ہے ان یمسسکم قرح فقد مس القوم قرح مثلہ۔ یہ آیت، غزوہ احد میں، مسلمانوں کی جانوں کو نقصان پہونچنے کے پس منظر میں اللہ نے فرمایا کہ: حالات بدلتے رہتے ہیں، کبھی ان کو زخم پہونچا تو کبھی تم کو۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ: حالات ایک جیسے نہیں رہتے؛ بلکہ بدلتے رہتے ہیں؛ اسی طرح برہمن قوم گوتم بدھ کی پیدائش سے پہلے، ظلم و جبرکرتی رہی۔ اور اپنے آپ کو برتر قرار دے کر اس ملک میں حکومت کرتی رہی۔ پھر اللہ نے حالات کو بدلا گوتم بدھ کی مضبوط تحریک نے برہمنوں کی کمر توڑ کررکھ دی۔ اس کےباوجود برہمن سرےسےتو ختم نہیں ہوۓ؛ لیکن ان کا زور ضرور ٹوٹ گیا۔ 500 سال تک بدھ لوگوں کی حکومت قائم رہی بدھا نے کچھ ایسی تحریک چلائی، جسمیں انسانی برابری، میل جول، مل جل کر عبادت کرنے کیلئے بدھ وہاروں کی بنیاد انصاف، وغیرہ کی وجہ سے لوگ جوق در جوق اس تحریک سے جڑتے گئے اور بعد میں یہ تحریک مذہبی شکل اختیار کر گئی۔ برہمن چپ چاپ دیکھتے رہے اور اندر ہی اندر منصوبے بنانے لگے۔ بالآخر موریہ سلطنت میں ایک برہمن سپہ سالار پشیہ متر شنگھ نامی شخص نے راجا کو قتل کردیا اور ایودھیاجاکر وہاں اس نے برہمنوں کو اکٹھا کیا بدھ ازم کو ختم کرنے کی سازش رچی۔ سب سے پہلے اس نے بدھ وہاروں کو گرایا تاکہ لوگ ایک جگہ مل کر عبادت نہ کرسکیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ: بدھ سے پہلے برہمن قوم کیسے عبادت کرتی تھی؟ اس کا جواب تاریخ میں یہ ملتا ہے کہ: وہ آگ کی پوجا اپنے اپنے گھروں میں کرتی تھی،شراب پینا عام تھا، گاۓ کھانےکابھی رواج تھا۔ دوسرا کام برہمنوں نے بدھ بھکشوؤں کا قتل عام کیا؛اسی وجہ سے بھارت سے بدھ ازم اٹھا تو سہی؛ لیکن پھیلا دیگر ملکوں میں، جو کہ آج بھی مضبوط ہے۔ گوتم بدھا نے جانوروں کو کھانے سے روکا تو برہمن بھی گاۓ کو کاٹنے اور کھانے سے رک گۓ( اپنی عبادت سے سمجھوتہ کرتے ہوۓ) پھر ظلم انتہا کو پہونچا طبقاتی نظام کو دوبارہ شروع کیا جس پر انکی بنیاد ٹکی ہوئی تھی؛ اس کو مذہبی اعتبار سے مضبوط کرنے کیلئے بھگوت گیتا، رامائن، مہا بھارت لکھی گئی اور قانونی اعتبار سے سختی سے نافذ کرنےکےلئے منو سمرتی لکھی گئی جس میں اپنے آپ کو برتر اور بقیہ طبقات کو نیچ کہا گیا۔ ایسے ہی برسہا برس تک چلتا رہا پھر اسلام کی آمد تاجروں اور اولیاء کے ذریعہ اس ملک میں ہوئی، تو کئی مظلوموں نے اسلام کی مساوات، انصاف اور بھائی چارہ کی تعلیمات کودیکھ کراسلام کو اپنایا اور ایک بڑی مذہبی تبدیلی ( mass conversion)ہوئی۔ مسلمان حکومتوں میں برہمنوں نے اپنی چاپلوسی کے ذریعہ بادشاہوں کو یہاں کے اصلی باشندوں کے تئیں دھوکے میں رکھا۔ پھر انگریز اس ملک پر قابض ہوۓ۔ اسی اثناء میں جتنی برہمن مخالف تحریکیں تھیں سب کو یاتو ختم کردیا گیا، یا پھر اس کی اصل روح کو مجروح کردیا گیا؛ تاکہ اسکے ماننے والے بلا واسطہ(indirectly) برہمنوں کے غلام بنےرہیں۔ مثلا: گوتم بدھ کو وشنو کا نواں اوتار بنادیا۔ خود انہیں کی مورتی بناکر مندروں میں پوجنے پر مجبور کردیا گیا۔جبکہ خود گوتم بدھ جنہوں نے عوام کو مورتی پوجا سے روکا انہیں کی مورتیاں بناکر پوجنے پر مجبور کردیا گیا۔ ٹھیک اسی طرح جب ان کو معلوم ہوا کہ: اسلام اگر باقی رہا تو لوگ اسلام میں داخل ہوتے رہیں گے، تعداد کے اعتبار سے مسلمان اکثریت میں ہوں گے، تو وہ اس ملک پر حکومت نہیں کر پائیں گے لہذا گاندھی اور نہرو نے ملک کو بانٹنے کی پالیسی اپنائی اور انگریزوں سے مل کر ،ملک کو بانٹ دیا؛ جس سے مسلمانوں کی طاقت کم ہوگئی، فسادات کا دور دورہ ہوگیا، بابری مسجد کی شہادت، پرسنل لاء میں مداخلت، وقتا فوقتا مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا یہ اس لیے ہورہا ہے؛ کیونکہ برہمن، اسلام کے نظام میں تبدیلی نہیں کرسکا، نہ اس کی روح کو مجروح کر سکا تو ایسی سازش رچنےکی کوسش کی جیسے یہودی، اسلام اور مسلمانوں کےخلاف کرتے آئے ہیں۔ اوروہ ھے حسد جس کو قرآن نے کہا: ام یحسدون الناس علی ما اتہم اللہ من فضلہ۔ ترجمہ :کیا وہ حسد کرتے ہیں لوگوں سے اس وجہ سے کہ اللہ نے ان کو اپنا فضل عطاء کیا؟ اسلام کو ختم کیا کرتے، اس میں مداخلت بھی نہیں کرسکے؛ لہذا وہ اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کرنےلگے؛تاکہ مسلمان، مسلمان باقی نہ رہے؛ اسی لیے لو جہاد، گھر واپسی اوراسکولی نصاب میں تبدیلی وغیرہ کی ناپاک منصوبےتیارکرنےلگے۔ یہ سب اس لیے کہ برہمن چاہتا ہے کہ یہاں کہ اصلی باشندے اور مسلمان ایک نہ ہو، طبقاتی نظام برقرار رہے۔ اگر مسلمانوں سے بھارت کے اصلی باشندوں کا تعلقات بڑھے گا تو اسلام کی لچک اور روشنی سے وہ منور ہو کر ہدایت یافتہ ہوسکتے ہیں جس سے برہمنوں کی حکومت ختم ہو جاۓ گی نیز ایس سی، ایس ٹی،او بی سی طبقات بندوں کی غلامی سے آزاد ہو کر ایک رب کی غلامی میں آجائیں گے یہی تو برہمن قوم اور آر ایس ایس نہیں چاہتی ہیں۔
ایسے وقت میں مسلمان کیا کریں؟
پہلے تو اپنے آپ کو سچا مسلمان بنائیں، برادرانِ وطن کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرتے ہوۓ ان کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر پیش کریں۔ دوست اور دشمن کی پہچان ہو۔ وہ کام ہو جو حضرت خواجہ اجمیری، حضرت نظام الدین اولیاء، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمہم اللہ وغیرہ نےکیاتھا پھراسی تحریک کو دوبارہ زندہ کریں گے،خاص طور پر عوام سے جڑنے کیلے لنگر کا نظام، مزاج پرسی، صدقات نافلہ سے مدد کرتے ہوۓ اسلامی تعلیمات پیش کی جائیں تو نفرت ختم ہوسکتی ہے اور اگر اللہ نے ہدایت مقدر کی تو وہ ہدایت یافتہ بھی ہوسکتے ہیں بشرطیکہ عملی طور پر اجتماعی یا انفرادی کام ہو ۔ حالات ضرور بدلیں گے اللہ نے ارشاد فرمایاومکروا ومکر اللہ واللہ خیر الماکرین۔ وہ لوگ مکر کرتے ہیں اللہ بھی خفیہ تدبیر کرتا ہے اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔ ساتھ میں یہ بھی ذہن میں رہے کہ: حالات ہمارے لیے پرانے ہیں اور آتے رہیں گے خوف اور ڈر کو پس پشت ڈال کر حکمتِ عملی اختیا کرتے ہوۓ اسلام پر ثابت قدم رہیں۔ واذ یمکر بک الذین کفروا لیثبتوک او یقتلوک او یخرجوک۔ اور ( اس وقت کو یاد کرو) جب کافر لوگوں نے مکر کیا تاکہ آپ کو قیدی بنا لیں یا آپ کو قتل کردیں یا پھر آپ کو نکال دیں۔ یہ آیت تو رسول الله کے بارے میں ہے؛ لیکن قرآن قیامت تک کے لیے ہے اس نبیؐ کی امتیوں کے ساتھ بھی ایسا ہوگا بلکہ ہورہا ہے ہم لوگ بے بنیاد الزامات کے تحت قید میں ڈالے جارہے ہیں، فسادات اور ماب لنچنگ کے ذریعہ قتل کیے جارہے ہیں، CAA NRC کے ذریعہ ملک کے باہر کرنے کے ذریعہ دھمکی اور عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسی آیت میں اللہ نے تسلی بھی دی ویمکرون ویمکر اللہ واللہ خیر الماکرین۔ وہ لوگ مکر کرتے ہیں اور اللہ بھی خفیہ تدبیر کرتا ہے اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔