علامہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان میں بکثرت مختلف عبادتیں کرتے تھے، چناں چہ حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کریم کا دور کرتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ملاقات ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت، نفع بخش ہواؤں سے کہیں بڑھ کر ہوتی، ویسے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخی تھے ہی، لیکن ماہِ رمضان میں اس صفت کا خوب ظہور ہوتا؛ یہی وجہ ہے کہ اس ماہ میں تلاوت، نماز، ذکر اور اعتکاف کے ساتھ ساتھ بکثرت صدقہ، خیرات اور دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کیا کرتے، ان تمام امور کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہِ رمضان میں کچھ ایسی خاص عبادتیں کرتے، جو دیگر مہینوں میں نہ ہوتیں، یہاں تک کہ بسا اوقات مسلسل اس طرح عبادت کرتے کہ پورا دن اور رات صرف عبادت کی نذر ہوجاتا، جبکہ صحابہ کرامؓ کو مسلسل عبادت سے منع فرماتے، صحابۂ کرامؓ آپ سے کہتے: کہ آپ تو مسلسل عبادت میں مشغول رہتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ میرا معاملہ تمہاری طرح نہیں ہے، مجھے میرا رب کھلاتا اور پلاتا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے رسول پر مسلسل عبادت کے اوقات میں عمدہ معرفت کی باتوں، حکمت کی موتیوں اور انوارِ رسالت کا وہ فیضان فرماتے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غذا کا کام کرتے، لیکن اِس غذا کا مطلب حقیقی طورپر کھانا پینا نہیں ہے، کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا روزہ معتبر نہ ہوتا۔
رب العالمین کی عبادت سے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہوجاتی، اپنا مقصود اور مدعا حاصل کرکے جب آپ ﷺ کے دل کو سکون واطمینان میسر ہوجاتا، اپنے مولیٰ کے تذکرے سے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل لطف اندوز ہوجاتا تو آپ کھانا پینا بھول جاتے،اسی مفہوم کو شاعر نے کچھ اس طورپر ادا کیا ہے۔
ترجمہ: روح کی اصل غذا ، معنوی غذا ہوتی ہے، کھانے پینے کی کوئی حیثیت نہیں، اور اگر آپ کو اپنے رب کی معرفت نصیب ہوگئی ہے تو رزق کی تنگی اور کمی کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ ذکر کرنے والے اور سب سے بڑے عبادت گزار تھے، ماہِ رمضان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کا موسم اور ذکر وتلاوت کا زمانہ بنادیتے، پوری پوری رات، حالتِ بیداری میں اپنے مولیٰ سے مناجات کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ سے آہ وزاری کرتے ہوئے اور ہر معاملے میں مدد، راہِ راست پر عمل پیرا ہونے اورکشادگی کے لیے دعا کرتے ہوئے گزر جاتی، لمبی لمبی سورتیں پڑھتے، رکوع اور سجدے بھی لمبے کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیت اس حریص شخص کی طرح ہوجاتی جس کو عبادت سے کبھی سیری ہی نہ ملتی ہو، اپنی شب بیداری کو اپنے لیے توشہ، کھانا پینا اور طاقت وقوت کا ذریعہ بنا رکھا تھا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’یَا أَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ قُمِ اللَّیْلَ إِلاَّ قَلِیْلاً‘‘۔ (المزمل: ۱،۲)
اے کپڑوں میں لپٹنے والے رات کو کھڑے رہا کرو، مگر تھوڑی سی رات۔ (بیان القرآن، ج: ۳/ ۵۹۳)
دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہ نَافِلَۃً لَکَ عَسٰی أَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا‘‘ (الاسرائ: ۷۹)
اور کسی قدر رات کے حصہ میں بھی، سو اس میں تہجد پڑھا کیجئے جو کہ آپ کے لیے زائد چیز ہے، امید ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود میں جگہ دے گا۔ (بیان القرآن، ج: ۲/ ۳۸۸)
یہ تو رات کا عالم تھا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دن دعوت وتبلیغ، جہاد، خیر خواہی، تربیت، وعظ ونصیحت اور لوگوں کے مسائل حل کرنے میں گزرجاتا۔
روزہ کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معمول یہ تھا کہ اس وقت تک روزہ نہ رکھتے جب تک براہِ راست خود چاند نہ دیکھ لیتے یا کوئی گواہی نہ مل جاتی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو سحری کی ترغیب دلاتے، حدیث صحیح میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُوْرِ بَرَکَۃً‘‘۔
یعنی سحری کرو، کیونکہ سحری میں برکت ہے، سحری میں برکت بایں وجہ ہے کہ یہ وقت بہت مبارک ہوتاہے، رات کے اسی آخری تہائی حصہ میں آسمانِ دنیا پر اللہ عزوجل نزول فرماتے ہیں۔
وَبِالْأَسْحَارِہُمْ یَسْتَغْفِرُوْن‘‘ (الذاریات: ۱۸)
ترجمہ: اور اخیر شب میں استغفار کیا کرتے تھے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْأسْحَارِ‘‘ (آل عمران: ۱۷)
ترجمہ: اور اخیر شب میں گناہوں کی معافی چاہنے والے ہیں۔
سحری کی وجہ سے روزہ اور عبادت میں آسانی ہوتی ہے، مزید برآں یہ کہ سحری کی وجہ سے روزہ دار ایسا ہوجاتا ہے جیسے کہ وہ نعمت عطا کرنے والے پروردگار کی نعمت کو اسی کی عبادت میں لگارہا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وعمل اس بات پر شاہد ہے کہ غروبِ آفتاب کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم افطار میں جلدی کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک خشک یا ترکھجور یا پانی سے افطار کرتے، کیونکہ خالی معدہ کے لیے سب سے زیادہ مناسب چیز شیرینی ہے اس لیے خشک یا تر کھجور بھوکے روزہ دار کے لیے بہت مناسب ہے۔
حدیثِ صحیح میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’إنّ للصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِہِ دَعْوَۃً مَا تُرَدُّ‘‘ یعنی افطار کے وقت روزہ دار کی دعا رد نہیں کی جاتی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم افطار کے وقت دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لیے دعا فرماتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ مغرب سے قبل افطار فرماتے تھے، چنانچہ حدیثِ صحیح میں ہے، ارشاد نبوی ہے کہ جب رات آجائے اور دن ختم ہوجائے (آفتاب غروب ہوجائے) تو گویا کہ روزہ دار نے افطار کرلیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہِ رمضان میں سفر بھی کیا ہے، چنانچہ کبھی تو روزہ رکھا اور کبھی افطار کیا اور صحابۂ کرام ؓ کو اختیاردیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرامؓ کو اس وقت افطار (روزہ نہ رکھنے )کا حکم دیتے، جب وہ اپنے دشمنوں سے قریب ہوتے؛ تاکہ جہاد میں قوت کا مظاہرہ کرسکیں، ماہِ رمضان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوات وسرایا کے لیے بھی سفر کیا ہے، بل کہ غزوۂ بدر تو ماہِ رمضان ہی میں ہوئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کو ایسی فتح نصیب فرمائی جس کی کوئی نظیر نہیں، ترمذی اور مسند احمد میں مروی حضرت عمرؓ کی روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو غزوں میں روزہ نہیں رکھا۔
اگر کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں جنبی ہوجاتے اور صبح صادق طلوع ہوجاتی تو طلوعِ صبح صادق کے بعد پہلے غسل فرماتے پھر روزہ رکھتے، رمضان میں روزہ کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اپنی بعض ازواجِ مطہرات کو بوسہ بھی لیتے، اور روزہ دار کے بوسہ کو پانی کے ذریعہ کلی کرنے سے تشبیہ دیتے۔
اگر کوئی شخص بھول کر کھاپی لیتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے قضا کو ساقط فرمادیتے (یعنی اس کو قضا کا حکم نہ دیتے) اور فرماتے کہ اللہ نے اس کو کھلایا اور پلایا ہے۔
حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ کھانا، پینا، پچھنے لگوانا اور قئ، یہ چیزیں روزہ کو توڑ دیتی ہیں، اور قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ کھانے، پینے کی طرح جماع بھی روزہ ختم کردیتا ہے۔
رمضان کے آخری عشرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف فرماتے، اپنا دل اللہ کے حوالے کردیتے، دنیا کے غموں سے اس کو آزاد کردیتے، زمین وآسمان میں پھیلی خدا کی قدرتوں کے مشاہدہ کے لیے اپنی آنکھ کو مشغول کردیتے،لوگوں سے ملنا جُلنا کم کردیتے، اللہ عزوجل کی جانب یکسوئی ، اس سے آہ وزاری اور دعا میں خوب اضافہ کردیتے۔
اللہ رب العزت کے اسماء اور صفات کا بغور دل سے مطالعہ کرتے، اس کی نشانیوں میں منہمک ہوجاتے، مخلوقات میں تدبر وتفکر کرتے ؛کیونکہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے پناہ معرفت نصیب ہوئی، بہت سے انوار وبرکات کا ظہور ہوا اور بہت سے حقائق کے حصول میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کامیاب ہوئے۔
اس پوری کائنات میں اللہ کی معرفت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو نہیں، اللہ کا خوف آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا متقی کوئی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ توکل کرنے والا کوئی نہیں، اپنی ذات کو اللہ کی ذات میں گم کرنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا کوئی نہیں، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس سے کہیں زیادہ درود وسلام نازل ہو جتنا کہ مشک کی خوشبومہکتی اور پھیلتی ہے، اس سے بھی کہیں زیادہ جتنا کہ فاختہ سُرنکالتی ہے اور کُوکُو کرتی ہے اور اس سے بھی کہیں زیادہ جتنا کہ بلبل آواز نکالتی ہے اور گاتی ہے۔
اللّہم صلّ علی محمد النبي الأمي وعلی آلہ وسلم تسلیما.