سیاسی و سماجی

ہندوستان کے حقیقی ہیرو

پندرہ اگست ۱۹۴۷ء کو ہمارا ملک ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا ، یقینااس تاریخ کے پیچھے ایک طویل ترین داستان ہے،اُن لوگوں کی داستان ہے جنہوں نے اپنا سب کچھ لُٹا کر وطن عزیز کو سنوارا ہے ،جنہوں نے جان دے کر ملک کو جاندار کیا ہے،جنہوں نے کفن پہن کر اپنے ملک کو آزادی کا لباس پہنایا ہے اور جنہوں نے پیوند خاک ہوکر ملک کی آبیاری کی ہے ، یقینا ہر سال پندرہ اگسٹ آتی ہے اورضرور ان کی یاد دلاتی ہے، انہیں جاکر طویل عرصہ بیت چکا ہے لیکن ان کی یاد سے ہر ہندوستانی کا دل روشن ہے ،وہ اپنے عظیم اور ناقابل فراموش کار نا موں کی وجہ سے ہر ایک کی یادوں میں بسے ہوئے ہیں ، یقینا یہ ہمارے محسن ہیں، ان کے احسان کو ہم کبھی فراموش نہیں کر سکتے ،یہ ہمارے ملک ہندوستان کے سچے ہیرو ہیں ، ان کے کارناموں پر ہر ہندوستانی فخر کرتا ہے ، تاریخ ہند نازہے ،ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ،تاریخ ہند کبھی انہیں فراموش نہیں کر سکتی ،پندرہ اگسٹ کے موقع پر انہیں یاد کرنا اور ان کے جانبازی کے قصوں سے نسل نو کو واقف کرانا ہم سب کی ذمہ داری ہے ،ان لوگوں نے مذہب ومشرب سے بالاتر ہوکر صرف وطن عزیز کی محبت وچاہت میں ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا لگاکر ،فولادی دیوار بن کر ،مضبوط زنجیر بناکر ، وسائل کی قلت کے باوجود مگر بھر پور عزم وحوصلہ کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا اور بالآخر من جد وجد کی شکل میں کامیابی نے ان کے قدم چومے اور باشندگان ہند کو آزادی کے ساتھ سانس لینا نصیب ہوا۔
جس وقت جب ظالم وجابر ،عیار ومکار سفید فام بھیڑ یوں نے جنت نشاں ہندوستان پر اپنا تسلط قائم کرلیا اور آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو قید کرکے پابجولاں رنگون (برما) کے قید خانہ میں مقید کردیا تھا ،لال قلعہ پر یونین جیک لہراکر اس بات کا اعلان کردیا تھا کہ اب ہندوستان ہندوستانیوں کے ہاتھ سے نکل کر سفید فام فولادی ہاتھوں میں آچکا ہے اور انگریز ہی اب ہندوستان کا خود مختار اور مالک ہے ، ان حالات میں ان غداروں سے مقابلہ کے لئے اور وطن عزیز کی آزادی کے لئے علم وعمل سے مالامال ،وطن کی محبت سے سرشار اور پہاڑوں جیسا عزم حوصلہ لے کر علماء کرام ہی میدان کارساز میں کود پڑے تھے ، تاریخ گواہ ہے کہ سب سے پہلے تحریک آزادی کا صور علماء کرام نے ہی پھونکا تھا اور سب سے پہلے مسلمان ہی علماء کی قیادت میں میدان میں کود پڑے تھے ،جس وقت غاصب انگریز وں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت قائم کرکے یہ اعلان کیا کہ خلق خدا کی ،ملک بادشاہ کا اور حکم کمپنی بہادر کا ،تو اس پر محدث جلیل امیر الہند نازش وطن شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے ملک کی آزادی کیلئے سب سے پہلے جہاد کا فتویٰ جاری کرکے اسے فرض قرار دیا ،شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے فتوے نے پورے ملک میں زبردست ہلچل مچادی ، شہر شہر ،قریہ قریہ ،گلی گلی آزادی کے نعروں سے گونج اُٹھا ،ہر طرف بغاوت کے شعلے بھڑکنے لگے ،آزادی کے پرچم لہرانے لگے ،اس فتوے نے انگریز افسروں کی نیند حرام کردی ،یہ فتویٰ ان پر بجلی بن کر گر پڑا ،اس کے بعد مسلمانوں نے علماء ہند کی قیادت میں جہد مسلسل کے ذریعہ ہر جگہ آزادی کی تحریک شروع کرتے ہوئے جد وجہد شروع کردی ،۱۸۵۷ء؁ کی تحریک میں بے شمار علماء نے اپنی جانبازی کے جوہر دکھائے اور مغرور انگریز وں کے غرور کو خاک میں ملا کر رکھ دیا ،اس تحریک میں جن نامور علماء نے شرکت کی ان میں نمایاں نام بانی دارالعلوم دیوبند حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ، عالمِ ربانی فقیہ ہند مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ سرپرست دارالعلوم دیوبند ،مولانا مملوک علی دیوبندی،حافظ ضامن شہیدؒاورمولانا جعفر تھا نیسری ؒ کا ہے ، تاریخ تحریک آزادی کے صفحات گواہ ہیں کہ جب ۱۸۵۶ میں دہلی میں آزادی کے سلسلہ میں ایک بہت بڑی کانفرنس رکھی گئی تھی جس میں اپنے وقت کے بڑے بڑے علماء شریک تھے ،اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے بانی دار العلوم حجۃ الاسلام مولانا قاسم نانوتویؒ نے فرمایا :اے ساتھیوں ! کیا تم کو معلوم نہیں کہ انگریز تمہارے سر پر کھڑا ہے اور اپنی حکومت کا جال پورے ہندوستان میں بچھا رکھا ہے ،اس سے لڑائی کے لئے تیار ہوجاؤ ، مجمع میں کسی نے کھڑے ہوکر کہا کہ ہم تعداد میں بھی کم ہیں اور آلات حرب بھی ہمارے پاس بہت کم ہے ،اس پر حجۃ الاسلام ؒ جلال میں آگے اور فرمایا کیا ہماری تعداد غازیان بدر سے بھی کم ہے ،یہ سننا تھا کہ سامعین میں ایک ولولہ پیدا ہوا، وطن کو آزادی دلانے کا جذبہ ان انگڑایاں لینے لگا ،سبھوں نے کہا ہم مرجائیں گے مگر انگریز کو ہندوستان میں کسی بھی قیمت پر رہنے نہیں دیں گے،جنگ آزادی کے لئے کئی محاز بنائے گئے اور بے جگری کے ساتھ انگریزوں کا مقابلہ کیا، انگریز افسروں نے اس تحریک میں شریک علماء اور جانباز محبان وطن پر انتقامی کاروائیوں کا آغاز کیا اور ان آزادی کے دیوانوں کے ساتھ ظلم وبربریت کا وہ دل ہلا دینے والا برتاو کیا جسے دیکھ کر درندے بھی شرمانے لگے ،جنگ آزادی کے دِل ہلا دینے والے درجنوں واقعات کو مشہور انگریز مصنف سر ایڈ وڈ ٹامسن نے اپنی مشہور کتاب ــ’’ دی اَوورسائڈ آف دی ماڈل ‘‘ میں نہایت تفصیل کے ساتھ لکھا ہے ،جسے پڑھ کر آنکھیں نم اور جسم لرزہ بر اندام ہوجاتا ہے ،مسٹر ٹامسن دہلی اور اس کے اطراف واکناف کے حالات کچھ اس طرح لکھتا ہے کہ دہلی اور دہلی کے باہر درختوں کی شاخوں سے پھانسی کے پھندے لٹکادئے جاتے تھے اور معزز علماء کو لاکر ہاتھی پر بٹھا کر درخت کے نیچے لایا جاتا تھا اور پھندے ان کے گردن میں ڈال کر ہاتھی کو آگے بڑھا دیا جاتا تھا ،لاش پھندے میں جھول جاتی ،آنکھیں اُبل پڑتیں ،زبان باہر نکل جاتی ، اس وقت ذبح کئے ہوئے مرغ کی طرح جانکنی کا ہیبت ناک منظر سامنے ہوتا تھا ، اسی طرح تحریک آزادی کے درد ناک اور کربناک حالات کو ایک انگریز عورت نے اپنی ڈائری میں کچھ اس طرح لکھا ہے کہ بسا اوقات ان پھا نسیوں پر لٹکائے جانے والوں کی لاشیں تڑپ تڑپ کر انگریزی ہندسے کا 8 بن جاتی تھیں ، مسٹر ٹامسن آگے لکھتا ہے کہ ایک مرتبہ میں نے جامع مسجد کے پاس کسی کے جلنے کی بو محسوس کی تو تحقیق حال کیلئے پیچھے گیا تو کیا دیکھا کہ بڑی بڑی دیگیں چولہوں پر چڑھائی گئی ہیں اور اس میں گرم پانی کھول رہا ہے اور قریب بڑی تعداد میں علماء کھڑے ہیں ان میں سے ایک ایک کو باری باری لایا جارہا ہے اور ان سے کہا جارہا ہے کہ صرف اتنا کہدو کہ تم ۱۸۵۷ء کی جنگ میں شریک نہیں تھے تمہیں چھوڑ دیا جائے گا ورنہ تمہیں اس کھولتے ہوئے پانی میں ڈالدیا جائے گا ،مسٹر ٹامسن کہتا ہے کہ مجھے پیدا کرنے والے کی قسم سبھوں نے گرم پانی میں جل کر جان دیدی مگر کسی ایک نے بھی انکار نہیں کیا ،مسٹر ٹامسن آگے مزید لکھتا ہے کہ ان میں سے بعضوں کو رسیوں سے جکڑ کر باندھ دیا جاتا اور ان پر توپ داغ دی جاتی جس کے نتیجہ میں جسم کا گوشت بوٹی بوٹی ہوکر فضا میں بکھر جاتا اور زمین پر ان کے خون کی بارش ہونے لگتی تھی ۔
اتنے سب کچھ مصائب وآلام کے باوجود ان علماء کے پائے اقدس میں ذراسی جنبش نہیں آئی بلکہ وہ استقامت کا پہاڑ بن کر آزادی کی جد وجہد کرتے رہے ،عظیم مجاہد آزادی تحر یک ریشمی رومال کے بانی دارالعلوم دیوبند کے پہلے طالب علم اور اولین صدر المدرسین مولانا محمود حسن دیوبندی المعروف شیخ الہندؒ نے اپنی عالی ذہانت ، مدبرانہ سیاست اور قائدانہ قیادت کے ذریعہ تحریک آزادی کو ایک نئی جہت عطا کی آپؒ نے ریشمی رومال کے نام سے ایک عظیم تحریک چلائی اور جمعیۃ الانصار کے نام سے پورے ہندوستان کا ایک خاکہ مرتب کیا ،شیخ الہند کے ساتھ آپ کے شاگر د رشید شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند اور دیگر تلامذہ نے پوری قوت کے ساتھ ملک میں آزادی کی تحریک چلائی اور اسی جرم کی پاداش میں کئی سال مالٹا (کالاپانی) اور دیگر جیلوں کی کوٹھریوں میں گذاردئے ،شیخ الاسلام حضرت مدنی ؒ نے ہندوستان چھوڑ وتحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور انگریز فوج میں مسلمانوںکی بھر تی کو حرام ہونے کا فتویٰ دیا اور باوجود گرفتاری وارنٹ کے کراچی میں تحریک آزادی کے جلسہ میں سر پر کفن باندھ کر شرکت فرمائی اور خطاب کے دوران یہ شعر پڑھا ؎
لئے پھر تی ہے بلبل چونچ میں گل ٭ شہید ناز کی تربت کہاں ہے؟
ہند کے مشہور عالم دین مولانا جعفر تھانیسریؒکو انبالہ سازش کیس میں کالا پانی بھیج دیا گیا آپ ؒ کم وبیش بیس سال گذار کر وطن واپس ہوئے ،مولانا فضل حق خیر آبادی علمی دنیا کے بادشاہ مانے جاتے تھے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دینے کے جرم میں گرفتار کرکے جزیرۂ انڈومان بھیج دیا گیا چنانچہ آپ ؒ نے وہاں پر قید وبند کی صعوبتوں کو برداشت کرتے ہوئے اسی جزیرہ میں جان ِ عزیز وطن عزیز کیلئے قربان کردی اور وہیں پیوند خاک ہوئے،مولانا یحییٰ علی ؒ کو بھی انبالہ سازش کیس میں کالے پانی کی سزا ہوئی آپؒ لاہور ،کراچی،ممبئی کی جیلوں میں منتقل ہوتے رہے ،آخر میں جزیرۂ انڈومان منتقل ہوئے یہاں پر دوسال ایک ماہ گذار کر آپ نے جان جانِ آفریں کے سپرد کردی اور وہیں پر سپرد خاک ہوئے ، مولانا عبید اللہ سندھی ؒ شیخ الہند کے شاگر د رشید اور تحریک ریشمی رومال کے علمبردار تھے ،آپ ؒ نے پوری زندگی جلاوطنی میں گذار دی ،آزادی کیلئے ہزاروں مصیبتوں کو برداشت کیا ،افغانستان ،ترکی ،روس ،عرب اور ایران جاکر تحریک آزادی کی کامیابی کیلئے راہیں تلاش کرتے رہے ۔
مولانا احمد علی لاہوری ؒ فن تفسیر میں اپنی مثال آپ تھے ،آپ ؒ تحریک آزادی میں حضرت شیخ الہند کے ساتھ وابستہ رہے ،سرکاری فائل میں جو ریشمی رومال تحریک سے متعلق ہے سب سے پہلے نام آپ ہی کا ہے ۔ مولانا حفظ الرحمن سیوہاری ؒ نیشنلسٹ مسلمانوں کے مجاہدِ اعظم ،شعلہ بیاں مقرر اور آتشِ نوا خطیب تھے مسلمانوں کے انتہائی طاقتور لیڈر جانے جاتے تھے ،گاندھی ،پنڈت جواہر لال نہرو کے معتمد اور کانگریس ورکنگ کمیٹی کے ممبر بھی تھے ،تحریک آزادی میں آپ کی بے مثال قربانیوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو کتاب آزادی کے ہر صفحہ پر موجود ہے ،آزادی کے بعد آگ وخون کی بارش میں آپ نے ہندوستان اور ہندوستانی مسلمانوں کی عظیم الشان خدمت انجام دی ہے،مسلمانوں نے اپنے اس عظیم قائد کو مجاہد ملت کا خطاب دیا تھا۔مولانا ابوالکلام آزادؒ ہندوستان اور کانگریس کے بلند پایہ لیڈر تھے ،خدا داد صلاحیتوں کے مالک اور مفسر ،محدث ،شعلہ بیاں مقرر اور مایہ ناز صاحب ِ قلم تھے ،آپ کی تقریریں انگریزوں پر بم سے زیادہ خطر ناک ثابت ہوتی تھیں ،پوری زندگی انگریزی حکومت واقتدار کے خلاف جہاد میں گذار دی ،ہندوستان کے آزاد ہونے کے بعد نوسال تک مرکزی حکومت میں ویز تعلیم رہے ،مولانا سید محمد میاں ؒ مشہور عالم دین اور جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد میں حدیث کے استاذ تھے ،آپ کو انگریزوں سے گویا ازلی دشمنی تھی ،آپ نے کئی بار برطانوی جیلوں کی سیر کی ،آپ کی اہم تصنیف’’علماء ہند کا شاندار ماضی‘‘پانچ جلدوں پر مشتمل ہے ۔
تحریک آزادی کے یہ چند سرخیل ہیں جنکے کارناموں کا سرسری تذکرہ کیا گیا ہے ،ان کے علاوہ اور بے شمار علماء مجاہد آزادی ہیں جنکی تفصیلات تاریخ کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں ان میں سے چند یہ ہیں مولانا محمد علی جوہر ،مولانا حسرت موہانی ،مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی ،مفتی کفایت اللہ دہلوی،مولانا احمد سعید دہلوی،مولانا عطا ء للہ شاہ بخاری اور علامہ انور صابری رحمہم اللہ ۔
حقیقت نگاہی سے تحریک آزادی کی صحیح تصویر پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سب سے پہلے آزادی کیلئے جگانے والے ،مایوس اور شکستہ دلوں کو بیدار کرنے والے، جسم ِ ناتواں میں توانائی ڈالنے والے اور قوم کو وطن پرستی کا پاٹ پڑھاکر سفاک وچالاک اور ظالم وغاصب قوم سے لڑنے کا حوصلہ دلانے والے کوئی اور نہیں بلکہ علماء ہند ہی تھے ،غرض ان ہی حضرات نے تحریک آزادی کا آغاز بھی کیا اور تقریبا ً نصف صدی تک تن تنہا اس تحریک کو جاری بھی رکھا اور اس طویل مدت میں کبھی بھی انگریزوں کو تخت غاصب پر چین سے بیٹھنے نہیں دیا ،سچ یہ ہے کہ ہندوستان کی آزادی میں جتنا مسلمانوں اور ان کے مذہبی رہنماؤں یعنی علماء نے خون بہایا اتنا کسی دوسروں نے اپنا پسینہ بھی نہیں بہایا ؎
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے ٭جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
بڑی افسوس کی بات ہے کہ متعصب مؤرخین نے ہندوستان کی تحریک آزادی کے سنہرے واقعات کو تحریر کرنے میں جس قدر تعصب کا مظاہرہ کیا ہے اور اپنی تنگ نظری کا ثبوت پیش کیا ہے اس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی،ان متعصبین کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی ،یہ ان کی صرف علماء اور مسلم دشمنی نہیں بلکہ تحریک آزادی کے ہیروں سے دشمنی ہے اور آزادی کے جانبازوں سے دشمنی وہی رکھتا ہے جس کا دل وطن کی محبت سے خالی ہوتا ہے ،یہ کیسی بدبختی ،نالائقی ہے کہ جنہوں نے بلالحاظ مذہب وملت ،مسلک ومشرب محض ملک ووطن کی محبت میں چور ہوکر بلا خوف وخطر میدان کار ساز میں کود پڑے تھے ،پھانسی پر لٹک کر نغمہ ٔ آزادی گنگنایا تھا،سینہ پرگولی کھاکر منزل کا پتہ پوچھا تھا،سر پر کفن باندھ کر آزادی کا نعرہ لگایا تھا ،بیوی کو بیوہ ،بچوں کو یتیم کیااور سر کو تن سے جدا کرکے اپنے بسے بسائے گھر کو اجاڑ کر ملک کو آزادی دلائی ان کے احسان کو فراموش کر دیا جارہا ہے ،یہ سب سے بڑی احسان فراموشی ہے ، احسان فراموشی صرف وہی لوگ کرتے ہیں جن میںشرافت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی اور جن کا ضمیر مرچکا ہوتا ہے ، تعصبیت ملک کی کو اس طرح روک دیتی ہے جس طرح سیز ہوا بارش کو روک دیتی ہے ،تعصب وہ دیمک ہے جو مضبوط لکڑی کو بھی کھوکلی کر دیتی ہے ، تعصب اور نفرت سے ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوتا بلکہ تیزی کے ساتھ تنزلی کی طرف آنے لگتا ہے ،جو لوگ نفرت پھیلاتے ہیں اور مذہبی تعصبیت کو ہوا دیتے ہیں یہ کسی کے دوست اور خیر خواہ نہیں بلکہ سب کے دشمن اور ملک کے لئے کسی خطرہ سے کم نہیں ہیں ،جس طرح ہم سبھوں نے مل کرستر سال قبل ملک کو غلامی سے آزاد کرایا تھا ٹھیک اسی طرح آج آپسی ،علاقائی ،مذہبی نفرتوں کی غلامی سے آزاد ی دلانے کی ضرورت ہے ،اور ان لوگوں کی گرفت کرنے کی ضرورت ہے جو اپنے مقصد کے خاطر ملک میں مذہبی نفرت پھیلانے کا کام کررہے ہیں ،آزادی کے اس مبارک دن پر جہاں ہم تحریک آزادی کے جیالوں کا ذکر کرتے ہیں تو وہاں انہیں ہر گز فراموش نہ کریں جنہوں نے سب سے پہلے ملک کی آزادی کے لئے علم بغاوت بلند کیا تھا ،وہ علماء کرام اور مشائخین عظام ہیں، ان کی تاریخ کا خود بھی مطالعہ کریں ، برادران وطن اورنوخیز نسل کو ان کے کارناموں سے واقف کر ائیں اور عہد کریں کہ جس طرح ہمارے آباء واجداد نے ملک کو انگریزوں سے آزاد کرایا تھا ہم بھی ملک سے نفرت وعداوت،تعصب وتفریق کا خاتمہ کرکے رہیں گے ۔

٭٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×