سیاسی و سماجی

حکومت کی بڑی فتح وکامیابی

۲۴؍ جولائی کو بدھ کے روز ایوانِ زیریں کے بعد ۳۰؍ جولائی کو ایوانِ بالا میں بھی ’’ طلاقِ ثلاثہ بِل ‘‘  ۸۴کے مقابلے میں ۹۹ ووٹس سےمنظور کر لیاگیا ،جس کے لئے برسر اقتدار پارٹی گذشتہ چند سال سے مسلسل کوشش کر رہی تھی ، جس کے تحت ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے والامسلم شوہر قابلِ سزا جرم کا مرتکب قرار پا چکا ہے، اُسے اس جرم کی پاداش میں جرمانے کے علاوہ تین سال کی جیل بھی کاٹنی ہوگی ، لطف یہ ہےکہ یہ طلاق طلاق بھی شمار نہ ہوگی مطلّقۂ مغلَّظہ مثلَّثہ بہ دستور اسی کی زوجہ رہے گی ، مطلب یہ ہےکہ اس مسئلے میں شریعت ہماری کچھ بھی کہتی ہو ، پولس اور عدلیہ تو قانون کےمطابق عمل در آمد کریں گے ۔
وزیر قانون روی شنکر نے اس بِل کے مبنی بر انصاف اور قرینِ مصلحت ہونے کے دلائل کے طور پرجو چند امور پیش کئے وہ درجِ ذیل ہیں ۔

اس بِل کا مقصد صنفی وقار انصاف اور مساوات کو یقینی بنانا ہے، سیاست کرنا مقصد نہیں ہے ۔
۲۰؍ سے زیادہ اسلامی ممالک طلاقِ ثلاثہ کی مختلف اقسام کو باقاعدہ بنا چکے ہیں ۔
حکومت سمجھتی تھی کہ سپریم کورٹ کے امتناع عائد کرنے کے بعد یہ غیر قانونی عمل بند ہوجائے گا مگر ایسا نہ ہوسکا ۔فیصلے کے بعد بھی ۵۷۴ مقدمات زیر دوران ہونے کی اطلاع ہے ۔
مسلم مرد جلی ہوئی روٹی پیش کرنے ، ترکاری کے لئے پیسے مانگنے ،اور شوہر کےفحش ویڈیو فلم تیار کرنے کی مخالفت جیسے معاملوں پر بھی بیوی کو طلاقِ ثلاثہ دیدیتے ہیں ، ایسے واقعات منظر عام پر آئے ہیں۔
اس لئے حکومت قانون سازی پر مجبور ہوگئی ہےوغیرہ ۔
انہوں نے ایک بیان میں یہ بھی کہا کہ کیا میں (ان مسلم بہنوں کو )فُٹ پاتھوں پر اسی طرح روتا بلکتا چھوڑدوں ؟
بہر حال ! تائید ومخالفت میں مختصر مباحث کے بعد بعض ارکان کے واک آئوٹ کرجانے کی بہ دولت یہ بِل راجیہ سبھا میں پاس ہوگیا ، اور اب صدر جمہوریہ کی دستخط کے بعد قانون بننے کے لئے تیار ہے۔

مسلم پرسنل لا بورڈ نےاس بل کے خلاف عدالتِ عُظمیٰ کی کنڈی کھٹکھانے کا اعلان کیا ہےلیکن میڈیا بتلارہی ہے کہ باقاعدہ اسکارف اور برقعوں سےمزیّن ومرقّع خواتین کا ایک گروہ مارے خوشی کے طبلےبجاتے اور مٹھائیاں بانٹتے ہوئےمسرت واطمینان کا اظہار کر رہا ہے ، اور ایک خاتون نے آگرہ میں اپنے شوہر کے خلاف مقدمہ بھی درج کرادیا ہے ، اس کو ایسالگ رہا ہے کہ اس بِل سے ایک نئی زندگی ملی ہے، اس کامانناہے کہ وزیر اعظم نےاس بِل کے ذریعہ کوئی قانون نہیںہم کوطاقت دی ہے ،ایسی طاقت جس کو استعمال کرکے ہم ان کو سبق سکھا سکتے ہیں جو عورتوں کو پیروں کی جوتی سمجھتے ہیں ، یہ اور اس قسم کے کئی بیانات !
وزیر اعظم اور وزیر ِ داخلہ نے دونوں ہاتھ اُٹھا کر بڑے پر جوش انداز میں فتح کانشان دکھلایا ہے اور اپنے اپنےٹیوٹر اکائونٹ پر کامیابی اور کام رانی کے گیت گائے ہیں (تبصرے لکھے ہیں) جنہیں پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ آر ایس ایس کی اپنی عمر کے ستر سالوں میں اور بی جے پی کی تاریخ کے کارناموں میں اس سے بڑا اور اس سے اچھا کوئی کام نہیں ہوسکا تھا ، یہی سرفہرست قابل ِفخر اور لائق داد کام ہے بلکہ انہوں نے طلاقِ ثلاثہ بِل کو راجیہ سبھا میں منظورکرواکے گویا کوئی مُلک فتح کر لیا ہو۔ مثلاً وزیر اعظم نے فرمایا:  ’’ آج تاریخی دن ہے ، کروڑوں مسلم مائوں بہنوں کی جیت ہوئی ہے ، اور انہیں عزت سے جینے کا حق ملاہے ، صدیوں سےتین طلاق سےمتأثر مسلم خواتین کو آج انصاف ملاہے‘‘ ۔وغیرہ
اس دلچسپی ، جلد بازی ، اور مسرت وخوشی کو دیکھ کر جو ملک اور اہل ملک کے مسائل کے مقابلے میں نہایت غیر اہم اور کم درجےکے مسئلے___وہ بھی سچ پوچھو تو غیر آئینی مسئلے___ کے ساتھ برسر ِ اقتدار جماعت نے دِکھایا ہے کئی سوالات کھڑے ہوتے ہیں ۔
کیا مُلک میں صرف مسلمان عورتیں ہی مظلوم ہیں ،غیر مسلم عورتیں اپنے شرابی شوہروں اور بیٹوں کے ظلم سے عاجز آچکی ہیں ، انکا بلکنا ،رونا ان قائدین کو نظر نہیں آتا ؟پھر ان کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا جاتا؟
کیا سب کاساتھ سب کا وکاس میں مسلم مرد اور اُن کے سنگین مسائل شامل نہیں ہیں ؟
کیا اس بِل کے پاس ہوجانے سے مسلم عورتوں کی مظلومیت کامسئلہ واقعی حل ہوجائے گا ؟
کیا حکومت اس مسئلے پر عملاً قابو پاسکتی ہے ؟ اس لئے کہ جو جرائم کا عادی ہے وہ بچائو کی راہیں تلاش کرہی لیتا ہے ؟۔
کیا اس قانون کے بعد بھی مسلم مہیلائوں کی مظلومیت کاسد باب نہ ہوا تو حکومت مزید سنجیدہ اور مؤثرامدادفراہم کرے گی ؟
اگر اس مسئلے کی طرح مسلم مہیلائوں کے اور بھی مسائل بلکہ اس سے اہم سامنے لائے جائیں تو حکومت اسی ہم دردی اور تعاون کےجذبے سےآگے بڑھے گی ؟
جب تین کروڑ مسلم عورتوںنےاسلامی قوانین طلاق پر اپنی دستخطوں کے ذریعہ صدر جمہوریہ کے سامنے اطمینان کا اظہار کیا تھا تو خواتین کی اتنی بڑی تعداد کونظر ا نداز کیوں کیا گیا ؟
کیا یہ محض مسلم پرسنل لا اور دین پسند علماء کے رسوخ سے مسلم سماج کو آزاد کرانے کاحربہ تو نہیں ؟
کیا یہ ملک میں دستوری مذہبی آزادی کا دروازہ بند کرنے کےعزم کاعملی تجربہ تو نہیں ہے ؟
کیا یہ ملک میں اقلیتوں کو مایوس کرنے اور اکثریت کو خوش کرکے ووٹ بنک محفوظ رکھنے کی حکمت ِ عملی تونہیں ؟
یہ اور اس قسم کے بہت سوالات ہیں جو اس مسئلےمیں حکومت کی سنجیدگی کو اُن کے دوہرے طرز ِ عمل کی روشنی میں مشکوک کرتے ہیں !
رہ گئے حامیوں کے بیانات تو اب تک اس مسئلے میں باوجود مسلکی اختلافات کے بھی اس بِل کے سلسلے میں کسی معتبر عالم اور کسی معروف جماعت نے حکومت کےموقف سے اتفاق نہیں کیاہے بلکہ وہ سب اس کے نفاذ سےاختلاف رکھتے ہیں ، ہاں جدید تعلیم یافتہ طبقے میں بعض دانشوروں نے ممکن ہے کہ اس کی تائید کی ہو مگرچونکہ وہ حضرات دیگر علوم کے ماہرین ہونے کےباوجود اسلامی قوانین کی روح اور حکمت سے بےخبر ہیں اس لئے معذور ہیں،اب ان کے علاوہ طبلے بجانے والی ،بے محابا گھومنے والی ، اور دین کے الف بے سے بے خبر عورتیں برقعے پہن کرمیڈیا کے سامنے آئی ہیں یا پہنا کر لائی گئی ہیں تو قوانین ِ اسلامی کے معاملے میں ان کا وزن کیا ہے؟ البتہ بعض خواتین ایسی بھی ہیں جو واقعی مظلوم اور دُکھی ہیں ،اگر اُن کے من نے اس سراب سےدھوکہ کھاکر کچھ راحت حاصل ہونے کی توقع میں اُنھیں حکومت کے ساتھ لاکھڑاکیا ہو تو یقیناً وہ قابلِ توجہ اور لائق ترحُم ہیں ۔
خلاصہ یہ کہ چند در چند شبہات وسوالا ت کے بیچ میں دین میں مداخلت کایہ تاریخی بِل پاس تو ہوگیاہےاور شاید نافذ بھی ہوجائے،تا ہم ہمارے نزدیک مسلمانوں کے عائلی مسائل میں حارج ہونے کی وجہ سے مسلم پرسنل لاءاور آزادیٔ مذہب کی دستوری طمانیت کے خلاف ہےنیز اپنی خامیوں کی وجہ سے مقصد کےحصول کے لئے مؤ ثر بھی نہیں ہے۔
بِل سے ہٹ کر مسلم سماج میں تیزی سے بڑھتی معاشرتی خرابیوں کامسئلہ اپنی جگہ قابلِ فکر ضرور ہے ،دین سے دوری اور ضروری علم سے محرومی کے سبب ایک نہایت پاکیزہ ،باوقار اور انسانیت نواز مذہب کےافراد اخلاقی سطح سےبہت نیچے آتے چلے جا رہے ہیں ، اسلامی تعلیمات اور نبوی اخلاق کو ساری دنیا بے مثال وبے نظیر مان چکی ہے ، انہی تعلیمات کی پابندی نےمسلمانوں کو کیا سے کیابنادیا تھا ، لیکن آج مسلمان بجائے اس کے کہ ان مبارک تعلیمات کو اقوام ِ عالم کےسامنے پیش کرتے خود ہی اُن پر عمل سے دور ہوکربے تہذیب یافرنگی تہذیب کےدل دادہ ہوتے چلے جارہے ہیں ، اور بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ہرچہار طرف سے مصائب ومسائل کے گھیرےمیں گِھرتے چلےجانے کے باوجود اپنی روش کوبدلنے اور حالت کو سدھارنے کا بھی کوئی خیال نہیں ہے، رونے کےلئے سب سےبڑی مصیبت تو در اصل ہماری یہ ہے !
اس لئے ضرورت ہےکہ مسلم سماج کے تمام طبقات ، جماعتیں اور تحریکیں مل کر معاشرہ کی متفق علیہ برائیوں کے خلاف متحدہ محاذ کھول دیں ، اور سب مل کر معاشرتی مظالم سے سماج کو آزاد کرانے کی جد وجہد شروع کر دیں ، ساتھ ہی ضروریاتِ دین کا شعور اور اجماعی عقائد کا ادراک قوم میں پیدا کرنے کی بھی فکر کریں ، تاہم اس کے لئے مسلک کے خول سے باہر آنا ہوگا ؛ کیوں کہ قوم ان جھگڑوں سے بیزار ہوچکی ہے ؛ مطلب یہ نہیں ہے کہ مسالک ومشارب ختم کر دئے جائیں اور نہ یہ ممکن ہے ۔ مطلب یہ ہےکہ کچھ عرصے کےلئے مختلف فیہ مسائل کو اپنےحلقوں تک محدود کر لیا جائے ، اپنی درسگاہوں اور اپنی مجلسوں میں اس پر کلام کر لیاجائے، عوامی دعوت اور معاشرتی اصلاح کے کام کو متفق علیہ معروفات ومنکرات کے ساتھ خاص کر لیا جائے،واقعہ یہ ہےکہ داخل ِ اسلام جماعتوں،اور مسلکوں میں اختلافی مسائل پانچ فیصد سے زیادہ نہ ہوں گے باقی پچھانوے فی صد دین پر اجماع واتفاق ہے اور اُمت اس کو بھول کر یا چھوڑ کر دین سے دور ہوتی جارہی ہے ، اس لئے آج بڑی ضرورت اجتماعی احکام بالخصوص منکر ات کی روک تھام ہے ۔
اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم مسلمان جلد اپنی غلطیوں کو تسلیم کر لیں اور اپنی دینی وتہذیبی اصلاح کرتےہوئے اپنے نبی ﷺ کےلائے ہوئے دین کو سب سے پہلے اپنے لئے پسند کر لیں پھر اقوامِ عالم کےسا منے علم وعمل کےذریعے پیش کریں ۔آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×