آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا،بی جے پی نے طلاق ثلاثہ بل منظور کرکے ہی دم لیا،نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی قلعی کھل گئی،اور اسکا بھی پتہ چل گیا کہ ان کی مسلمانوں سے وفا داری محض ڈھکوسلہ ہے،وہ تمام جماعتیں جو غیر حاضر رہیں انہوں نے طلاق ثلاثہ بل کی بالواسطہ تائید کی ہے،انہوں نے اپنے طرز عمل سے بتادیا کہ انہیں اپنے مفادات عزیز ہیں۔
طلاق ثلاثہ سے متعلق بی جے پی نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر جو بل منظور کروایا ہے اس میں کچھ بھی خلاف توقع نہیں،بی جے پی اپنی آقا آر یس یس کے حکم کی پابند ہے،مودی جی کا اپنا کوئی اختیار نہیں وہ آر یس یس کے اشارہ ابرو کے پابند ہیں۔
جہاں تک آر یس یس کی بات ہے تو اس کا خمیر ہی مسلم دشمنی سے اٹھا ہے،آر یس یس کا پلان ہے کہ مسلمانوں کو ان کی مذہبی شناخت سے محروم کردیا جاے ،ان کی شریعت میں مداخلت کرکے انہیں اسلا م پر عمل کرنے نہ دیا جاے،شریعت میں مداخلت کا یہ سلسلہ صرف طلاق ثلاثہ پر تھمنے والا نہیں ہے، بلکہ یہ سلسلہ طول پکڑے گا ،طلاق کے بعد حلالہ اور تعدد ازدواج کا نمبر آےگا پھر ایک ایک کرکے سارے شرعی احکام تبدیل کردے جائیں گے۔
طلاق ثلاثہ سے متعلق جو بل منظور کیا گیا ہے اس میں شک نہیں وہ سراسر غیر جمہوری اور انتھائی قابل مذمت ہے،مسلم خواتین کے ساتھ ہمدردی کے نام پر منظور کرواے گئے اس بل میں نہ صرف خواتین کے ساتھ سراسر نا انصافی ہے بلکہ یہ مسلم خاندانوں کو تباہ کر نے کی منظم سازش ہے۔
بل منظور ہوچکا ہے اس پر وا ویلا مچانا بے فیض ہے، البتہ ان حالات میں چند باتوں پر توجہ دینا ضروری ہے۔
۱ ۔ سپریم کورٹ میں اس بل کو چیلنج کیا جاے،بہتر ہے کہ متعدد درخواستیں بعض مسلم خواتین یامسلم خواتین کی تنظیموں کی جانب سے داخل کی جائیں اور دیگر معروف تنظیمیں ان کا تعاون کریں ،نیز کریڈٹ لینے کی دوڑ سے گریز کیا جاے،اسی طرح درخواستوں میں طلاق ثلاثہ کو موضوع بنانے کے بجاے منظور ہ قانون کی ذیلی شقوں کے جھول کو واضح کیا جاے۔
۲۔طلاق سے متعلق مسلم معاشرہ میں شعور بیداری کی مہم چلائی جاے،جس میں اس بات پر زور دیا جاے کہ نکاح ایک مضبوط معاہدہ ہے، نکاح کے ذریعہ میاں بیوی دونوں اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ وہ ایک مضبوط خاندان کی بنیاد رکھیں گے۔
۳ ۔ ناچاقی اور آپسی اختلاف کی صورت میں کتاب وسنت سے رجوع کریں ،سورہ نساء میں بتایاگیا ہے کہ پہلے تو خود میاں بیوی افہام وتفہیم کریں ،اگر حل نہ نکلے تو دونوں خاندانوں کے ذمہ دار افراد مل بیٹھ کر حل نکالیں۔
۴۔ ساری کوششیں رائیگا ں جائیں اور طلاق ناگزیر ہو جاے تو طلاق کا درست طریقہ استعمال کیا جاے۔
۵ ۔ازدواجی تنازعات کو دار القضاء سے رجوع کرنے کا عام مسلمانوں میں شعور پیدا کیا جاے۔
۶۔ نظام دار القضاء کو زیادہ موثر بنایا جائےہر تعلقہ میں ایک دار القضاء قائم کیا جاے۔
۷ ۔عام مسلمانوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ شریعت کے خلاف چاہے کتنے ہی قوانین بناے جائیں مسلمان اگر شریعت پر عمل کرنے کا تہیہ کرلیں تو دشمن ہمارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے،دشمنوں کو شریعت میں مداخلت کا موقع اس وقت ملتا ہے ،جب مسلمان خود شریعت پر چلنا چھوڑ دیتے ہیں ۔