نیو ائیر نائٹ کا بڑھتا رجحان؛ایک لمحۂ فکر
مغربی تہذیب نے فکری ارتداد و الحاد کا جو جال مختلف طریقوں اور نت نئے زاویوں سے بچھایا ہے ایسا لگ رہا ہے کہ کہ قوم مسلم مغربیت کے چنگل میں بری طرح پھنس گئی ہے، ہر شخص مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگا نظر آتا ہے، بات معاشرت کی ہو یا سیاست کی ، اخلاق و کردار کی ہو یاطرز فکر کی آپ کو روز مرہ زندگی کے ہر معاملے میں بالعموم مشرقی افراد میں مغربی ذہنیت کار فرما نظر آئے گی حد تو یہ ہے کہ آپ کسی شخص کو دیکھ کر معلوم نہیں کر سکتے کہ آیا یہ مسلمان ہے یا غیر مسلم، قوم مسلم میں مغربی اقوام سے مشابہت اور زندگی کے قول و عمل میں مغربیت کی نقالی آج باعث فخر بن چکی ہے، بلکہ مغربی تہذیب کے علمبردار اس کو روشن خیالی اور نظریاتی آزادی کا نام دیتے ہیں ۔
نیو ائیر نائٹ؛مشابہت اغیار کی ایک بدترین قسم
نیو ائیر نائٹ در اصل مغربیت سے مرعوبیت کا ایک شاخسانہ ہے اور مشابہت اغیار کی ایک بدترین قسم ہے جس کا ایک زمانہ میں مسلمانوں میں تو کجا عیسائیوں میں بھی تصور نہیں تھا نیو ائیر نائٹ تقریب کی ابتداء "برطانوی نیوی” کے نوجوانوں کی طرف سے 1910 میں ہوئی۔
نیو ائیر نائٹ اور یہود و نصاریٰ کا طرز عمل
مغربی اقوام نئے سال کے جشن کے نام پر نیو ائیر نائٹ منعقد کرتے ہیں، رنگ برنگی لائٹوں اور قمقموں سے شہروں اور علاقوں کو سجاتے ہیں ، آتش بازی، شراب نوشی اور شباب پرستی کے مکمل انتظامات کرتے ہیں، کیک کاٹتے ہیں، HAPPY NEW YEAR کہہ کر مبارکبادی دیتے ہیں، مغربی ممالک میں نائٹ کلبوں میں مرد و زن کا بے حیائی سے اختلاط ہوتا ہے، صرف ایک رات میں کڑوڑہا روپے شراب و شباب اور اور سامان تعیش میں صرف کردیئے جاتے ہیں، اگر یہ لعنت صرف مغربی اقوام اور مغربی ممالک تک ہی محدود رہتی تو کوئی بات نہ تھی لیکن شراب و شباب، زن اور زر نے اس بدترین تہوار کو بڑھاوا دیا اور اس لعنت نے اہل مشرق اور مسلم معاشرہ پر بھی اپنے مضر اثرات ڈالے آج بر صغیر پاک و ہند میں بھی یہ لعنت کالج کے آزاد مزاج نوجوانوں اور دوشیزاؤں کو بری طرح اپنی جکڑ میں لے چکی ہے، موجودہ دور میں ہمارے نوجوان مغربی تہذیب کی نقالی کرتے ہوئے 31 نائٹ مناتے ہیں ، گرل فرینڈ اور بوئے فرینڈ کے بے حیا لیبل کے ساتھ بے حیائی کا مظاہرہ کرتے ہیں، سڑکوں پر برقعہ پوش بچیاں اپنے عاشقوں کے ساتھ گھومتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں افسوس
نام کل تک تھا جن کا حیاداروں میں
آج وہ منہ کھولے ہوئے پھرتی ہیں بازاروں میں
اس کے علاوہ دین بیزار روشن خیال نوجوان طبقہ نائٹ کلبوں میں جانے اور بے حیا کاموں کے انجام دینے میں ذرا عار محسوس نہیں کرتا!
وائے نادانی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
کیا ایک وہ مسلمان جو اللہ اور اسکے رسول پر ایمان رکھتا ہے، وہ جو قرآن کی ابدیت و صداقت اور اسکی لاثانیت کا قائل ہے، وہ جو تعلیمات نبویہ علی صاحبھا الف الف تحیۃ و سلام کو ہر دور اور ہر زمانے کے قابل سمجھتا ہے، وہ جو اسلام کے مکمل دین اور مستقل تہذیب ہونے کو جانتا ہے اور جو اپنے آپ کو بقول علامہ اقبال "مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند” سمجھتا ہے، پھر کیوں کر وہ مغربیت سے مرعوب ہوسکتا ہے؟ کیوں کر وہ اپنی اقدار و روایات کو ترک کرکے Happy new year, مناسکتا ہے؟ مشابہت اغیار اور یہود و نصاریٰ کی نقالی کرتے ہوئے نئے سال کا جشن کیسے انجام دے سکتا ہے؟ مدرز ڈے، فادرز ڈے، ویلنٹائن ڈے، چلڈرنز ڈے اور ٹیچرس ڈے وغیرہ کے نام پر کیوں اپنی تہذیب سے منہ موڑ کر مغربی تہذیب کو گلے لگاتا ہے؟
وجوہات و عوامل
در اصل اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ آج قوم مسلم فکری انتشار اور اخلاقی بحران کا شکار ہے۔ نہ تو اسے اپنی زندگی کے نصب العین کا پتا ہے اور نہ ہی اپنی حیثیت کا شعور ہے۔ وہ دینِ اسلام سے رسمی نسبت ہی کو فلاح و نجات کا ذریعہ سمجھ کر مطمئن ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ مغربی تہذیب سامانِ تعیش زیادہ فراہم کرکے مقصد زندگی کو صرف لطف اندوزی اور دولت سازی تک ہی محدود کرتی ہے مختصر الفاظ میں مادیت کو ہی اپنا سب کچھ سمجھ لیتی ہے اور روحانیت سے اسے دور دور تک کوئی سروکار نہیں، اور آج کی نئی نسل یہ سمجھتی ہے کہ اسلام صرف روحانیت کا ہی نام ہے بقدر ضرورت بھی مادیت کا قائل نہیں ہے گویا کہ
حاضر ہیں کلیسا میں کباب و مئے گل گوں
مسجد میں دھرا کیا ہے بجز موعظہ و پند
اسلام کامل دین اور مستقل تہذیب
جبکہ فی الواقع اسلام کے اندر بڑی کشش موجود ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اسلام ابدی و آفاقی تعلیمات اور اقدار کا قائل ہے، احکام خداوندی اور تعلیمات نبوی کے ساتھ معاشرتی اقدار کو بھی بنیادی مقام عطا کرتا ہے، جسکی اپنی تہذیب اور ذاتی کلچر ہے، جسکا کامل اور مکمل دین ہے جو مشابہت اغیار کو روا نہیں سمجھتا اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے ماننے والوں سے فرمایا :یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۪ وَ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ ﴿۲۰۸﴾
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب تفسیر معارف القرآن میں اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن سلام وغیرہ جو پہلے علماء یہود سے تھے اور اس مذہب میں ہفتہ کا روز معظم تھا اور اونٹ کا گوشت حرام تھا ان صاحبوں کو بعد اسلام کے یہ خیال ہوا کہ شریعت موسوی میں ہفتہ کی تعظیم واجب تھی اور شریعت محمدی میں اس کی بےتعظیمی واجب نہیں اسی طرح شریعت موسویہ میں اونٹ کا گوشت کھانا حرام تھا اور شریعت محمدی میں اس کا کھانا فرض نہیں سو اگر ہم بدستور ہفتہ کی تعظیم کرتے رہیں اور اونٹ کا گوشت باوجود حلال اعتقاد رکھنے کے صرف عملاً ترک کردیں تو شریعت موسویہ کی بھی رعایت ہوجاوے اور شریعت محمدیہ کے بھی خلاف نہ ہوگا اور اس میں خدا تعالیٰ کی زیادہ اطاعت اور دین کی زیادہ رعایت معلوم ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس خیال کی اصلاح آیت آئندہ میں کسی قدر اہتمام سے فرماتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ اسلام کامل فرض ہے اور اس کا کامل ہونا جب ہے کہ جو امر اسلام میں قابل رعایت نہ ہو اس کی رعایت دین ہونے کی حیثیت سے نہ کی جاوے اور ایسے امر کو دین سمجھنا ایک شیطانی لغزش ہے اور بہ نسبت ظاہری معاصی کے اس کا عذاب زیادہ سخت ہونے کا خطرہ ہے۔
اس اقتباس کو بار بار پڑھیے اور غور کیجیے کہ مشابہت اغیار اور کافروں کی نقالی کو اسلام کس قدر مذموم سمجھتا ہے، قرآن مجید کی کئی آیات اور بکثرت احادیث مبارکہ اس سلسلے میں وارد ہوئی ہیں
ایک حدیث مبارکہ میں نبی رحمت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ” لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ سَلَكُوا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَكْتُمُوهُ ". قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى قَالَ ” فَمَنْ "؟.
( صحيح البخاري :3456 ،الأنبياء – صحيح مسلم :2669 ، العلم )
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : تم لوگ اپنے سے پہلی قوموں کی ضرور پیروی کروگے ، بالشت بالشت برابر اور ہاتھ ہاتھ کے برابر ، حتی کہ اگر وہ لوگ گوہ [گھوڑپوڑ] کے سوراخ میں داخل ہوں گے تو تم لوگ بھی ان کی پیروی کروگے ، حضرت ابو سعید کہتے ہیں کہ یہ سننے کے بعد ہم لوگوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول کیا [پہلی قوموں سے مراد ] یہود ونصاری ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : پھر اور کون ۔
اللہ اکبر! حیرت ہے کہ علامت قیامت میں نبی رحمت ﷺ نے جو پیشن گوئی فرمائی تھی آج وہ آنکھوں کے سامنے نظر آرہی ہے، علم ہوگا لیکن عمل سے دور رہیں گے، عقل ہوگی مگر خواہشات نفسانی کے تابع ہوگی، آج علوم کی کمی نہیں سائنس و ٹیکنالوجی کی رفتار اور عقلوں کی تیزی کو تو پوچھنا ہی کیا لیکن مشابہت اغیار کی لعنت تم میں اس قدر سرایت کرجائے گی تم نہ اپنی عقل سے فیصلہ کرپاؤگے اور نہ ہی علم سے نفسانی تقاضوں کی تکمیل کرتے ہوئے اگر یہود و نصاریٰ گوہ کی سراخ میں داخل ہوجائیں گے تو تم بھی داخل ہوجاؤگے، عقل اور انسانی شرافت کے خلاف بھی یہود و نصاریٰ اگر کوئی کام کرتے ہیں تو تم بھی انہیں کی پیروی کروگے تمہاری عقل اور تمہاری سوچ تمہیں فائدہ نہیں دے گی دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا بالکل وہی وقت سے ہم نہیں گزرہے ہیں جسکی نبی رحمت ﷺ نے پیشن گوئی فرمائی تھی۔
مسلمانو! آج امت کا وہ طبقہ جو خود کو تعلیم یافتہ ، مہذب اور دیندار تصور کرتا ہے بالخصوص مغربیت کے جال میں پھنس چکا ہے یاد رکھیں کہ
نیو ائیر نائٹ منانا قرآن و سنت اور شریعت اسلامیہ کے نہ ہی مشرقی اقدار اور پاکیزہ معاشرہ کے بھی خلاف ہے۔
نیو ائیر نائٹ اغیار(کافروں، فاسقوں، فاجروں اور یہود و نصارٰی) سے مشابہت ہے جسکی اسلام قطعاً اجازت نہیں دیتا۔
نیو ائیر نائٹ بے حیائی عریانیت اور اخلاق سوز کاموں پر مشتمل ہوتی ہے۔
مسلمانو! خدارا اپنے معاشرہ کی حفاظت کیجیے، اپنی اولاد کی عصمت و عفت کو تقدس فراہم کیجیے، اسلامی تہذیب و تمدن سے ہم آہنگ کیجیے، اور مغربیت کے طوفان بلا خیز جا سامنا ایمان محکم، عمل پیہم اور یقین کامل سے کیجیے
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
اور
خدائے لم یزل کا دستِ قُدرت تُو، زباں تُو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گُماں تو ہے
پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے