قربانی کا مقصد اور ایک سنگین غلط فہمی کا ازالہ
قربانی ماہِ ذی الحجہ کی ایک اہم ترین اور عظیم الشان عبادت ہے، یہ اللہ تعالی کی رضا کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ قربانی کے اس عظیم الشان عمل کا مقصد یہ ہے کہ بندہ اپنے پروردگار کی اطاعت و فرمانبرداری کیلئے ہمہ وقت تیار رہے، اللہ تعالی کے احکامات کو اپنی تمام تر خواہشات پر مقدم رکھے، خدا تعالی کیلئے اپنی جان، مال، اولاد، اور خواہشات سمیت ہر چیز کو قربان کرنے سے دریغ نہ کرے، اپنے آپ کو کامل و مکمل اللہ پاک کے تابع کر دے، اور زندگی کے تمام معاملات میں شریعت کی پیروی کو ترجیح دے، یہی قربانی کی حقیقت اور فلسفہ ہے۔
جس مقصد کے تحت اللہ تعالی نے یہ قربانی واجب فرمائی تھی آج اس کے بالکل برخلاف کہنے والے یہ کہہ رہے ہیں کہ قربانی کیا چیز ہے؟ یہ قربانی ( معاذ اللہ ) خواہ مخواہ کے رکھ دی گئی ہے، لاکھوں کروڑوں کا روپیہ خون کی شکل میں نالیوں میں بہہ جاتا ہے، کتنے جانور کم ہوجاتے ہیں؟ اور معاشی اعتبار سے یہ کتنا نقصان دہ ہے؟ وغیرہ وغیرہ!
لہذا قربانی کے بجائے یہ کام کیا جائے کہ جو لوگ غریب اور مفلس ہیں، ان کا تعاون کیا جائے، قربانی کرکے گوشت تقسیم کرنے کے بجائے وہ رقم ایسے غرباء و فقراء اور محتاجوں کو دیدی جائے تو ان کی ضروریات پوری ہوں گی، غریب کی دعا ملے گی، ایک طرف صدقہ و خیرات کا ثواب بھی ملے گا تو دوسری طرف خدمتِ خلق کا اجر ملے گا اور فلاں ہوگا فلاں ہوگا وغیرہ۔
قربانی کے متعلق یہ پروپیگنڈہ موجودہ لاک ڈاون کی صورتِ حال کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اتنی کثرت سے کیا جارہا ہے کہ پہلے زمانہ میں تو ایک مخصوص حلقہ تھا جو اس طرح کی باتیں کہتا تھا لیکن اب یہ حالت ہوگئی ہے کہ شاید ہی کوئی دن خالی جاتا ہو جس میں کم از کم ایک دو افراد یہ بات نہ پوچھ لیتے ہوں کہ ہمارے اقرباء و اعزاء میں بہت سے لوگ خستہ حال ہیں لہذا اگر ہم قربانی نہ کریں بلکہ وہ رقم ان کو دیدیں تو اس میں کیا حرج ہے؟ یہ بھی تو نیک کام ہی ہے۔
اس جیسے بے بنیاد اور کھوکھلے نظریات کو جنم دینے والوں اور یہ غلط پروپیگنڈہ کرنے والوں کی خدمت میں عرض ہے کہ: ایامِ قربانی میں جانور ذبح ( قربانی ) کرنا ہی محبوب عمل ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ قربانی والے دن اللہ تعالی کے نزدیک آدمی کا کوئی بھی عمل قربانی کا خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہے۔ قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بالوں، سینگوں اور کُھروں کو لے کر آئے گا، اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ کے یہاں قبولیت کا درجہ پا لیتا ہے اس لئیے تم خوشی خوشی قربانی کیا کرو۔ ( سنن ترمذی )
نیز ضابطہ بھی یہی ہے کہ ہر عبادت کا ایک موقع و محل ہوتا ہے اس کو اسی کے مطابق ادا کرنا ضروری ہے تب ہی وہ عبادت ادا ہوتی ہے۔ اداءِ عبادت کے قانون کو پسِ پشت ڈال کر دوسری راہ اختیار کرنا اور اس میں اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانا محض ضیاعِ وقت اور تعب و تھکان کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
غرباء و مساکین کی امداد کا اجر و ثواب اپنی جگہ ہے لیکن جو دیگر فرائض و واجبات ہیں وہ اپنی جگہ فرض و واجب ہیں۔لہذا ایام قربانی میں قربانی کرنا ہی ضروری ہے اس لئیے کہ یہ عبادت ذبحِ جانور سے ہی ادا ہوتی ہے۔اس کے بجائے جانور یا جانور کی قیمت صدقہ کرنا ہرگز جائز نہیں ہے۔
پیغام: جو حضرات قربانی کے متعلق یہ پروپیگنڈہ کررہے ہیں ان کو تحقیقی، تفصیلی، الزامی و مدلل جوابات دینے سے گریز کرتے ہوئے صرف ایک بنیادی نکتہ کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ: ایک مومن کیلئے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، اللہ و رسول ﷺ کا حکم ہر چیز سے مقدم ہے، ان کا حکم بلا چوں و چرا ماننا چاہیئے، یہی اللہ اور اس کے رسول سے سچی محبت کی علامت ہے، اور یہی ان کی عظمت کا تقاضا ہے کہ ان کے حکم کے مقابلہ میں کسی قسم کے عقلی گھوڑے نہ دوڑائے جائیں، بلکہ ان کے آگے سرِ تسلیم خم کرلیا جائے جیسا کہ حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام نے اللہ کے حکم کے آگے سر جھکالیا۔ یہی قربانی کا مقصد و فلسفہ ہے۔ فافھم!
اللہ پاک صحیح فہم عطا فرمائے آمین۔۔