ریاست و ملک

ملک بھر میں عید الفطر کی نماز کی ادائیگی کو یقینی بنانے کے لئے بااثر مذہبی شخصیات صوبائی وزراء اعلی سے گفت و شنید کریں

دیوبند: 14؍مئی (آزاد صحافی شاہد معین) ملک کے وزیر اعظم نریندرمودی نے عید الفطر کی رعایت کئے بغیر لاک ڈاؤن کی مدت میں مزید اضافہ کرنے کا اعلان کردیا ہے، عید الفطر مسلمانوں کا سب سے بڑا مذہبی تہوار ہے، سال بھر عید الفطر کا انتظار کیا جاتا ہے، ملک بھر میں عیدالفطر مذہبی جوش و خروش اور عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جاتی ہے- تمام بڑے شہروں اور قصبوں میں کھلے مقامات، مساجد، اور عیدگاہوں میں عید کے روح پرور اجتماعات منعقد ہوتے ہیں ۔ امسال 25 مئی بروز پیر عید الفطر ہونے کا قوی امکان ہے۔ جبکہ 18 مئی سے لاک ڈاؤن کا چوتھا مرحلہ شروع ہونے جارہا ہے، چوتھے لاک ڈاؤن شروع ہونے کے 9 دن بعد عید الفطر ہے، گزشتہ 22مارچ کے لاک ڈاؤن سے ہی ملک بھر کی تمام مساجد بند ہیں۔رمضان المبارک کے باوجود کسی بھی مسجد میں نمازِ تراویح کا اہتمام نہیں اور نہ فرض نماز ہورہی ہے۔ایسے میں یہ سوال اٹھنے لگا ہے کہ عید کے موقع پر کیا ہوگا؟ ۔ لاک ڈاؤن کے تیسرے اور چوتھے مرحلہ میں اگرچہ بہت سی رعایتیں اور چھوٹ دی گئی ہیں لیکن اس کے باوجود مذہبی اجتماعات پر پابندی برقرار ہے ۔ایسے میں سوال اٹھنے لگا ہے کہ کیا لاک ڈاؤن 4نافذ ہونے کے بعد نمازِ عید کی اجازت ہوگی؟۔ امسال طویل لاک ڈاؤن کے سبب عیدگاہوں اور مساجد میں عید الفطر کی نماز کی ادائیگی مشکل نظر آرہی ہے، اس صورتحال میں مسلمانوں کے باأثر مذہبی رہنما اور ملی تنظيمیں ملک بھر میں عید الفطر کی نماز کی ادائیگی کو یقینی بنانے کے لئے مرکزی اور صوبائی وزراء اعلی سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ صلح و مشورہ کرنے کی ضرور کوشش کریں ، اور ان سے بات چیت کے ذریعہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے عید الفطر کی نماز کی ادائیگی کا کوئی لائحہ عمل طے کرلیا جائے ۔ ہاٹ اسپاٹ اور شدید متاثرہ مخصوص علاقوں کے علاوہ دیگر علاقوں میں مقامی صوبائی وزرائے اعلیٰ سے مساجد اور عیدگاہ میدان میں مشروط شرط پر حفاظتی تدابیر اختیار کرتے ہوئے عید الفطر کی نماز ادا کرنے کی اجازت لینے کی کوشش کی جائے ۔ اگر حکومت سے بات کی جائے تو یقیناً کوئی درمیانی راہ نکل کر ضرور سامنے آئے گی، لاک ڈاؤن کے دوران حکومتوں کا مذہبی اداروں اور بااثر شخصیات نے بھر پور تعاون کیا ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ بھی دینی و مذہبی اداروں کے ساتھ تعاون کریں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شرب خانوں کے باہر جب بغیر سوشل ڈسٹینسنگ کے خیال کئے بغیر لوگوں کی طویل قطار لگ سکتی ہے، تو ہر طرح کے ضروری اقدامات اور احتیاطی تدابیر کو بروئے کار لاتے ہوئے عید الفطر کی نماز کی اجازت کیوں نہیں ہوسکتی؟ لاک ڈاؤن کے دوران ٹرینوں میں مسافروں کی آمد و رفت شروع ہوسکتی ہے تو پھر آدھے گھنٹے کے لئے مشروط شرط پر مسلمانوں کو مذہبی تہوار منانے کی اجازت کیوں نہیں ہوسکتی؟۔ بااثر مذہبی شخصیات ، معتبر بڑے دینی ادارے اور مسلمانوں کی نمائندہ ملی تنظيمیں مساجد و عیدگاہ میں عید الفطر کی نماز کی ادائیگی کو یقینی بنانے کے لئے صوبائی وزراء اعلی سے گفت و شنید کی کوشش کریں۔
عید الفطر کی نماز کی ادائیگی چند مناسب تجاویز پر عمل درآمد کرکے یقینی بنائی جاسکتی ہے، وہ تجاویز درج ذیل ہیں:

( 1) امسال عیدگاہ میدان کے علاوہ عذر کی بنا پر شہر کی متعد بڑی مساجد میں عید الفطر کی نماز کی ادائیگی کا اہتمام کرلیا جائے، تاکہ بڑا مجمع ایک ساتھ جمع نہ ہو – (2) شہر کی جو مساجد بڑی ہیں اور جن میں صحن موجود ہے ان مساجد میں صاف فرش پر عید الفطر کی نماز ادا کرلی جائے- (3) عیدگاہ میدان اور مساجد میں فرش پر نمازیوں کے کھڑے ہونے کے لئے ہر 5 فٹ کے فاصلے پر نشان لگا لیا جائے، اور صف بندی کا اہتمام بھی اسی نشان کے مطابق اس انداز سے کیا جائے کہ نمازیوں کے درمیان 5 فٹ کا معاشرتی فاصلہ برقرار رہے۔ اس طرح سے سوشل ڈسٹینسنگ پر بھی عمل ہوگا اور نمازیوں کے لئے اقامت میں آسانی ہو گی۔ (4) لوگ مساجد میں گھر سے ماسک لگا کر آئیں، نماز سے پہلے اور بعد میں مجمع لگانے سے گریز کریں، مصافحہ نہ کریں اور خصوصی طور پر کسی کو گلے لگا کر عید الفطر کی مبارک باد نہ دیں۔ بغل گیر ہونے سے احتراز کریں، گھر واپسی پر لازمی طور پر اپنا ہاتھ صابون سے دھوئیں۔ (5) عید الفطر کے دن مساجد اور عیدگاہ میدان کے باہر شہر کے معزز ذمہ دار افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائے جو نماز کے دوران احتیاطی تدابیر پر عمل کو یقینی بنا سکے۔

ان مندرجہ بالا نکات پر عمل کرتے ہوئے عید الفطر کی نماز کی ادائیگی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے- امید ہے کہ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیمیں مرکزی اور صوبائی حکومت سے اس سلسلے میں بات چیت اور صلح و مشورہ کرکے کوئی ٹھوس اور حتمی لائحہ عمل طے کرکے قوم کو ضرور آگاہ کرے گی۔

Related Articles

One Comment

  1. ماضی میں جو حالات پیش آئے ہیں فرقہ پرست طاقتوں اور میڈیاء کی طرف سے ان کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تجویز بہت نقصاندہ ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×