حق تعالی نے انسان کو مختلف نعمتوں سے نوازا ،ان گنت صلاحیتوں سے بہرہ ور فرمایا اور بے شمار قوتیں عطا فرمائی ۔ساتھ ہی یہ بھی اعلان فرمایا : اگر تم میری نعمتوں کو شمار کرنا چاہو ،زبان کے ذریعہ انہیں بیان کرنا چاہو، قلم کی مدد سے ان کاا حاطہ کرناچا ہو، تو نہیں کرسکتے۔(النحل)مگر ان تمام نعمتوں میں دو نعمتیں ایسی ہیں ؛جن کے بارے میں سرکار دوعالم ﷺ نے عام لوگوں کے خسارہ اٹھانے کی پیشین گوئی فرمائی ہے:ایک تو صحت و تندرستی کی نعمت اور دوسری فرصت و فارغ البالی کی نعمت۔امام ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری (متوفی۲۵۶ھ )نے اپنی صحیح میں ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے اس روایت کو نقل فرمایاہے،سرکار دوعالم ﷺارشادفرماتے ہیں:دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ،صحت اور فراغت ۔(بخاری ،کتاب الرقاق،باب ماجاء فی الصحۃ والفراغ)
مشکوۃ شریف کے سب سے پہلے شارح ’’علامہ شرف الدین ابو عبداللہ حسین الطیبیؒ (متوفی ۷۴۳ھ ) حدیث مذکورکی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیںکہ اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مکلف انسان کو ایسے تاجر کے ساتھ تشبیہ دی ہے جس کے پاس بنیادی سرمایہ ہوتا ہے اور وہ اُس کو سلامت رکھنے کے ساتھ اُس پر نفع بھی کماتا ہے۔ ایسے تاجر کا طریقۂ کار یہ ہوتا ہے کہ وہ جس سے معاملہ کرتا ہے پورے غورو فکر سے کام لیتا ہے اور اپنے معاملات میں سچائی اور مہارت کو لازم پکڑتا ہے تاکہ اُس کو نقصان نہ اٹھانا پڑے۔ پس صحت اور فراغت تو انسان کا اصل سرمایہ ہیں اور اس کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایمان‘ نفس کے خلاف کو شش اور دین کے دشمنوں کے خلاف جہاد کے ذریعے معاملہ کرے؛تاکہ وہ دنیا و آخرت کی بھلائی‘ نفع کے طورپر حاصل کرلے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد مبارک کا بھی قریب قریب یہی مطلب ہے:’’ھل ادلکم علی تجارۃ تنجیکم من عذاب الیم‘‘(کیا میں تمہیں ایسی تجارت کے بارے میں نہ بتائوں جو تمہیں درد ناک عذاب سے بچالے)(الصف )انسان پر لازم ہے کہ وہ نفس کی پیروی سے بچے اور شیطان سے معاملہ کرنے سے پرہیز کرے تاکہ اُس کا بنیادی سرمایہ اور نفع دونوں برباد ہونے سے محفوظ رہیں۔(الکاشف عن حقائق السنن )
ایک اور روایت جو اس سے زیادہ واضح ہے اور جس میںمزید کچھ نعمتوں کااضافہ ہے،وہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے منقول ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: ’’قیامت کے دن انسان کے قدم اپنی جگہ سے ہٹ نہ سکیں گے یہاں تک کہ اس سے پا نچ باتوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے۔ عمر کن کاموں میں گنوائی؟ جوانی کی توانائی کہاں صرف کی؟ مال کہاں سے کمایا؟ اور کہاں خرچ کیا؟ جوعلم حاصل کیا اس پر کہاں تک عمل کیا؟ (ترمذی ،باب صفۃ القیامۃ)
جیساکہ ہم سب واقف ہیں کہ ان دنوںنہ صرف وطن عزیز ؛بل کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس کے سبب ہزاروں افراد موت کا لقمۂ تر بن چکے ہیں،لاکھوں انسان اس وبا سے بری طرح متاثر ہیں اور اربوں لوگ ایسے ہیں جومسلسل خوف و دہشت میں مبتلا ہیں ۔اس وبائی بیماری سے حفاظت کے لیے بھارت سمیت مختلف ممالک میںکہیں ایک ماہ اور کہیں بیس دن کے لیے لاک ڈاؤن(مکمل بند) کا اعلان ہوچکاہے،نیز حالات کی سنگینی کے پیش نظراعلان کردہ مدت میں توسیع کاامکان بھی ہے ؛جس کے سبب سارے بازاربند ہیں ،کاروبارٹھپ ہیں،تجارتیں سرد ہیں اور انسان گھروں میں محصور ہیں ۔ فرصت کے ان لمحات میں ہمیں مذکورہ فرمان نبویﷺ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس بات پر سنجیدہ غورکرنا چاہیے کہ ہم نعمتِ صحت وفراغت کی کتنی قدر کررہے ہیں اور کتنی ناقدری؟
وقت کی قدر وقیمت اور ہمارا معاشرہ:
پچھلے ایک ڈیڑھ ہفتے سے بند کے عمومی ماحول کے باوجود نوجوانوں کی بڑی اکثریت شہر میں گھومنے پھرنے،قریب جاجاکرپولس کو تنگ کرنے اور سوشل میڈیا پر اپنا وقت ضائع کرنے میں مصروف نظرآرہی ہے ،حال آں کہ یہ قیمتی وقت پڑھائی لکھائی اور دیگر اہم خدمات(خانگی امور میں گھر والوں کی معاونت،بیواؤں اورمحتاجوں کی امدادوغیرہ) کی انجام دہی کے ذریعہ کار آمدبنایا جاسکتاہے۔اس حقیقت سے مجال انکار نہیں کہ جہاں وقت کا صحیح استعمال قوم مسلم کے تابناک ماضی کا بنیادی سبب تھا،وہیں وقت کا بے دریغ ضیاع ہمارے تاریک مستقبل کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔فارغ البالی سے ناجائز فائدہ اٹھانے والے خواص و عوام درج ذیل دو واقعات ملاحظہ کریں اور وقت کی قدر ومنزلت سمجھنے کی کوشش کریں !
۱)امام ابن ابی حاتم الرازی ؒ (المتوفی۳۲۷ھ) فرماتے ہیں کہ ہم نے تحصیل علم کے لیے مصر میں سات ماہ قیام کیااور اس دوران ہم نے کبھی سالن نہیں کھایا۔ (صرف روٹی پر گزارا کیا) کیونکہ ہمارا پورا دن اساتذہ و مشائخ کی مجالس کے لیے وقف تھا ۔رات کو ہم اسباق لکھتے اور آپس میں اُن کا تقابل کرتے۔ ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ ہم ایک استاذ کے پاس گئے تو لوگوں نے بتایا کہ وہ بیمار ہیں۔(ہمیںکچھ فرصت ملی) تو ہم نے اپنے راستے میں دیکھا کہ ایک بہت اچھی مچھلی فروخت ہو رہی ہے۔ ہم نے وہ خریدی اور گھر آگئے۔ اتنے میں ایک اور استاذ کی خدمت میں حاضری کا وقت ہو چکا تھا۔ اس لیے اُسی مچھلی کو صاف کرنے اور پکانے کا موقع ہی نہ مل سکا اور ہم سبق کے لیے چلے گئے۔ مچھلی اسی طرح تین دن تک ہمارے آگے رکھی رہی حتی کہ خراب ہونی شروع ہوگئی۔ جب ہمیںپکانے کے لیے بالکل وقت نہیں ملا تو ہم کچی مچھلی ہی کھا گئے اور ہم نے اتنی فرصت بھی نہ پائی کہ کسی اور کو پکانے کے لیے دے دیتے۔ (تذکرۃ الحفاظ)
۲)اسی طرح فقہ حنفی کے معروف عالم ،امام سرخسیؒ(۴۸۳ھ) جوجلیل القدر فقہاء میں شمارکیے جاتے ہیں۔مورخیں لکھتے ہیں کہ آپ بیک وقت محدث بھی تھے اورفقیہ بھی،اصولی بھی تھے اورمناظر بھی ۔اسی کے ساتھ ساتھ حق گو اور بے باک داعی تھے، حکام وامراء کوان کی غلط روش پر نصیحت کرتے تھے۔ایک مرتبہ خاقان نامی حکم راں نے آپ کو کسی نصیحت کے سبب ایک کنویں میں قید کردیا ؛مگرقید خانہ بھی آپ کوتعلیمی مشاغل سے باز نہ رکھ سکا،تلامذہ ہر روز کنویں کے پاس جمع ہوجاتے اور آپ انہیں سبق پڑھاتے،اسی حال میں آپ نے محض اپنی فکر رسا اور طبع ذکا سے مبسوط نامی کتاب کا املاء کروایا، جو فقہ حنفی کی طویل ترین کتاب ہے اورتیس جلدوں میں مطبوع ہے، اسی طرح آپ نے جیل ہی میں سیر کبیر کی شرح بھی لکھوانی شروع کی جو فقہ حنفی کی کتابوں میںقابل قدر اضافہ ثابت ہوئی ۔(موسوعہ عالمیہ)
صحت و تن درستی اور ہماری لاپرواہی:
صحت دنیا کی اُن چند نعمتوں میں شمار ہوتی ہے ،یہ جب تک قائم رہتی ہے،ہمیں اس کی قدر نہیں ہوتی؛ مگر جوں ہی یہ ہمارا ساتھ چھوڑتی ہے‘ہمیں فوراً احساس ہوتا ہے کہ یہ ہماری دیگر تمام نعمتوں سے کہیں زیادہ قیمتی تھی۔ ہم اگر کسی دن میز پر بیٹھ جائیں اور سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کی انگلیوں تک صحت کاتخمینہ لگائیں تو ہمیں معلوم ہو گا ہم میں سے ہر شخص ارب پتی ہے۔ صرف آنکھ کی پلکوں کو لے لیجیے!ہماری پلکوں میں چند مسل ہوتے ہیں،یہ مسل ہماری پلکوں کو اٹھاتے اور گراتے ہیں‘ اگر یہ مسل جواب دے جائیں تو انسان پلکیں نہیں کھول سکتا۔بتلایا جاتا ہے کہ دنیا میں اس مرض کا کوئی علاج نہیں،دنیا کے درجنوںامیر ترین لوگ اِس مرض میں مبتلا ہیں اور یہ صرف اپنی پلک اٹھانے کے لئے دنیا بھر کے سرجنوں اور ڈاکٹروں کو کروڑوں ڈالر دینے کے لئے تیار ہیں؛مگرافسوس۔۔۔۔ ہمیں اس کا کوئی احساس نہیں۔
الغرض:وقت کے علاوہ صحت کے معاملے میں بھی ہمارا معاشرہ غفلت و سستی کا شکار ہے،رات دیر گئے جاگنا‘ مسلم محلوں کا طرۂ امتیاز بن چکاہے،مستقل بازاری کھانے کھانا اور ہوٹلنگ کرنا مسلمانوں کی پہچان بنتا جارہاہے،شراب نوشی اور دیگرمنشیات کا استعمال اغیار کی طرح مسلم معاشرے میں بھی عام ہے اورکسی بستی میں جا بجا گندگی و غلاظت کا ڈھیر اس بات کی علامت سمجھا جاتا ہے کہ یہاں مسلم آبادی زیادہ ہے۔ان اضطرابی حالات میں بھی مسلمانوں کی بڑی تعدادایسی ہے جو بیماری کی سنگینی سے بے خبر گھروں سے باہر گھوم رہی ہے۔نہ انہیں اپنی متاع ِجان عزیز ہے نہ اہل وعیال کی،ان کا مقصد صرف وقت گزاری اورکام ودہن کی لذت ہے۔ہونا تو چاہیے کہ ہم اسلامی تعلیمات کے علم بردار ہونے کی حیثیت سے دوسروں کو اسلام کا نظام صحت بتلائیں،توکل کے ساتھ ساتھ حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی اہمیت اجاگر کریں اور طہارت و نظافت کے سلسلہ میں نبی اکرم ﷺکی ہدایات منظر عام پر لائیں۔غور کیاجائے تو کرونا وائرس کی یہ وبا ہم سب کے لیے تازیانۂ عبرت اور درس ِنصیحت وموعظت ہے ۔
سلسلۂ سہروردیہ کے معروف بزرگ شیخ سعدی شیرازی رحمہ اللہ اپنا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میرے پاؤں میں جوتے نہیں تھے اور جیب میں پیسے بھی نہیں تھے کہ جوتے خرید سکوں۔میں کوفہ کی گلیوں میں یوں ہی برہنہ پا چلاجا رہا تھا اور دل ہی دل میں یہ کہہ رہا تھا: خدا نے میرے نصیب کتنے خراب بنائے ہیں کہ پہننے کو جوتا تک نہیں۔ اسی حالت میں چلتے چلتے کوفہ کی جامع مسجد آگئی، وہاں ایک آدمی کو دیکھا، جس کے سرے سے پاؤ ہی نہ تھے۔ میں فوراً خدا کے حضور سجدے میں گر گیا اور خدا کا شکر ادا کیا کہ جوتا نہ سہی، خدا تعالیٰ نے مجھے چلنے کے لیے پاؤں تودے رکھے ہیں۔(گلستان سعدی)
خلاصۂ کلام :
نعمتِ صحت و فراغت کا تقاضا ہے کہ ہم سوشل میڈیا پر شکوہ شکایتوں اور غیر ضروری تبصروں میں مغز ماری کے بجائے اطمینان کے ساتھ گھروں میں سکونت پذیر ہوں،بلا ضرورت باہر نہ نکلیں، ناگزیر ضرورت ہوتو کام سے فارغ ہوکر جلد واپسی کی فکر کریں،باوضو رہنے اور صفائی ستھرائی کا معمول سے زیادہ اہتمام کرنے کی کوشش کریں، متوازن،معتدل اور صحت بخش غذاؤں کا استعمال کریں،فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کا بھی اہتمام کریں، قرآن مجید کی تلاوت کو اپنا مستقل معمول بنالیں، انفرادی و اجتماعی دعاؤں کو ہرگزفراموش نہ کریں، تہجد میں بیدار ہوکر رب العالمین کے حضور گڑگڑانے کی عادت ڈالیں اور رفتہ رفتہ اپنی زندگی میں صالح تبدیلی لانے کی کوشش کریں۔ ان شاء اللہ اس کی برکت سے رحمت حق متوجہ ہوگی پھر ہر وبا دور ہوگی، ہر آفت ٹلے گی اور ہر مصیبت ختم ہوگی۔
اخیر میں صرف ایک روایت ذکرکرکے اپنی بات مکمل کرنا چاہتا ہوں ۔ ایک مرتبہ صحابی رسول حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! نجات کیسے ملی گی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تین نصیحتیں فرمائی:
(۱) اپنی زبان کو قابو میں رکھو!
(۲) اپنے گھر میں رہو!
(۳) اپنے گناہوں پر آنسو بہایا کرو !(ترمذی)
مذکوہ بالا تین نصیحتوں پر عمل آوری کے ذریعہ جہاں ہم جہنم سے نجات پاسکتے ہیں، وہیں موجودہ بحران اور وبائی مرض سے چھٹکارا بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ دعا ہے کہ حق تعالیٰ ہمیں فہم سلیم اور عقل مستقیم عطا فرمائے۔ آمین