اس وقت عالمی میڈیا کی سرخیوں میں کرونا وائرس چھایا ہوا ہے، سارے عالم پر اس کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے، قہر بن کر ٹوٹنے والے اس وائرس نے حکومتوں کے ہوش اڑا دئے ہیں، تادم تحریر یہ مہلک وائرس۸۰۰ سے زائد لوگوں کی جان لے چکا ہے، اور ۳۰ ہزارسے زائد اس سے متأثر ہیں، چین کے ووھان شہر سے شروع ہونے والا یہ وائرس دنیا کے ۲۷ ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، عالمی ادارہ صحت نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو ایک میڈیکل ایمر جنسی قرار دیا ہے، اس وقت سب سے برا حال چین کا ہے جہاں سے یہ وبا پھوٹی ہے، چین کے مختلف صوبوں میں لاک ڈاؤن کردیا گیا ہے، مختلف شہروں کے ۶ کروڑ سے زائد چینی باشندے اپنے شہروں تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں، دوسری جانب دنیا کی اکثر فضائی کمپنیوں نے چین کے لئے پر وازیں منسوخ کردی ہیں، اور جن ممالک کے چین سے تجارتی تعلقات ہیں، انھوں نے چین سے خریداری روک دی ہے، چین کے مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ وائرس کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں معطل ہوچکی ہیں، اور چین کو اربوں ڈالروں کا نقصان ہوچکا ہے، ریزو بینک آف چائنا نے چینی معیشت میں ۱۷۳ ارب ڈالر شامل کرنے کا اعلان کیا ہے، جس سے کرنسی مارکٹ کو استحکام حاصل ہوگا، پوری دنیا میں ہیلتھ الرٹ جاری کئے جاچکے ہیں، چین آنے جانے والوں کی ایئرپورٹ پر اسکریننگ ہورہی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ دنیا کو ایسے وائرس سے پالا پڑا ہو، اس سے قبل ڈینگی وائرس، سوائن فلو وائرس، برڈ فلو اورسارس جیسے وائرس خوب تباہی مچا چکے ہیں، مگر ان کی تباہ کاریاں کرونا جیسی نہ تھیں،اس نے تو پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔۱۹۸۰ء کی دہائی سے ایچ آئی وی کا وائرس سامنے آیا، جس نے دنیا بھر میں بڑی تعداد میں لوگوں کو متأثر کیا۔۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۷ء کے دوران برڈ فلو پھیلا۔ ۲۰۰۹ء میں خنزیر کی وجہ سے سوائن فلو پھیلا۔ چمگاڈر وں سے ایبولا وائرس انسانوں میں منتقل ہوا، اس وضاحت سے پتہ چلتا ہے کہ حالیہ عرصہ میں کوئی نہ کوئی وائرس دنیا کے کسی نہ کسی علاقہ میں تباہی مچاتا رہا ہے، فی الحال پوری دنیا کرونا وائرس سے پریشان ہے، کرونا وائرس سے پیدا صورت حال کے تناظر میں کچھ ضروری نکات کی جانب توجہ دلانے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کرونا وائرس سے متعلق ابتدائی جانکاری حاصل کی جائے، آزاد موسوعہ وکی پیڈیا کے مطابق کرونا وائرس (CORONA VIRUS) ایک وائرس گروپ ہے، جس کی جینوم کی مقدار تقریباً ۲۶ سے ۳۲ زوج قواعد تک ہوتی ہے، یہ وائرس ممالیہ جانوروں اور پر ندوں میں مختلف معمولی اور غیر معمولی بیماریوں کا سبب بنتا ہے، مثلاً گائے اور خنزیر کے لیے اسھال کا باعث ، اسی طرح انسانوں میں سانس پھولنے کا ذریعہ بنتا ہے، عموماً اس کے اثرات معمولی اور خفیف ہوتے ہیں، لیکن بعض اوقات کسی غیر معمولی صورت حال میں مہلک بھی ہوجاتے ہیں، کورونالاطینی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی تاج یا ہالہ کے ہوتے ہیں، چوں کہ اس وائرس کی ظاہری شکل سورج کے ہالے یعنی کورونا کے مشابہ ہوتی ہے، اسی وجہ سے اس کا نام کورونا رکھا گیا ہے،سب سے پہلے اس وائرس کی دریافت ۱۹۶۰ء کی دہائی میں ہوئی تھی، جو سردی کے نزلہ سے متأثر کچھ مریضوں میں خنزیر سے متعدی ہوکر داخل ہوا تھا، اس وقت اس وائرس کو ہیومن (انسانی) کرونا وائرس E229اور OC43کا نام دیا گیا تھا، ا س کے بعد اس وائرس کی دوسری قسمیں بھی دریافت ہوئیں، عالمی ادارہ صحت کے ذریعہ نامزد کردہ NCOV2019نامی کرونا وائرس کی ایک نئی وبا ۳۱؍دسمبر ۲۰۱۹ء سے چین میں عام ہوئی، جو کہ آہستہ آہستہ اب وبائی شکل اختیار کرچکی ہے، یہ وائرس اس لیے خطرناک ہے کہ یہ انسان سے انسان کے درمیان پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ۲۵؍ جنوری ۲۰۲۰ء کو اس وائرس کی وجہ سے چین کے ۱۳ شہروں میں ایمرجنسی لگادی گئی ہے، اس وائرس کے ذریعہ انسانوں کو ہونے والی بیماریوں کی اس وقت چار سے پانچ قسمیں ہیں، سب سے زیادہ پائی جانے والی قسم ’’انسانی کورونا سارس COV‘‘ہے، جو سارس بیماری کا ذریعہ بنتا ہے، یہ بالکل منفرد قسم کی بیماری ہے اس سے اوپری اور نچلے دونوں نظام تنفس یکساں متأثر ہوتے ہیں، اور بسا اوقات آنت اور معدے کا نمونیہ ہوجاتا ہے، یہ مانا جاتا ہے کہ کرونا وائرس عام طور پر بالغ افراد کو سردی کے نزلہ کی وجہ سے سب سے زیادہ لاحق ہوجاتا ہے، اس وائرس کے شکار لوگوں میں بالعموم زکام، گلے کی خرابی، سردرد اور بخار کی علامتیں ظاہر ہوتی ہیں، ناک مسلسل بہنے لگتی ہے، جسم تھکا تھکاسا محسوس ہوتا ہے، اگرانفیکشن زیادہ ہوجائے تو پھیپھڑے بھی متأثر ہوتے ہیں، سب سے زیادہ خطرے کی بات تب ہوتی ہے جب انفیکشن کی زیادتی سے نمونیہ ہوجاتا ہے، اس حالت میں سانس لینے میں سخت دشواری ہونے لگتی ہے، بسا اوقات سانس رک جاتی ہے، اور مصنوعی نظام تنفس کا سہارا لینا پڑتا ہے، انفیکشن پھیلنے کی صورت میں چند گھنٹوں میں موت واقع ہونے کا بھی خدشہ رہتا ہے، کرونا وائرس کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ متأثرہ شخص دو سے پانچ دن کے اندر بیماری کو دوسروں تک پہونچا سکتا ہے، اس بنا پر تشخیص ہونے پر مریض کو قریب ایک ہفتہ علاحدہ رکھا جانا ناگزیر ہوجاتا ہے، اس مرض کی تشخیص اور جسم میں اس وائرس کی موجودگی کا پتہ لگانے کے لیے بلڈ ٹسٹ کرایا جاتا ہے، کرونا وائرس کی علامتیں زیادہ تر نمونیہ سے ملتی جلتی ہیں، زکام کی طرح اس وائرس کی علامات سات سے دس دن تک جاری رہتی ہیں، عام سردی میں ہونے والے نزلے کہ طرح کرونا وائرس کے اثر کا اندازہ لگانا مشکل ہے، کیوں کہ وہ ناک وائرس (عام سردی کا نزلہ) کے برعکس ہوتا ہے، چین میں کرونا وائرس سب سے پہلے سانپوں کے ذریعہ انسانوں میں منتقل ہوا، پالتو بلیاں اور کتے بھی اس وائرس سے متأثر ہوتے ہیں، پھر ان سے یہ وائرس انسانوں میں منتقل ہوتا ہے، تاحال اس مرض کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے، احتیاطی تدابیر ہی اس کا واحد علاج ہے، ماہرین کے مطابق متأثرہ شخص کو ایک ہفتہ کے لیے مکمل علیحدگی میں رکھا جائے، نیز مریض اور اس کے ساتھ رابطہ رکھنے والے سارے افراد ماسک اور دستانے استعمال کریں، مریض کے کمرہ میں اسپرے کیا جائے، اس کے زیر استعمال ٹیشو پیپر کو علیحدہ تلف کیا جائے، کھانسی یا چھینک آنے پر منھ اور ناک کو رومال یا ٹیشو سے ڈھانپ لیا جائے، بخار، کھانسی اور سانس کی تکلیف کی صورت میں فوری ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے، عالمی ادارہ صحت نے کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے جو احتیاطی تدابیر جاری کی ہیں ان میں چند یہ ہیں: ہاتھوں کو صابن سے دھویا جائے، اسی طرح جس شخص کو نزلہ، زکام، کھانسی یا بخارجیسی علامات ہوں اس سے کم از کم ایک میٹر کی دوری اختیار کی جائے، ماہرین کے مطابق آنکھ، ناک اور منھ کو چھونے سے اجتناب کیا جائے، اگر کوئی حال میں چین سے آیا ہو یا کسی ایسے شخص سے ملا ہو جو چین سے آیا ہو اور وائرس کی علامات ظاہر ہورہی ہوں تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرے، سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہو تب بھی ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے اور مکمل صحت یاب ہونے تک گھر سے باہر نہ نکلا جائے، ماہرین کا کہنا ہے کہ پالتو جانوروں سمیت ہر جانور سے دوری اختیار کریں، باقاعدگی سے ہاتھوں کو صابن سے دھوئیں، اور گوشت اور انڈوں کو اچھے سے پکا کر کھائیں۔
انسانی معاشروں کے لیے وبائی امراض کوئی نئی بات نہیں، البتہ وبائیں کیوں آتی ہیں یہ سوال زیادہ اہمیت کا حامل ہے، وائرس اوروبائی امراض کے کچھ اسباب تو وہ ہیں جن کا ہماری ظاہر بیں نگاہیں ادراک کرلیتی ہیں اور میڈیکل سائنس ان کا کھوج لگا لیتی ہے، لیکن وائرس اور وبائی امراض کے کچھ باطنی اسباب ہوتے ہیں جس کا علم وحی الٰہی کے ذریعہ ہوتا ہے، قرآن وسنت کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں عام ہونے والے مہلک وائرس اور وباؤں کا انسانی اعمال سے بڑا گہرا تعلق ہے، ابن ماجہ کی ایک روایت ہے جس کے راوی حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ ہیں، اس تفصیلی روایت میں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس قوم میں علانیہ فحاشی اور بے حیائی کے کام ہونے لگیں اس میں طاعون اور ایسی ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان سے پہلے لوگوں میں نہ تھیں، حدیث بالا میں جس طاعون کا ذکر کیا گیا ہے اس میں تمام وائرس اور وبائیں داخل ہیں، جو دیکھتے دیکھتے سیکڑوں لوگوں کو نگل جاتی ہے،حدیث پر غور کیجئے اور سوچئے کہ کیا موجودہ دور میں علانیہ فحاشی عام نہیں؟ کیا آج کے معاشروں میں فحاشی سرچڑھ کر نہیں بول رہی ہے؟ اور کیا اس وقت نت نئی وبائیں زور نہیں پکڑ رہی ہیں؟ ایسے وبائی امراض سے تحفظ کے لیے جہاں احتیاطی تدابیر اپنانا ضروری ہے وہیں معاشرہ کو سماجی برائیوں سے پاک رکھنا بھی ضروری ہے، اس قسم کے وائرس جب انسانوں کو سیکڑوں کی تعداد میں نگلتے جارہے ہوں تو ضروری ہے کہ لوگ بد عملی سے سچی توبہ کریں،اور ہر قسم کے گناہوں سے مکمل اجتناب کریں۔
صحیح احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ طاعون اور اس جیسی وبائیں در اصل خدا کا عذاب ہوتی ہیں، جنھیں اللہ تعالیٰ تنبیہ کے لیے بھیجتا ہے،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے طاعون کے بارے میں دریافت کیا تو آپﷺ نے مجھے بتایا کہ یہ اللہ کا عذاب ہوتا ہے،اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے نازل کرتا ہے،اور اسے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لیے رحمت بنایا ہے، پس جو کوئی مسلمان طاعون میں مبتلا ہوجائے پھر ثواب کی امید رکھ کر اس پر صبر کرے اور اسی بستی میں ٹھہرا رہے اس یقین کے ساتھ کہ اسے وہی مصیبت پہونچے گی جو اللہ نے اس کے لیے مقدر کررکھی ہے تو ایسے مومن کے لیے شہید کے برابر اس کا اجر ملے گا۔(بخاری شریف) بخاری اور مسلم کی ایک اور حدیث میں طاعون کے متعلق ارشاد ہے کہ طاعون در اصل عذاب ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل یا تم سے پہلے کسی قوم پر بھیجا تھا، جس علاقہ کے بارے میں تم سنو کہ وہاں طاعون کی وبا پھیلی ہے تو وہاں نہ جاؤ، اور اگر تمہارے علاقہ میں طاعون پھیل جائے تو وہاں سے راہ ِفرار اختیار نہ کرو، ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ایسے وائرس در اصل عذاب خداوندی ہوتے ہیں، سچی توبہ اور اعمال کی اصلاح کے ذریعہ ان سے تحفظ کا سامان فراہم کرنا چاہیے۔
مذکورہ احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس قسم کے وائرس اور وباؤں کی صورت میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں ہے، نبی رحمتﷺ نے چودہ سو برس پہلے ہی بتلادیا کہ وائرس زدہ علاقہ کے لوگوں کو اپنا علاقہ نہیں چھوڑنا چاہیے، اور دیگر مقامات کے افراد کو متأثرہ علاقوں میں داخل نہیں ہونا چاہیے، جب متأثرہ علاقوں کے لوگ دوسرے مقامات پر جائیں گے تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ وائرس ان مقامات کو اپنی لپیٹ میں لے لے،نیز جب متأثرہ علاقوں کے غیر متأثر لوگ علاقہ چھوڑ دیں گے تو وائرس کے شکار مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں رہے گا۔
موجودہ دور میں وباؤں کے پھوٹ پڑنے کا ایک اہم سبب ظلم وتشدد میں اضافہ ہے، چین میں مذہبی اقلیتوں بالخصوص ایغور مسلمانوں کے ساتھ جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں کسی انسانی معاشرہ میں ان کا تصور نہیں کیا جاسکتا، ایغور مسلمانوں کو ڈیٹنشن سینٹروں میں ٹھوس کر پورے علاقے کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کردیا گیا ہے، انہیں زبردستی خنزیر کا گوشت کھلایا جارہا ہے، اس وقت پوری دنیا کرونا وائرس کے خاتمہ کے لیے فکر مند ہے، اور ہر ملک بھر پور احتیاطی تدابیر اختیار کررہا ہے،لیکن موجودہ حکمرانوں کو ایسے وائرس کے باطنی پہلو پر بھی توجہ دینا چاہیے، وباؤں کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں پر فکر مند ہونے والے عالمی قائدین ظالمانہ جنگوں میں ہونے والی لاکھوں ہلاکتوں کو کیوں نظر انداز کرتے ہیں،حالیہ جنگوں میں لاکھوں بے قصور مسلمان ہلاک کئے گئے، کیا ان بے قصوروں کو جینے کا حق نہیں تھا؟ایغور اور چینی مسلمانوں کو اسلامی پردہ سے روکا گیا، آج اللہ نے ایسی حالت پیدا کردی کہ چین ہر شخص اپنے جسم کو ڈھانکنے پر مجبور ہے۔
وائرس اور وبائی امراض کا کھانے پینے کے نظام سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے، کھانے کی چیزوں میں بے احتیاطی اور حرام جانوروں کا استعمال جنھیں خالق جن وانس نے حرام ٹھہرایا ہے، اس قسم کے وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ بنتا ہے، حالیہ کرونا وائرس کے بارے میں ماہرین نے وضاحت کی ہے کہ یہ وائرس بعض جنگلی جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے، چین کے جس شہر ووھان سے یہ وبا پھوٹی ہے وہاں ہر قسم کے جنگلی جانوروں کے کھانے کا رواج عام ہے، بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وائرس چمگاڈر اور سانپوں سے منتقل ہوا ہے، چینی لوگ کتے،بلے، چوہے، سانپ اور ہر قسم کے جنگلی درندوں کو کھا جاتے ہیں، انسان کا خالق رب کائنات ہے، وہ بہتر جانتا ہے کہ انسانوں کے لیے کیا چیزیں اور کونسے جانور مفید ہیں اور کونسے مضر ہیں، جب انسان اس خدائی ضابطے کو توڑتا ہے اور چوہے، بلے اور کتے سانپ کو تک ہڑپ کرجاتا ہے تو لامحالہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہوجاتے ہیں۔
وبائی امراض اور وائرس کے عمومی پھیلاؤ کے موقع پر لوگوں کی ساری توجہ صرف ظاہری تدابیر پر ہوتی ہے، ظاہری تدابیر ضرور اختیار کی جائیں لیکن اس کے ساتھ رجوع إلی اللہ اور اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرنے کا اہتمام ضروری ہے، ہر قسم کے وائرس بیماریوں اور مخلوقات کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے صبح وشام کی دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے، چند دعائیں یہ ہیں:
۱- بسم اللہ الذی لا یضر مع اسمہ شيء فی الأرض ولا فی السماء وہو السمیع العلیم۔
۲- أعوذ بکلمات اللہ التامات کلہا من شر ما خلق۔
۳- اللہم عافنی فی بدنی، اللہم عافنی فی سمعی، اللہ عافنی فی بصری۔
رفتار زمانہ کے ساتھ آقائے رحمت ﷺ کی سنتوں کی افادیت عالم انسانی پر اُجاگر ہوتی جارہی ہے، وضونماز کی کنجی ہے اور عظیم عبادت ہے، ایک مسلمان شب وروز میں پانچ مرتبہ وضو کا اہتمام کرتا ہے، آج پوری دنیا وضو کی افادیت کا اعلان کررہی ہے، کرونا وائرس کے ماحول میں ماہرین کی جانب سے بار بار ہاتھوں کو دھونے کی ہدایت دی جارہی ہے، نماز کے پابند مسلمان دن میں پانچ مرتبہ وضو کے دوران اپنے ہاتھوں کو دھونے کا اہتمام کرتے ہیں، کتنی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنی عبادات میں بھی انسانوں کے لیے صحت وتندرستی کا سامان رکھا ہے۔
وائرس اور وباؤں کے عمومی پھیلاؤ کے موقع پر بعضے لوگ شدید مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں، اور اسے اپنے لیے بہت بڑی مصیبت خیال کرتے ہیں، بلا شبہ فطرت انسانی مصائب وآفات پر بے چین ہوجاتی ہے، لیکن ہر قسم کی بیماریوں اور وبائی امراض کے موقع پر ایک مومن کو یہ حقیقت پیش نظر رکھنا چاہیے کہ یہ وبائیں اہل ایمان کے لیے رحمت ہیں، حدیث شریف میں طاعون کو مومنوں کے لیے رحمت قرار دیا گیا ہے، بشرطیکہ صبر اور ثواب کی امید کے ساتھ اللہ کی ذات پر سچا یقین رکھے۔
Email: awameez@gmail.com
Mob: 09440371335