علاماتِ قیامت پیامِ عبرت اور نصیحت
اللہ تعالیٰ کی ذات حاضر وغائب ،ظاہر وپوشیدہ اور چھوٹی وبڑی ہر ایک چیز کو جاننے والی ہے ،وہ ہر چیز پر نظر رکھے ہوئے ہیں ،کوئی چیز ان کی نگاہ سے باہر نہیں ہے ،قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے :عَالِمُ الۡغَیۡۡبِ وَالشَّہَادَۃِ الۡکَبِیۡرُ الۡمُتَعَال(الرعد:۹)’’وہ غائب وحاضر تمام باتوں کا جاننے والا ہے ،اس کی ذات بہت بڑی ہے اس کی شان بہت اونچی ہے‘‘ ، قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ ارشاد خداوندی ہے :قُلۡ إِن تُخۡفُواۡ مَا فِیۡ صُدُورِکُمۡ أَوۡ تُبۡدُوہُ یَعۡلَمۡہُ اللّہُ وَیَعۡلَمُ مَا فِیۡ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیۡ الأرۡضِ وَاللّہُ عَلَی کُلِّ شَیۡۡء ٍ قَدِیۡرٌ(آل عمران:۲۹)’’ (اے رسولؐ) لوگوں کو بتادو کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تم اسے چھپاؤ یا ظاہر کرو ،اللہ اسے جان لے گا ،اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ،وہ سب جانتا ہے ،اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘، انسانوں ،جناتوں اور دیگر مخلواقات کے پاس جو کچھ علم ہے وہ اللہ ہی کا دیا ہوا ہے ،خالق کے مقابلہ میں تمام مخلوقات کا علم سمندر کے مقابلہ میں ایک قطرہ کے برابر ہے اور یہ بھی بطور مثال ہے ،قرآن مجید میں ارشاد خدوندی ہے : وَمَا أُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ إِلاَّ قَلِیۡلا(الاسراء:۸۵)’’اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ بس تھوڑا ہی سا علم ہے‘‘،قرآن مجید میں ایک مقام پر بطور خاص پانچ چیزوں کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا گیا کہ ان کا علم اللہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے ،ارشاد خداوندی ہے : إِنَّ اللَّہَ عِندَہُ عِلۡمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الۡغَیۡۡثَ وَیَعۡلَمُ مَا فِیۡ الۡأَرۡحَامِ وَمَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌ مَّاذَا تَکۡسِبُ غَداً وَمَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌ بِأَیِّ أَرۡضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ (لقمان:۳۴)’’یقینا (قیامت کی) گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے،وہی بارش برساتا ہے،اور وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹ میں کیا ہے،اور کسی متنفس کو یہ پتہ نہیں ہے کہ وہ کل کیا کمائے گا اور نہ کسی متنفس کو یہ پتہ ہے کہ کونسی زمین میں اسے موت آئے گی ،بیشک اللہ ہر چیز کا مکمل علم رکھنے والا ،ہر بات سے پوری طرح باخبر ہے۔
جن پانچ چیزوں کا اس آیت مبارکہ میں ذکر کیا گیا ہے ان میں سر فہرست قیامت ہے ،قرآن مجید کے مختلف مقامات پر متعدد آیات درج ہیں ، ان میں قیامت کی ہولناکیوں کا تذکرہ نہایت عبرت انگیز طریقہ سے کیا گیا ہے مگر اس کا وقوع کس وقت ہوگا کچھ بتایا نہیں گیا ہے ، رسول اللہ ؐ نے بہت سے مواقع پر حضرات صحابہ ؓ کے سامنے قیامت کی خطر ناکی اور اس کی چھوٹی بڑی علامتوں کا ذکر تو فرمایا ہے لیکن کہیں بھی اس کے وقت کے بارے میں نہیں بتایا ہے،چنانچہ حدیث کی کتابوں میں ایک حدیث ’’ حدیث جبرئیل ‘‘ کے نام سے مشہور ہے جس میں ہے کہ حضرت جبرئیل ؑ انسانی شکل وصورت میں بارگاہ نبوی ؐ میں تشریف لا کر ایک انوکھے انداز میں آپ ؐ سے پانچ سوالات کئے تھے ، وہ رسول اللہ ؐ کے جوابات پاکر اس کی تصدیق بھی کرتے جاتے تھے ، اس میںپانچواں سوال قیامت سے متعلق تھا ،اس کے جواب میں آپ ؐ نے فرمایا کہ : ماالمسئول عنھا بأعلم من السائل’’ جس سے پوچھا جارہا ہے وہ سائل سے زیادہ نہیں جانتا‘‘ ،اس پر حضرت جبرئیل ؑ نے اس کی چند نشانیاں بتانے کی خواہش کی تو آپ ؐ نے فرمایا : باندی اپنی مالکہ کو جنم دے گی ،ننگے پاؤں پھر نے والے ،ننگے بدن محتاج لوگ بکری چرانے والے ایک دوسرے سے بڑھ بڑھ کر محل بنائیں گے ،حدیث مذکور میں آپ ؐ نے قیامت کی دوعلامتوں کا ذکر فرمایا ہے اس کے علاوہ متعدد احادیث میں قیامت کی بہت سی علامتوں کا ذکر کیا گیا ہے ،جنہیں یکجا کرکے علماء کرام نے ’’علامات قیامت‘‘ کے نام سے کتابیں ترتیب دی ہیں ،ان ہی میں سے چند یہ ہیں ۔
(۱)ان تلد الامۃ ربتھا:(ترمذی:۲۲۱۱)’’باندیاں آقا کو جنیں گی ‘‘ مطلب یہ ہے کہ قیامت کے قریب بد اخلاقی اور نافرمانی کا اس قدر زور ہوگا کہ کہ ماں باپ کی حیثیت گھٹ کر رہ جائے گی ،جن ماں باپ نے اپنے اولاد کی پرورش کی تھی، انہیں چلنا پھرنا سکھایا ،بولنا لکھنا سیکھایا اور بچپن میں ان کے ناز تخرے برداشت کئے تھے ان کی اولاد بڑی ہوتے ہی ماں باپ پر حکومت چلانے لگے گی ، اونچی آواز میں گفتگو کرے گی،بدزبانی کرے گی،اپنی مرضی چلائے گی اور ان کی اہمیت گھٹا کر ان کے ساتھ نوکروں جیسا سلوک کرے گی،اولاد کے سامنے بوڑھے ماں باپ کو دیکھ کر ایسا لگے گا کہ یہ ان کے غلام اور نوکر ہیں ،بلاشبہ رسول اللہ ؐ نے جو پیشن گوئی فرمائی تھی آج کے معاشرہ میں ہم اپنی سر کی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں ،اولادیں ماں باپ کوڈرانے دھمکانے لگی ہیں ،ماں باپ انہیں دیکھ کر سہم سے جارہے ہیں ،ان کی بے ادبی پر ضبط کرتے جارہے ہیں ،اولاد انہیں بے حیثیت سمجھ نے لگی ہے ،ان کی محبت وچاہت اور پچپن کی بے لوث خدمات کو فراموش کرتی جارہی ہے ،ان پر روپئے پیسے خرچ کرکے طعنہ دے رہی ہے اور ان کی خدمت کو اعزاز نہیں بلکہ احسان سے تعبیر کر رہی ہیں ،حالانکہ ماں باپ کی خدمت رضاء الٰہی اور دخول جنت کا سبب ہے ،ان پر سب کچھ قربان کرنے کے بعد بھی ان کا حق کیا ادا ہوگا سخت سردی کی رات کی گئی خدمت کا بدل بھی بن نہیں سکتا ۔
(۲)وان تری الحفاۃ العراۃ العالیۃ رعاء الشاء یتطاولون فی البنیان(حوالہ:سابق)،’’ ننگے پاؤں پھر نے والے ،ننگے بدن محتاج لوگ بکری چرانے والے ایک دوسرے سے بڑھ بڑھ کر محل بنائیں گے‘‘،مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جن کے پاؤں میں جوتیاں نہیں تھیں ،پہننے کے لئے کپڑے میسر نہیں تھے ، غربت وافلاس کی وجہ سے پیٹھ پیٹ کو لگ چکا تھا ،گداگربنے ہوئے تھے ، ان کی یہ حالت ہوگی کہ لمبی لمبی بلڈنگیں بنارہے ہوں گے،ایک دوسرے پر فخر کر رہے ہوں گے ،سابقہ زندگی بھول کر دوسروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہوں گے ، حالانکہ وہ بھول رہے ہیں کہ کمینہ آدمی بڑی بلڈنگ سے بڑا نہیں بنتا ،ذلیل شخص اونچی عمارت سے عزت دار نہیں بنتا ،گھٹیا آدمی عمدہ سواری سے رعب دار نہیں بن جاتا ،آدمی کی قدر منزلت مکان سے نہیں کردار سے ہوتی ہے ،اس کی قدر سواری سے نہیں لیاقت سے ہوتی ہے اور آدمی کی عزت وعظمت اس کی دولت سے نہیں اس کے اخلاق سے ہوتی ہے ،چنانچہ ایک موقع پر رسول اللہ ؐ کے سامنے سے ایک آدمی کا گزر ہوا (جو مالداراور منصب والا تھا ) ،آپ ؐ نے صحابہ ؓ سے پوچھا !بتاؤ اس کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ صحابہ ؓ عرض کیا کہ اگر یہ سفارش کرے تو اسے کوئی رَد نہ کرے ،نکاح کا پیغام بھیجے تو کوئی انکار نہ کرے ،پھر ایک دوسرے شخص کا گزر ہوا (جو دیندار ،متقی ،پرہیزگار اور عاجزی کا پیکر تھا) تو آپ ؐ نے پوچھا تمہاری اس کے بارے میں کیا رائے ہے؟ صحابہ ؓ نے کہا :یہ رشتہ مانگے تو کوئی ہاں نہ کرے ،بات کرے تو کوئی نہ سنے ،یہ سن کر آپ ؐ نے فرمایا جو شخص پہلے گیا ہے اگر اس جیسوں سے پوری دنیا بھر جائے تب بھی اس کے برابر نہیں ہو سکتا،اس کے ذریعہ آپ ؐ نے بتادیا کہ شہرت ، عہدہ اور مالداری کی کوئی حیثیت نہیں ہے بلکہ بقویٰ اور للہیت اصل ہے ۔
(۳) اکرم الرجل مخافۃ شرہ(حوالہ: سابق) :’’آدمی کے شر سے بچنے کے لئے اس کی عزت کی جائے گی ‘‘ مطلب یہ ہے کہ شریر قسم کے لوگوں کی کثرت ہو جائے گی ،وہ اپنی شرارت کا بھر پور مظاہرہ کریں گے ، بڑے بڑے عہدوں اور کرسیوں پر اپنی طاقت اور شرارت سے قابض ہوجائیں گے ، ہر کام میں اس طرح پیش پیش ہوں گے جیسے وہ درد دل رکھنے والے ہیں ،علم وعمل سے کورے ہوں گے ، سنجیدگی ومتانت کا دور دور تک نام ونشان نہ ہوگا،ذہنوں میں واہ واہ کی فکر سوار ہوگی ، وہ اس آرزو کے ساتھ گھروں سے باہر نکلیں گے کہ لوگ ان کا احترام کریں اور ان کے گزرنے تک باادب کھڑے رہیں ،لوگ جب انہیں دیکھیں گے تو محض ان کے شر سے بچنے کے لئے ان کی عزت کریں گے اور ان سے سلام کلام کریں گے ،لوگ دل سے ان سے نفرت کریں گے ، وہ جانتے ہیں کہ اگر ان کی عزت نہ کی جائے تو یہ شرارت کا مظاہرہ کریں گے اور کمزور ولاچار اور شریف ومحترم لوگوں کو نقصان پہنچائیں گے ،اس لئے وہ دل سے نہیں بلکہ شر اور نقصان سے بچنے کے لئے ان کا احترام کریں گے ،شروفساد پھیلانے والے ،اپنی طاقت وقوت کا ناجائز استعمال کرنے والے اور جبراً احترام کروانے والے معاشرہ کے بدترین لوگ ہوں گے ،یہ نشانی ہے قیامت کی نشانیوں میں سے جس کا ذکر حدیث میں کیا گیا ہے ۔
(۴) وأطا ع الرجل امرأتہ وعق امہ(حوالہ: سابق) :’’آدمی اپنی بیوی کی فرماں برداری اور ماں کی نافرمانی کرے گا‘‘، مطلب یہ ہے کہ بیشتر موقع پر وہ اپنی ماں کے مقابلہ میں اپنی بیوی کی مرضی اور اس کی خواہش کو ترجیح دے گا ،وہ بیوی کے چہرہ شرارت میں ماں کی بھولی صورت بھول جائے گا ،بیوی کی اداؤں میں گم ہوکر ماں کی بے لوث محبت بھول جائے گا ،حالانکہ سر سے لے کر پیر تک ماں کا ہر ایک عضو گواہی دے رہا ہوگا اور اس کے ہاتھ لکیریں ،چہرہ کی جھریاں ،کانپتے ہاتھ ،لڑکھڑاتے قدم اور ڈبڈباتی آنکھیں زبان حال سے کہہ رہی ہوں گی کہ مجھے کچھ نہیں چاہیے بس اپنی تکان اتار نے کے لئے تیری ایک مسکراہٹ کافی ہے ،ماں باپ اللہ کے بعد اولاد کے سب سے بڑے محسن ہیں جن کے حقوق ہر چیز پر مقدم ہیں ،ان کی خوشی میں اللہ کی خوشی ،ان کی ناراضگی میں اللہ کی ناراضگی ہے ،ان کی خدمت باعث نجات اور نافرمانی وناراضگی دخول دوزخ کا ذریعہ ہے،اسلام میں ماں باپ ،بھائی بہن ،شوہر بیوی اور پڑوسی ورشتے دار سب کے حقوق الگ الگ ہیں ،مگر جو بیوی کو ماں پر ترجیح دیتے ہیں اور بیوی کو خوش کرنے کی خاطر ماں کے آنسوؤں کی پرواہ نہیں کرتے ،یہ مجرم قسم کے لوگ ہیں،جس وقت معاشرہ میں ایسے لوگوں کی کثرت ہوگی تو سمجھ لینا کہ قیامت قریب ہے ۔
(۵)وادنی صدیقہ واقصی أباہ(حوالہ:سابق): ’’دوستوں سے قربت اور باپ سے دوری ہوگی ‘، مطلب یہ ہے کہ قیامت کے قریب اولاد اپنے ماں باپ کو نظر انداز کرنے لگے گی ،وہ اجنبیوں سے دوستی کو پسند کریں گے ،دوستوں کو وقت دیں گے اور ان کے ساتھ کافی وقت گزاریں گے لیکن ماں باپ کو تنہائی کے سہارے چھوڑ دیں گے ،ان کے ساتھ بیٹھنا اٹھنا انہیں ناگوار گزرے گا اور ان کی خدمت تو درکنار مسکراہٹ کے ساتھ چند لمحات گزارنے سے بھی گریز کریں گے ، خصوصاً جب باپ بوڑھا ہوجاتا ہے ، زیادتی عمر کی وجہ سے کمزوری اس پر سوار ہوجاتی ہے ،ناتوانی کی وجہ سے اعضا ء جواب دیتے ہیں ،وہ کمانے کھلانے تو کیا چلنے پھرنے سے بھی قاصر ہوجاتا ہے ، وہ گھر کا ہوکر رہ جاتا ہے اور اپنی ضروریات کی تکمیل میں اولاد کا محتاج ہوجاتا ہے ،مگر وہ باپ ہونے کے زعم میں اور کبھی تجربات کی بنیاد پر جوان اولاد کو رو ک ٹوک کرتا ہے ،جب اولاد اس سے کنارہ کش ہو تی ہے تو انہیں اپنے قریب کرنے کی کوشش کرتا ہے ،انہیں بہانے بہانے بلاکر ان کے چہرہ سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرناچاہتا ہے تو اس وقت اولاد بھڑک اٹھتی ہے ،اس پر طنز کے تیر برساتی ،خود کو ان سے زیادہ سمجھدار بتاتی ہے اور مصروفیات کا بہانا بناکر ان سے دوری اختیار کرتی ہے تو اس موقع پر بوڑھے ،کمزور باپ پر جو گزرتی ہے اسے اس کا رب ہی بہتر جانتا ہے ، کسی نے سچ کہا ہے کہ باپ وہ عظیم ہستی ہے جس کے پسینہ کی ایک بوند کی قیمت بھی اولاد ادا نہیں کر سکتی ہے ،کہنے والے نے یہاں تک کہا ہے کہ اس عصا (چھڑی) سے بھی بدتر ہے وہ اولاد جو بڑھاپے میں باپ کا سہارا نہ بن سکے ،حضرت جبرئیل ؑ کی اس بد عا پر آپ ؐ سے آمین کہی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جس نے بوڑھے ماں باپ یا کسی ایک کو پائے اور ان کی خدمت کرکے جنت کا حقدار نہ بن سکے ،قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ آدمی دوستوں کو وقت دے گا اور ان کو ترجیح دے گا مگر باپ سے دور ہوکر اپنے کو ان کی شفقت وعنایت اور دعاؤں سے محروم کر دے گا ، آج کئی گھرانے اور کئی اولادیں اس بدبختی کا شکار ہیں ،افسوس تو یہ ہے کہ قیامت کی علامت کا ظہور ان سے ہونے لگا ہے۔
(۶)ولعن آخر ہذہ الامۃ أولھا(حوالہ: سابق):اور اس امت کے آخر میں آنے والے اپنے سے پہلے آنے والوں پر لعنت بھیجیں گے ‘‘،مطلب یہ ہے کہ موجودہ لوگ اپنے سے پہلے جاچکے لوگوں پر زبان درازی کریں گے ،انہیں ہدف ملامت بنائیں گے اور ان پر طعن وتشنیع کریں گے ،یہ اپنی قابلیت ،معمولی صلاحیت اور کچھ قد میں اضافہ ہوجانے پر آپے سے باہر ہوجائیں گے ، وہ خودی میں اس قدر گم ہو جائیں گے کہ انہیں کچھ دکھائی نہیں دے گا،بڑوں کی خدمات ،ان کے مجاہدات اور ان کی مسلسل محنتوں کو فراموش کرتے ہوئے خود کو ان سے برتر جتانے کی حماقت کریں گے ،بعض لوگ جہالت کی وجہ سے تو بعض علم کے دھوکے میں آکر تو بعضے بدگمانی کا شکار ہوکر ان کی شان میں گستاخیاں کریں گے ،حالانکہ سچ یہ ہے کہ وہ مانند سورج تھے ،ان کی مقبولیت آسمان کو چھو چکی تھی اور جھلملاتی کہکشائیں ان کی مقبولیت کی گواہی آج بھی دے رہی ہیں ،بعض لوگ دینی ،علمی اور عملی شخصیتوں پر کچھ نہ کچھ کہتے جاتے ہیں ،وہ دراصل اپنے ناقص ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں اور اپنے چھوٹے ہونے کی خود دلیل پیش کر رہے ہیں ،انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ زمانہ قرب قیامت کے زمانے سے بہتر تھا ،وہ خیر کا زمانہ تھا،ان لوگوں میں قابلیت تھی ،للہیت تھی ،عمل تھا ،اخلاص تھا، سکون تھا، قرار تھا اور بڑوں کا احترام تھا ،قیامت کے قریب لوگ چھوٹی زبانوں سے بڑی بڑی باتیں کرنے لگیں گے ،اپنے بزرگوں کی شان میں گستاخیاں کریں گے ،ان کی خدمات کو فراموش کردیں گے اور برائی سے ان کا تذکرہ کرکے اپنی محفلوں کو لعنت وملامت کا مستحق بنائیں گے ،یہ لوگ بھی بدترین ہوں گے اور ان کا زمانہ بھی بدترین زمانہ ہوگا۔
درحقیقت قیامت کی نشانیاں ہمارے لئے درس عبرت ونصیحت ہیں ،رسول اللہ ؐ نے قیامت کی علامتوں کو بتاکر امت کو آگاہ کیا ہے اور ان سے بچنے کی ترغیب دی ہے،کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ ان علامتوں میں سے کسی ایک کا ظہور ہمارے طرز عمل سے ظاہر ہونے لگے جس کے نتیجہ میں بد بختی ہم کو گھیر لے اور بد ترین لوگوں میں ہم شمار کئے جانے لگیں ،انفرادی اور اجتماعی دونوں طور پر ہم کو اس کی فکر کرنی چاہیے۔