نئی دہلی، 30 اگست(عصر حاضر) آج5 ممبر بنچ کے سامنے رام جنم بھومی پنر ودھیار سمیتی کی جانب سے سینیئر ایڈوکیٹ پی این مشرا کے اپنی بحث مکمل کی۔ ان سے بنچ نے دریافت کیا کہ کیا بادشاہ کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ مسجد کے لئے کسی زمین کو وقف کرسکے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے مشرا صاحب نے سورہ انفال کے ایک آیت کا ترجمہ پیش کیا اور کہا کہ کسی مقام کو فتح کرنے کے بعد وہان کے مال غنیمت میں حکمران(بادشاہ) کا حصہ1/5 ہی ہوتا ہے۔ بادشاہ پوری زمین کا مالک نہیں ہوتا لہذا کسی بھی زمین کو وقف کرنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ چونکہ بادشاہ وقت مسلمان تھے اس لئے اس وقت ہندو لا کے اعتبار سے فیصلے نہیں ہوتے تھے۔ اس وقت دستور ہند ہے اس لئے فیصلہ مسلم لا کی بنیاد پر نہیں ہوگا۔
اس کے بعد ہندو مہاسبھا کی جانب سے ایڈوکیٹ ہری کشن نے بحث کی۔ انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ یہ صرف ہندو وں کی شاستروں کی بنیاد پر طے ہونا چاہئے۔ یہ عجیب بات ہے کہ بیرونی حملہ آوروں کو وہاں عبادت کا حق ہہ اور اس ملک کی رہنے والوں کو پوجا کی اجازت نہ ہو۔
اس کے بعد شیعہ وقف بورڈ کی جانب سے ایڈوکیٹ ڈھنگرا نے بحث کی اور کہا کہ زمین شیعہ وقف بورڈ کی ہے لہذا اس پر سنیوں کا مالکانہ حق پانے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ ہم اپنی زمین ہندووں کے حوالے کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہاں رام مندر کی تعمیر ہو سکے۔
آج عدالت میں مسلم فریقوں( مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیت علما ہند ) کے مشترکہ وکیل سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون کے علاوہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے وکلاسینئر ایڈوکیٹ میناکشی اروڑا، ایڈوکیٹ ظفر یاب جیلانی (سیکریٹری مسلم پرسنل لا بورڈ ) موجود تھے۔ ان کے علاوہ عدالت میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے دیگر وکلاایڈوکیٹ آن رکارڈ، شکیل احمد سید، ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد، ایڈوکیٹ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ ارشاد احمد، ایڈوکیٹ فضیل احمد ایوبی موجود تھے۔ جونئیر وکلا میں ایڈوکیٹ آکریتی چوبے، ایڈوکیٹ قرۃ العین، ایڈوکیٹ پرویز دباز، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ عظمی جمیل، ایڈوکیٹ دانش احمد سید، ایڈوکیٹ سارہ حق اور ایڈوکیٹ ادتیا سماوار بھی موجود تھے۔