اسلامیات
یہ مشکل ضرور ہے، ناممکن نہیں!
انسان وہی ہے جو اپنی خانہ بدوش طبیعت سے باہر نکل کر اپنی حیثیت کے لیے کوئی مستقل ٹھکانہ بنالے۔ اور اس کی تیاری کی خاطر اپنے آپ کو نکھارنے اور سنوارنے کی کوشش کرتا رہے۔ اور یقینا انسان یہ عمل کرتا بھی رہتا ہے اپنی پیدائش سے لے کر زندگی کے ختم ہو جانے تک اس کے معیارات اور ترجیحات تبدیل ہوتے رہتے ہیں وہ مسلسل اپنی صلاحیتوں کو جِلا دینے میں لگا رہتا ہے۔ لیکن اس تگ و دو میں جو سب سے اہم کام اس کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے وہ یہ کہ ظاہری صلاحیتوں کی نشونما میں وہ اپنے باطن کی نشونما کو بھول جاتا ہے۔ انسان ظاہر کو سنوارنے کی خاطر لاکھوں جتن کرتا ہے لیکن باطن کی اصلاح کے لیے ایک چھوٹا سا قدم بھی نہیں اٹھاتا، کبھی اپنے احوال کمیوں کوتاہیوں پر نظر نہیں کرتا۔
تبدیلی آسکتی ہے یا نہیں؟
غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ انسان کے ایسا کرنے کے پیچھے کچھ اہم وجوہات ہوتی ہیں جن کی وجہ سے انسان کا ذہن ہی کبھی اس طرف نہیں جاتا کہ اسے اپنے اندرون اخلاق و کردار کی بھی مرمت کرنی چاہیے۔ گر چاہتا بھی ہے تو آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کرپاتا کیونکہ وہ سوچتا ہے کہ یہ اخلاق و کردار تو قدرت کی طرف سے عطا کیے گیے ہیں ان میں ترمیم کیسے کی جاسکتی ہے؟
لیکن اس بات کا صحیح جواب یہ ہے کہ ہر انسان فطرتا سلیم الطبع، موحد ہی پیدا ہوتا ہے لیکن پھر اس کے والدین، اس کا ماحول اور دیگر عوامل اسے مختلف حصوں میں تقسیم کردیتے ہیں اور اس کی شخصیت کو خلط ملط کردیتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما من مولودٍ إلايولَدُ على الفَطرَةِ، فأبواه يُهَوِّدانِه أو يُنَصِّرانِه أو يُمَجِّسانِه
ترجمہ: ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے والدین اُسے یہودی یا عیسائی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ (صحيح البخاری: 1358 صحيح مسلم: 2658)
اس حدیث میں اس بات کی دلیل پائی جاتی ہے کہ انسانی فطرت میں تبدیلی کی قابلیت موجود ہے۔ تب ہی تو اللہ تعالی نے فرمایا:
قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا ﴿٩﴾ وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا
ترجمہ: "یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا (9) اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا“۔(سورہ الشمس 9-10)
اور نفس کا تز کیہ ہی در اصل ادب ہے جس کے حصول کی کوشش کرنا ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔ انبیاء و رسل کی تاریخ گواہ ہے کہ جو لوگ بھی اُن پر ایمان لائے انھوں نے اپنے ایمان سے پہلے کے عادات و اطوار میں تبدیلی لائی اور اسلامی آداب و اخلاق کو اپنایا لہذا جو شخص بھی اللہ سے مدد طلب کرتے ہوئے ادب و اخلاق کے حصول کے لیے اپنے نفس کو آمادہ کرتا ہے وہ بلا شبہ ادب کی دولت سے مالا مال ہوگا اور اس کے اخلاق و کردار میں تبدیلی ضرور آئے گی۔ اگر اخلاق و کردار میں تبدیلی ممکن نہ ہوتی تو انبیاء و رسل کو بھیجنا اور ان پر کتابیں اور شریعتیں اتارنا سب کچھ شاید لاحاصل تھا۔
یہ بات کتاب و سنت سے بھی ثابت شدہ ہے اس کے علاوہ ایک اور اہم بات کہ انسان دوسروں کے ساتھ جس اخلاق سے پیش آتا ہے وہ اخلاق دراصل اس کے اندرونی ایمان و عقیدہ کا نتیجہ ہوتے ہیں کیونکہ اچھے اخلاق اعمال کا ایک اہم حصہ ہیں:
أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً۔ (ابوداود 4682)
اہل ایمان میں سب سے کامل وہ شخص ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔
جس کی تائید حدیث رسول بھی کررہی ہے تو ہمیں لازما اور عاجلا کسی بھی عمل سے پہلے اپنے اخلاق و کردار کی اصلاح کے لیے کوشش شروع کردینی چاہیے۔
انسان کو چاہیے کہ مشکل ترین حوصلہ شکن حالات میں بھی وہ اپنی اصلاح سے مایوس نہ ہو۔ گر اسے اپنی خامیاں اور غلطیاں نظر آرہی ہیں اور اسے بخوبی اس کا ادراک بھی ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا شعور ابھی بھی زندہ ہے اس کا ایمان ابھی بھی اس کے نفس لوامہ میں سانسیں لے رہا ہے تو ایسے میں غمگین ہو کر ڈھے جانے کا وقت نہیں، بلکہ دکھوں اور نا امیدی سے نکل کر بغیر وقت گنوائے اپنی اصلاح شروع کرنے کاوقت ہے۔
انسان اشرف المخلوقات ہے اسے اپنے مزاج اور اخلاق میں تبدیلی لانا کوئی پہاڑ سر کرنے جیسا معاملہ نہیں۔ اگر مختلف النوع حیوانات دوسرے مختلف حیوانات کے ساتھ ان کی پرورش و تربیت میں ڈھل کر ان جیسے بن سکتے ہیں تو انسان کیوں نہیں۔
بکری کے باڑے میں پلنے والا شیر کا بچہ بکریوں جیسے چال چلن اپنا لیتا ہے جبکہ اس کی فطرت وحشی درندوں کی ہوتی ہے تو سوچنے کا مقام یہ ہے کہ اگر جانور ٹریننگ اور تربیت سے اپنی فطرت سے تبدیل ہوسکتے ہیں تو پھر انسان کیوں نہیں؟
دنیا کے تمام مذاہب کا اخلاق کے تعلق سے ایک ہی پیغام عام رہا ہے۔ اگر باطل ادیان نے بھی اچھے اخلاق کی تعلیم دی ہےتو اسلام تو سب سے اعلی و اولی دین ہے۔ اس لیے اخلاق کو سنوارنا نکھارنا، رذائل اور عادات قبیحہ کو دور کرنا اگر ناقابل عمل اور بے نتیجہ ہوتا تو اس کا حکم ہرگز نہ دیا جاتا کیونکہ شریعت اللہ کی اجازت سے نازل کردہ ہے لہذا اس کا کوئی حکم عبث نہیں ہوسکتا۔
جیسے اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں:
إِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ، وَإِنَّمَا الْحِلْمُ بِالتَّحَلُّمِ، مَنْ يَتَحَرَّى الْخَيْرَ يُعْطَهُ، وَمَنْ يَتَّقِ الشَّرَّ يُوقَهُ، وحسنه الألباني في سلسلة الأحاديث الصحيحة تحت رقم (342)
اسی طرح اللہ کے نبی کی یہ دعا
وَاھْدِنِیْ لِاَحْسَنِ الْاَخْلَاقِ لَایھْدِیْ لِاَحْسَنِھَا اِلَّا اَنْتَ وَاصْرِفْ عَنِّیْ سَیّئَھَا لَایصْرِفُ عَنِّیْ سَیّئَھَا اِلَّا اَنْتَ
بہترین اخلاق کی طرف میری رہنمائی کر کیونکہ تیرے سوا اور کوئی بہترین اخلاق کی طرف رہنمائی نہیں کر سکتا اور برے اخلاق کو مجھ سے دور کر دے کیونکہ بجز تیرے اور کوئی بد اخلاقی سے مجھے نہیں بچا سکتا۔
(مسلم کتاب :6 باب 262،حدیث )
اخلاقی تبدیلیاں کیوں؟
دنیا کی تمام ذمہ داریوں سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ انسان اپنے اخلاق و کردار کی اصلاح کرلے کیونکہ اس کے عادات و اطوار پر ہی اس کی دنیا اور آخرت منحصر ہے۔ وہ جس قدر حساس، متواضع، ملنسار، نرم خو ہوگا اس دنیا میں وہ لوگوں کے درمیان ان کے دلوں میں بڑی آسانی سے اپنی جگہ بناتا چلا جائےگا اور یہ ظاہری بات ہے کہ جب اس کے تعلقات لوگوں سے خوشگوار ہوں گے تو اسے دنیا میں بھی فائدہ حاصل ہوگا اور اخروی زندگی میں بھی ملے گا۔
ابتدا کہاں سے ہو؟
جہاں بات ہورہی ہے اخلاق و کردار کو سنوارنے کی تو پھر فوری طور پر یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ اتنے مشکل کام کی ابتدا کہاں سے ہو؟ کون کون سے کام کیے جائیں کیسے کیے جائیں اور کب کیے جائیں۔ کیا حکمت عملی اپنائی جائے جس سے یہ مقصد حاصل ہوسکے۔
سب سے پہلے انسان اپنا کردار متعین کرے کہ جن لوگوں کے ساتھ وہ اٹھتا بیٹھتا ہے ان کے تئیں وہ اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہوجائے کہ اس کے آس پاس بکھرے رشتوں میں اس کی ضرورت، وسعت اور حدود کہاں سے کہاں تک ہیں؟ اسے کس طرح اپنی ذمہ داری محبت اور لگن کے ساتھ نبھانی ہے تاکہ رشتوں کے معاملے میں اسے زندگی کی غیر ضروری الجھنوں سے بھی راحت حاصل ہو۔
انسان کی بد اخلاقیوں کی ایک بہت بڑی وجہ اس کی اپنی وہ کمیاں اور کوتاہیاں ہوتی ہیں جنھیں وہ اپنوں کے لیے پوری طرح انجام نہیں دے پاتا۔ لہذا پہلے اپنے رول لکھیں پھر اپنے گول لکھیں۔ اور جب تک آپ اپنی ذمہ داریوں کو بہتر طریقے سے انجام نہیں دیں گے اس وقت تک آپ کے اندر کڑھن، چبھن اور تکلیف موجود رہے گی جو آپ کو اپنی ذات پر کام کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
دوسروں کی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے انسان اب اپنے آپ پر کام کرنا شروع کردے۔ شخصیت کو بیلنس کرنے اور اخلاق میں بہتر تبدیلی لانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان ان چار چیزوں میں توازن رکھنا سیکھ لے اور حسب ضرورت ان کی تربیت بھی کرے: جسم، عقل، روح، جذبات
(۱)جسمانی تربیت:
کہا جاتا ہے کہ انسان جو کھاتا ہے وہی بن جاتا ہے لہذا ضروری ہے کہ انسان اپنی شخصیت میں توازن کی خاطر اپنی کھانے پینے کی عادات میں سب سے پہلے سدھار لائے تاکہ اس کا جسم فاضل، فاسد اور مضر مادوں سے محفوظ رہ سکے اور اس کی طبیعت میں تیزی و ترشی نہ آنے پائے۔
کم کھانے سے آدمی کے دل میں رقت و نرمی منکسر المزاجی پیدا ہوتی ہے اور نفسانی خواہشات اور غصہ میں بھی کمی واقع ہوتی ہے جب کہ شکم سیری انسان کے اندر بے شمار برائیاں پیدا کرتی ہے اس کے نتیجے میں آدمی کے اندر معاصی کی طرف رغبت اور خواہش پیدا ہوتی ہے۔
لہذا حاصل کلام یہ ہے کہ جو اپنے پیٹ کے شر و برائی سے نجات پاگیا وہ ایک بڑے شر سے نجات پاگیا۔ یہاں ابراھیم بن ادھم ؒ کا قول قابل ذکر ہے جسے اپنے پیٹ پر قابو حاصل ہوگیا اسے اپنے دین پر قابو حاصل ہوگیا اور جس نے اپنی بھوک پر غلبہ پالیا اسے اخلاق عالی حاصل ہوگیے کیونکہ”بھوکے آدمی سے اللہ کی معصیت دور اور شکم سیر سے قریب رہتی ہے”۔ جسمانی خیال رکھنے سے مراد یہ ہے کہ انسان زیادہ سونے اور زیادہ کھانے سے پر ہیز کرے۔ کیونکہ ہر چیز کی زیادتی مضر ہوتی ہے ایک توانا جسم اللہ کی دی گئی سب سے بڑی نعمت ہے۔ "لنفسک علیک حقا” کے تحت انسان اپنے جسم کی صفائی ستھرائی کا بھی خوب خیال رکھے یہ سنت رسول ہے کہ مومن پاکیزگی کے اعلی معیار پر قائم رہے۔ جسم کو ہر طرح کی آلودگی سے بچاکر رکھا جائے خواہ وہ آلودگی حرام خوری کی ہو یا پھر نشہ خوری کی۔
جو انسان خود کو اور اپنی زندگی کو بہتر بنانا چاہتا ہو لازم ہے کہ وہ اپنے جسم کا خیال رکھنے والا ہو کیونکہ اس کے معاملات اور تعلقات کا سیدھا تعلق اس کی طبیعت اور مزاج سے ہے اور ان کا تعلق اس کی خوراک اور روز مرہ کے مشغلے سے ہے۔ ہلکی پھلکی غذا لے اور اور متحرک زندگی جیے تاکہ زندگی کو بوجھل بنانے کی بجائے ہلکی کرسکے۔
(۲)عقلی تربیت:
اخلاقی اصلاح کی خاطر یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنی عقلی نشونما پر دھیان دے۔ جیسے وہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہو لیکن وہ پڑھتا رہے سیکھتا رہے علم حاصل کرتا رہے۔ اور اس کا سب سے موثر ذریعہ ہے مطالعہ اور کتب بینی۔
مطالعہ کے جہاں ان گنت فوائد ہیں ان میں ہمارے لیے سب سے قابل ذکر فائدہ یہ ہے کہ مطالعہ ذہنی تناؤ دور کرتا ہے۔
2009 میں برطانیہ کی یونیورسٹی آف سسیکس میں کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مطالعے کی عادت ذہنی تناؤ اور پریشانی کو 68 فیصد کم کرتی ہے۔ ڈاکٹر کے مطابق مطالعہ انسان کو پریشانیوں اور فکروں سے آزاد کراتا ہے۔ اس کے علاوہ شعور اور سوچ کو بھی تبدیل کرنے میں مدد دیتا ہے۔ تو اس سے ثابت یہ ہوا کہ انسان جب تناو سے آزاد ہوگا تو اس کا رویہ ہر کسی سے خوشگوار ہوگا اور اسے دوسروں کو سمجھنے کا موقع بھی فراہم ہوگا کیونکہ یہ بات بھی تحقیق شدہ ہے کہ کتب بینی ذہنی انحطاط کو روکتی ہے۔ مطالعہ کے عادی افراد سماج میں بہترین تعامل پیش کرتے ہیں اور اپنے نظریات، عقائد، خواہشات اور سوچ کو بہتر انداز میں دوسروں کو سمجھا سکتے ہیں۔
لہذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ اپنی عقلی پرورش کرتے وقت سب سے پہلے دنیا کی عظیم اور موٹیویشنل کتاب پڑھی جائے جو بلا شک و شبہ قرآن کریم کے علاوہ کوئی اور کتاب ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ کتاب صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرنے والی، دکھی دلوں کا سہارا اور ڈھارس بندھانے والی کتاب ہے اور حرف بحرف اس میں سچے وعدے اور خوش خبریاں ہیں جو ہر طرف سے مایوس انسان کے لیے صحرا میں بادل کی نوید کا کام کرتے ہیں۔ انسان کو مایوسی کے گھیرے سے باہر نکال کر لاتے ہیں اور ایک عام سے انسان کو رحمن کا بندہ بناتے ہیں۔
اس کے علاوہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے شوق اور ضرورت میں فرق ملحوظ رکھے بلاوجہ خود پر خواہشات کا بوجھ لے کر نہ پھرے ورنہ خواہشات کی عدم تکمیل اسے اور بد مزاج اور چڑچڑا بنانے والی ہوسکتی ہے۔ مثبت سوچ کے ساتھ مثبت لوگوں کے درمیان اپنے وجود کی پہچان بنائے رکھے۔
اسی طرح انسان عمدہ اخلاق کے فضائل اور اس کے فوائد پر اپنی نظریں گاڑ کر رکھے تاکہ وہ ان کا حریص بن جائے اور ہر قیمت پر انھیں اپنانے کا متمنی بن جائے اور بد اخلاقی کے انجام یعنی بدنامی رسوائی اور حقارت بھرے رویوں کو نگاہ میں بطور عبرت رکھے تاکہ وہ بد اخلاقی سے بچ سکے۔
پختہ عزم اور مضبوط ارادے کے ذریعے اپنی زندگی میں بہتر تبدیلی یقینی طور پر لائی جاسکتی ہے۔
(۳)روحانی تربیت:
اخلاق میں سدھار اور تبدیلی لانے کی لیے یہ امر سب سے ضروری ہے کہ انسان اپنی روحانی تربیت کے ذریعے اپنی اخلاقی کمیوں کو پُر کرے۔ جس کے واسطے یہ لازم ہے کہ انسان کا اپنے خالق سے رابطہ مضبوط ہو نماز کے ذریعے، اذکار و نوافل کے ذریعے۔ انسان اگر کوئی کمی اپنے اندرون میں پاتا ہے تو اس کا تدارک کرنے کی خاطر اپنی نمازوں کو بڑھادے، انھیں خشوع و خضوع سے مزین کرے کیونکہ بے روح سجدے گر صدیوں بھی قائم رکھے جائیں تو کوئی انقلاب نہیں لاسکتے نہ ہی انسان کو ان سجدوں سے خیر و برکات حاصل ہوپاتی ہیں۔ اور ایسے سجدوں کے اثرات انسانی زندگی پر اپنی کوئی چھاپ نہیں چھوڑ پاتے ہیں۔ لہذا جو حقیقی فلاح کا متمنی ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنی روحانی تبدیلی پر خاصا اہتمام کرے کیونکہ یہی اصل اخلاقی تبدیلی ہے۔
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ (سورة مومنون)
کامیاب ہوگیے وہ ایمان والے جو اپنی نمازوں میں خشوع قائم کرتے ہیں۔
اخلاق کی تبدیلی کے لیے چاہیے کہ بندہ اپنی عبادات میں خشوع و خضوع پیدا کرے کیونکہ ایک اچھی نماز کے بغیر روحانی مضبوطی اور رحمانی تعلق کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔
ایک بہترین نماز ایک مثالی مومن تیار کرتی ہے اور مثالی مومن کے متعلق اللہ کے رسول فرماتے ہیں:
حضرت ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’ مومن نہ تو طعنہ دینے والا ہوتا ہے، نہ لعنت کرنے والا، نہ فحش گو اور نہ زبان دراز۔‘‘ (جامع ترمذی1977)
بداخلاقی کی سب سے بڑی مثال گالی گلوچ اور جھگڑا ہیں۔ ایک اعلی اوصاف کا مومن ان تما م برائیوں کے محاذ پر نماز کو ڈھال بناکر چلتا ہے۔ کیونکہ نماز تمام طرح کی بے حیائیوں سے روکتی ہے ایک ایسی نماز جو خشوع و خضوع کے ساتھ احسان کی صورت ادا کی گئی ہو۔ ساتھ ہی توبہ و استغفار کو لازم پکڑے اور اپنے اس عمل پر استقامت رکھے۔ اذکار و تلاوت کا بھی اہتمام کرے۔
ان شاءاللہ اس کی محنت شاقہ کا نتیجہ اللہ عزوجل ضرور دے گا کیونہ یہ اس کا وعدہ ہے کہ:
فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ؕ﴿۷ الزلزال)
جس نے ذرہ برابر کوئی اچھائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا۔
لہذا جو اپنے اندر اعلی اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کرے گا اللہ تعالی اسے کبھی نامراد نہیں کرے گا۔ جس شخص کو اچھے اخلاق پر اللہ سے اجروثواب کی امید ہوگی وہ یقینی طور پر اچھے اخلاق کو اپنائے گا اس پر قائم ہوگا اور دوسروں کی رہنمائی بھی کرے گا۔
اور حسن اخلاق سے متعلق آیات و احادیث کثرت سے پڑھنے اور دل میں بٹھانے سے یہ مقصد ضرور پورا ہوگا ان شاءاللہ
(۴) جذباتی تربیت:
اعزہ و اقارب کے ساتھ ملنا جلنا اور بیٹھنا، تحفے تحائف کا تبادلہ اور خوشگوار ملاقاتیں کرنا اچھے اخلاق سے پیش آنا پرانی باتوں کے حوالے سے دلوں میں وسعت پیدا کرنا، یہ سب کچھ انسانی طبیعت پر انتہائی حیرت ا نگیز نتائج چھوڑتے ہیں، طبیعت میں تروتازگی آتی ہے، آپس میں جذبہ انس و رحم پیدا ہوتا ہے اور اپنوں کے بیچ بیٹھنے سے انسان کو ایموشنل سطح پر بہت ہی مضبوطی حاصل ہوتی ہے، آپسی کدورت صاف ہوتی ہے اور انسان بیرونی دنیا کی ہزاروں پریشانیوں سے نجات پاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے اخلاق میں عمدگی اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جس کی خوشی اور اس کے واضح اثرات انسان کے چہرے اور لہجے سے محسوس کی جاسکتی ہے۔
اپنے اخلاق میں رقت اور نرمی پیدا کرنے کی خاطر انسان کو چاہیے کہ وہ غرباء، مساکین اور سماج کے دبے کچلے لوگوں سے بھی سلام دعا کرتا رہے، انھیں تحائف دیتا رہ، یتیموں کے سر پر دست شفقت رکھے ان کا مربی بنے۔
یہ کچھ ایسے کام ہیں جن پر آپ یقین رکھ کر پڑھیں۔
ان امور کو انجام دینے سے بے انتہا سکون حاصل ہوتا ہے، دل کی سختی کم ہوتی ہے اور دل و دماغ اور جذبات میں تواضع اور انکسار پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے انسان کی درشتی اور کھردرا پن جیسی عادتیں ختم ہوتی ہیں۔ اپنے سے کمتر لوگوں سے تواضع کے ساتھ ملنا اور خود سے بڑے لوگوں کے ساتھ توقعات کے بغیر ملنا یہ یقینا عظیم لوگوں کا کام ہے۔ اور آپ کو وہ عظیم انسان بننا ہے۔
یہ سب کچھ کرنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ آپ بلند ہمت ہیں یہ تحریر آپ ہی کے نام ہے اور جو بلند ہمت ہوتے ہیں وہ ہمیشہ بلندیوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور کم ہمت لوگ پستی پر راضی رہتے ہیں۔ ایک بلند ہمت انسان اپنی ہمت کے بل بوتے اخلاق کی اعلی سطح پر پہنچنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اسے اس دنیا میں باعزت زندگی نصیب ہو اور موت کے بعد اس کا ذکر جمیل اور خوشنما یادیں لوگوں میں قائم رہیں اور اس دنیا کے بعد کی اخروی زندگی میں جنت کی نعمتیں اللہ کی رضا اور اس کے رخ مبارک کا دیدار اس کو حاصل ہوں۔تو آئیے ہم سب اپنے اخلاق کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔