حیدرآباد و اطراف

نوجوان لڑکے لڑکیاں شادی کو عشق اور حسن کی عینک سے دیکھنا چھوڑ دیں‘ مسلم لڑکیوں کے دھرم پری ورتن کے لیے این جی اوز کی فتنہ انگیزیاں عروج پر

حیدرآباد: 8/نومبر (عصرحاضر)ہم نے کبھی ادیانِ باطلہ کا تقابل ہی نہیں کیا، کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم اسلامی تاریخ کو پڑھتے اور دیگر مذاہب کا مطالعہ کرتے تو ہمیں یہ بات سمجھ میں آجاتی کہ کتنا اچھا اور سچا ہمارا مذہب ہے۔ اس وقت اپنی تاریخ کے ساتھ تقابلی مطالعے کی اشد ضرورت ہے،ہمیں سمجھنا چاہیے کہ شری رام چندر جی خدا تھے تو پھر ان سے پہلے کون خدا تھا جو اس کائنات کے نظام کو چلا رہا تھا۔ شخصیت سے متأثر ہوکر اس کو خدا بنادینا انسانیت کو زیب نہیں دیتا۔ یہ انسانیت کے لیے مثال ہوسکتے ہیں لیکن انسانیت کے لیے خدا نہیں ہوسکتے۔ اسی لیے اللہ تعالی نے نبیوں کے سلسلے کو انسانوں میں سے ہی چلایا اور ان کو رول ماڈل بناکر امت کی رہنمائی کا کام لیا۔ اگر شری رام چندر جی خدا تھے تو پھر ان کی جنم بھومی کیسے آگئی کہ یہ جائے پیدائش ہے یہ فلاں ہے یہ فلاں ہے۔ اگر مسلمان ان سب چیزوں کو پہلے ہی سے معلوم کرلیں تو پھر کسی کی جال میں پھنس کر اپنے ایمان کا سودا نہیں کرے گابلکہ ڈٹ کر باطل کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ بے حجابی، بے حیائی کو خواتین کبھی پسند نہیں کریں گی۔ حجاب نسوانی زیور ہے اس کو کسی حالت میں ترک نہیں کیا جاسکتا۔ان خیالات کا اظہار عالمِ اسلام کی ممتاز شخصیت حضرت مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی ندوی دامت برکاتہم نے تنظیم نسواں کل ہند تعمیرِ ملت کے 73ویں جلسہ رحمۃ للعالمینؐ برائے خواتین سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ میٹرو کلاسک گارڈن آرام گھر چوراہے پر منعقدہ اس عظیم الشان جلسہئ عام سے خطاب کرتے ہوئے مولانا نے فرمایا کہ موجودہ پُر فتن حالات میں مسلم ماؤں بہنوں کو سختی کے ساتھ صرف حجاب ہی نہیں بلکہ مکمل طور پر اسلامی احکامات پر کاربند ہونے کی ضرورت ہے۔ آج پوری دنیا میں بے حجابی اور بے حیائی کو جم کر فروغ دیا جارہا ہے ایسے میں خواتینِ امت کی دوگنی ذمہ داری بنتی ہے کہ حجاب و حیا کو اپنا زیور سمجھ کر نہ صرف اختیار کریں بلکہ اس کی ترویج و اشاعت میں بھی بھر پور کردار ادا کریں۔ مولانا محترم نے فرمایا کہ ہم اسلام کو By Chance(مجبوری میں) ہر گز نہ اپنائیں بلکہ ہم By Choice(اپنی پسند) سے اپنائیں۔ مولانا نے فرمایا کہ موجودہ دور بڑے فتنوں کا دور ہے، اس وقت ان فتنوں کے درمیان ہم کو ان کرداروں کو ادا کرنا جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اور آپ کے اصحاب اور ان کی بیویوں نے ادا کیاتھا۔ اس وقت ملک بھر میں بڑی بڑی تنظیمیں اور این جی اوز کی جانب سے غیر مسلم لڑکوں کو تربیت دی جارہی ہے کہ کس طرح مسلمان لڑکیوں سے محبت کا ڈھونگ کرکے انہیں اپنے جال میں پھنسایا جائے۔ دو ماہی سہ ماہی کورس کی طرح ان کو بھی کئی کئی ہفتوں بلکہ مہینوں تک ٹریننگ دی جارہی ہے اور مسلم دشمنی کو گھول کر پلایا جارہا ہے۔ اس طرح کی ذہن سازی کے بعد غیر مسلم لڑکے مسلم لڑکیوں کے ساتھ محبت کا ناٹک کرکے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے انہیں پارکوں اور ہوٹلوں میں بلاکر رفتہ رفتہ ان کا اعتماد حاصل کررہے ہیں اور ان سے اپنی قربتیں بڑھانے اور ان کے جنسی استحصال کے بعدان کے سامنے اپنی شناخت ظاہر کررہے ہیں جس کے بعد یہ لڑکیاں اپنا مذہب تک تبدیل کرکے ان کے ساتھ شادی کرنے پر مجبور ہورہی ہیں۔ ایک مسلمان لڑکی کو یہ ہر گز زیب نہیں دیتا کہ وہ اوروں کی چوکھٹ پر جاکر اپنے ایمان کا سودا کرے اور اپنے خاندان اور سوسائٹی کو رسوا کرے۔ مولانا کہا کہ ایک لڑکا ایک لڑکی شادی کو صرف عشق اور حسن کی عینک سے دیکھتے ہیں اور اسی نشہ میں گرفتار ہوکر اپنی شادیاں کررہے ہیں اور جب حقائق کا پتہ چل رہا ہے تو پھر بہت جلد طلاق و خلع کی نوبت آرہی ہے حالانکہ شادی کوئی تماشہ یا کھیل نہیں بلکہ ایک عظیم ذمہ داری ہے ایک بڑا چیلنج ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مولانا نے ملیشیاء کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں پر ایک شخص نے نکاح تربیتی کورس کا سلسلہ شروع کیا تھا جو نکاح سے پہلے ہی لڑکے لڑکیوں کی تربیت سے متعلق تھا،بہت کامیابی کے ساتھاس کا سلسلہ چلنے لگایہاں تک کہ لوگ رشتہ کرنے سے پہلے یہ دریافت کرنے لگے کہ لڑکی یا لڑکے نے یہ کورس کیا ہے یا نہیں؟ اس کورس کی کامیابی کی واضح دلیل یہ تھی کہ اس کو حکومت نے مسلمہ حیثیت دے کر شادیوں کے لیے لازمی قرار دے دیا، جس کے بعد ملک میں ازدواجی زندگی میں ناکامیوں کے واقعات اور طلاق و خلع کی شرح میں نمایاں کمی پیدا ہوگئی۔ کاش کہ ہمارے پاس بھی اس طرح کا کوئی نظام ہوتا جس سے معاشرتی زندگی عمدہ اخلاقی قدروں کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ چل سکے۔ مولانا نے کہا کہ میں شہر حیدرآباد متعدد مرتبہ آچکا ہوں اور زمانہئ دراز سے اس شہر سے تعلق رہا ہے مجھے یہاں کی شادیوں کی شاہ خرچیاں اچھی طرح معلوم ہے کہ شادیوں میں اسراف اور غیر شرعی رسومات نے یہاں کے معاشرے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، شادیو ں میں بے پردگی بے حیائی عروج پر ہوتی ہے، مردوں اور عورتوں کا اختلاط تو عام بات بن گئی ہے ایسے میں بتائیے زندگی میں کہاں سے خیر وبرکت آئے گی۔ ہمیں اپنی شادیوں کو انتہائی سادگی کے ساتھ انجام دینے کی سخت ضرورت ہے۔ مولانا محترم نے اپنے خطاب کے دوران صحابیات کے کئی ایک واقعات کو پیش کیا حضرت سمیہ ؓ کا دل چیرنے والے واقعہ کے ذریعہ خواتین کو ترغیب دی کہ آج یہ قربانیاں دینے کا موقع نہیں ہے جس طرح کہ ان امت کی عظیم ماؤں نے دیا تھا۔ مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی صاحب مدظلہ نے اس وقت مختلف عارضوں کا شکار ہے اور شدید علالت کے باوجود بھی انہوں نے تفصیلی خطاب فرمایا اور اپنی نجی زندگی اور تعلیمی دور کے واقعات بھی سناکر خواتین کو اشکبار کردیا۔ تنظیم نسواں کل ہند مجلس تعمیر ملت کی جانب سے منعقدہ اس جلسہ رحمۃ للعالمین میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے شرکت کی اور جلسہ کو کامیاب بنایا۔ اس موقع پر صدر کل ہند تعمیر ملت جناب ضیاء الدین نیر صاحب، ایم ایس اکیڈمی کے چیئرمین عبداللطیف خان صاحب، مولانا محمد بن عبدالرحیم بانعیم صاحب نائب ناظم مجلس علمیہ تلنگانہ و آندھرا کے علاوہ تعمیر ملت کے ذمہ داران و اراکین اور متعدد معزز عمائدین و دانشوران بھی شریکِ اجلاس رہے۔ مولانا ہی رقت انگیز دعاء پر جلسہ کا اختتام عمل میں آیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×