آئینۂ دکن

نئے سال کا جشن اغیار کی نقالی ہے، مسلمانوں کے لیے بہترین نمونہ رسول رحمتﷺ ہیں: مولانا غیاث احمد رشادی

حیدرآباد: 27؍دسمبر (پریس نوٹ) ہر نیا سال صرف کیلنڈر کی ورق گردانی کا یا ہندسوں کی تبدیلی کا نام نہیں ہے‘ بلکہ کتاب زندگی کا ایک اور ورق الٹ جاتا ہے جب نیا سال شروع ہوتا ہے ‘دیوار حیات کی ایک اور اینٹ گرجاتی ہے جب این نیا کیلنڈر ہماری دیواروں پر لٹکا ہے ، ہماری زندگی کے قیمتی سالوں میں سے ایک اور سال کم ہوجاتا ہے‘ عمر کا ایک حصہ ختم ہوجاتا ہےان سب کے باوجود نادان مسلمان دیگر اقوام کی روایت پر عمل کرتے ہوئے نئے سال کی آمد پر جشن مناتے ہیں‘ خوشی کا موقع سمجھتے ہیں ‘ کیک کاٹنے اور اس کو چہروں پر ملنے کا عجیب کھیل کھیلتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ رنگین دنیا کا یہ بھی ایک بے سود شوق ہو لیکن یہ اسلامی تعلیمات کے سراسر مغائر اور اغیار کی مشابہت ہےجس کو رسول اللهﷺ نے سختی سے منع فرمایا ہے ہم مسلمانوں کے پاس زندگی کا وہ بہترین نمونہ ہے جس کو سیرت رسول کہا جاتا ہے آخر ہم کیوں دوسروں کی مزہبی روایتوں کے تابع ہوجاتے ہیں؟ان خیالات کا اظہار مولانا غیاث احمد رشادی بانی و مینیجنگ ٹرسٹی منبر و محراب فاؤنڈیشن انڈیا نے اپنے صحافتی بیان میں کیا۔ مولانا نے کہا کہ 31؍دسمبر کی رات دنیا بھر میں لوگ مختلف تفریحی و عوامی مقامات پر ایک ساتھ جمع ہوکر گزشتہ سال کو رخصت کرتے ہیں اور نئے سال کو خوش آمدید کہتے ہیں۔پہلے پہل یہ شوق صرف خواص ہی میں پایا جاتا تھا؛لیکن اب سماج کے ہر طبقہ میں یہ لعنت سرایت کر گئی ہے۔ رسول الله ﷺ نے فرمایا :پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جان لو (۱) اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے (۲) اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے (۳) اپنی مالداری کو فقروفاقے سے پہلے (۴) اپنے خالی اوقات کو مشغولیت سے پہلے (۵) اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔اس حدیث کی روشنی میں اگر ہم جائزہ لیں گے تو ہمارے لیے ایسے مواقع عبرت و نصیحت کے ساتھ ساتھ احتساب کے ہوتے ہیں۔ مولانا نے کہا مسلمان اپنی مذہبی روایات کو چھوڑ کر زندگی نہ گزاریں ۔ آج مسلمان اپنی شناخت و پہچان بھول گئے ہیں اور وقت کے بدلنے کا رونا رورہے ہیں۔بیتی زندگی پرایک طائرانہ نظر ڈالیں تو احساس ہوتا ہے کہ ہم نے اب تک کیا پایا کیا کھویا ہے؟ ہمیں سال کے اختتام پر، نیز وقتاً فوقتاً یہ محاسبہ کرنا چاہئے کہ ہمارے نامۂ اعمال میں کتنی نیکیاں اور کتنی برائیاں لکھی گئیں ؟۔ کیا ہم نے امسال اپنے نامۂ اعمال میں ایسے نیک اعمال درج کرائے کہ کل قیامت کے دن ان کو دیکھ کر ہم خوش ہوں اور جو ہمارے لئے دنیا وآخرت میں نفع بخش بنیں؟ یا ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے ایسے اعمال ہمارے نامہ اعمال میں درج ہوگئے جو ہماری دنیا وآخرت کی ناکامی کا ذریعہ بنیں گے؟ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ امسال اللہ کی عبادت میں کیا کچھ تبدیلیاں واقع ہوئیں ؟ اطاعتِ رسول ﷺ میں ہم نے کیا کیا کام کیے؟ ہم نے خلقِ خدا کی خدمت میں کس قدر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا؟ حقوق الله و حقوق العباد میں کس قدر ہم سے کوتاہیاں ہوئیں؟ ان سب چیزوں کے احتساب کا وقت ہے۔ مولانا نے کہا کہ جس طرح مختلف کمپنیاں اور ادارے سال کے اختتام پر اپنے فائدے اور نقصان کا حساب دیکھتے ہیں اور پھر فائدے یا نقصان کے اسباب پر غور وخوض کرتے ہیں۔ نیز خسارہ کے اسباب سے بچنے اور فائدہ کے اسباب کو زیادہ سے زیادہ اختیار کرنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں سال کے اختتام پر نیز وقتاً فوقتاً اپنی ذات کا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے کہ ہمارے اعمال و افعال کی کوتاہیوں کو کس طرح دور کریں اور بہتر انسان بن کر کس طرح زندگی گزاریں؟ ۔ اور ایک مسلمان کے لیے احتساب اتنا ہی ضروری ہے جتنا ہر انسان کے لیے کھانا اور پانی ضروری ہوتا ہے۔ اس لیے متعدد احادیث میں عبادتوں کے ذکر کے ساتھ احتساب کا درس دیا گیا ہے کہ جس نے روزہ ‘ نماز ‘ قیام وغیرہ عبادت انجام دی ایمان واحتساب کے ساتھ تو ایسے لوگوں کے لیے اگلے پچھلے گناہوں کی معافی کا اعلان کیا گیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ احتساب ہر مسلمان و مومن بندہ کے لیے نہایت ضروری ہے۔ مولانا نے کہا کہ ہمیں بھی چاہیے کہ ایسے مواقع کو غنیمت جانتے ہوئے پچھلی زندگی کی کوتاہیوں پر توبہ واستغفار کریں‘نیک اعمال پر خدا کا شکر بجا لائیں،اپنا احتساب کریں‘ خامیوں کو دور کریں اور خوبیاں پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں نیز اغیار کی مشابہت میں ہر گز نہ پڑیں ورنہ دنیا تو برباد ہوگی ہی آخرت بھی برباد ہوجائے گی۔ خاص طور پر نوجوانوں سے مولانا نے یہ اپیل ہے کہ آپ ملت کا مستبقل اور قوم کا اثاثہ ہیں آپ ہی کو اگلی نسلوں کی راہنمائی کے لیے تیار رہنا ہے اسی لیے اس طرح کی حرکتوں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچنے کی ترغیب دیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×