سیاسی و سماجی
دعوت وتبلیغ: وقت کی بڑی ضرورت
مسلمان کی حیثیت داعی کی ہے، اسی وجہ سے وہ خیر امت ہے، وسط امت ہے، دوسری امتوں کے لیے قیامت میں شاہد ہے، یہ امتِ اجابت ہے؛ یعنی اس نے ایمان کی دعوت کو قبول کر لیا ہے، اور ان احکامات پر کار بند ہونے کا عہد کیا ہے، جو قرآن واحادیث میں مذکور ہیں، پھر جو لوگ ایمان کے با وجود اسلام سے دور ہیں ، دینی تقاضوں سے انہیں نفور ہے ، ان کے درمیان خدائی احکامات اور نبوی ہدایات کی تذکیر بھی اس کی ذمہ داری ہے، کیونکہ معاشرہ کی اصلاح اور سماج کو صالح قدروں کی طرف متوجہ کیے بغیر ہم اسلامی معاشرہ کی تشکیل نہیں کر سکتے ، تذکیر کا کام عالمی سطح پر تبلیغی جماعت کے ذریعہ ہو رہا ہے ، اور واقعہ یہ ہے کہ بڑوں کے اخلاس وللہیت کی وجہ سے اللہ نے اس سے بڑا کام لیا ہے اور پوری دنیا میں اس کی تذکیر کے اثرات تبلیغ کے حوالے سے محسوس کیے جا رہے ہیں، روز کی تعلیم، ہفتے کا گشت، دن کے مخصوص ومتعین اوقات میں خصوصی ملاقات، مہینہ کے تین دن ، سال کے چِلّے اور زندگی کے چار چِلّے زندگی کو عموماً صالح اسلامی رخ پر ڈال دیتے ہیں، کمی کو تاہی کے با وجود اس سے اصلاح کا بڑا کام ہو رہا ہے۔
تذکیر وتبلیغ کے بعد دوسرا بڑا کام دعوت الی اللہ کا ہے، ان لوگوں تک پیغام پہونچانے کا ہے، جن تک اللہ کا کلمہ نہیں پہونچا اور وہ ایمان سے دور ہیں، یہ امت دعوت ہیں، جن تک اللہ کے پیغام کو پہونچا نا ضروری ہے، کل قیامت میں اگر اللہ نے پوچھ لیا اور دیگر مذاہب کے لوگوں نے اللہ سے فریاد کیا کہ یہ لوگ ہمارے ساتھ رہتے تھے، کھاتے تھے، کاروبار کرتے تھے، لیکن انہوں نے آپ کا پیغام ہم تک نہیں پہونچایا تو ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا ، اس لیے ہماری ذمہ داری یہ بھی بنتی ہے کہ پوری حکمت عملی کے ساتھ دوسروں تک اسلام کے پیغامات ، تعلیمات ، احکامات اور ہدایات کو پہونچائیں، اسلام کی صحیح تعلیمات سے اس آشنائی کے نتیجے میں غلط فہمیاں دور ہوں گی ، ایک دوسرے کو سمجھنے اور جاننے کا مزاج بنے گا ، اس کا م کے لیے آج کل مکالمہ بین المذاہب کا رواج جو چل پڑا ہے، اس سے فائدہ اٹھانا بھی مفید ہوگا، اگر دین کے اعتبار سے اپنا علم پختہ اور اپنا ایمان غیر متزلزل ہو تو اس طریقہ سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا ، انٹر نیٹ ، الکٹرونک میڈیا ، پرنٹ میڈیا کا بھی سہارا لیا جا سکتا ہے۔ اس حوالہ سے دعوت کا کام کرنے کے لیے خصوصی تربیت کی بھی ضرورت ہوگی اور مواد کی فراہمی کی بھی۔
دعوت وتبلیغ سے متعلق کام کی اتنی اہمیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اس شخص سے اچھی بات کس کی ہو سکتی ہے جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور وہ مسلمان ہونے کا مدعی ہو ، اس آیت میں اللہ نے دعوت الیٰ اللہ کے ساتھ عمل صالح کو خاص طور پر جوڑا ہے، کیونکہ اگر داعی اپنے عمل میں کمزور ہو یا بے عملی کا شکار ہو تو بہت خلوص کے باوجود مدعو اس سے متاثر نہیں ہوتا اس لئے کہ داعی کا اپنا عمل ہی اس کی دعوت کو جھٹلا رہا ہے، تو وہ دوسرے پر کس طرح اثر انداز ہوگا۔
آیت کے آخری حصہ میں جو اننی من المسلمین یعنی اقرار کی بات کہی گئی ہے، اس کا تعلق نعروں سے نہیں ہے، بلکہ اس بات سے ہے کہ مشکل حالات میں بھی وہ اسلام کا اعلان کرے ، جبر واکراہ خوف ودہشت کی وجہ سے اپنے اسلام کو نہ چھپائے اور نہ انکار کرے۔ بلکہ اس ٹکرے کی منشا خداوندی یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ مسلمان نہ صرف زبان قال سے؛ بلکہ زبان حال سے بھی اپنے مسلم ہونے کی شہادت دے، ثبوت پیش کرے ، زبانِ حال کا اعلان زبان قال سے زیادہ مؤثر ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ قرون اولیٰ میں اسلام تیزی سے پھیلا، کتابیں، اخبارات ورسائل، مدارس وتعلیمی ادارے اس دور میں نہیں تھے، لیکن جو مسلمان جہاں ہوتا تھا وہ اپنی ذات سے، اپنے عمل سے اپنے کیرکٹر وکردار سے اسلام کا اشتہار ہوتا تھا ، دعوت وتبلیغ پر انہوں نے موٹی موٹی کتابیں نہیں پیش کیں، کردار پیش کیا ، آج اسی کردار کی بازیابی کی ضرورت ہے ، جو کسی وجہ سے ہم سے کھو گیا ہے۔
امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ نے اپنے قیام کے پہلے دن سے جن کاموں پر ترجیحی بنیادوں پر اپنی توجہ مبذول کی، ان میں ایک دعوت وتبلیغ بھی ہے، موجودہ امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم کی فکر مندی اس حوالہ سے بہت بڑھی ہوئی ہے، وہ چاہتے ہیں کہ دعوت وتبلیغ کا یہ کام بلاک ، پنچایت اور گاؤں کی سطح تک مضبوط انداز میں کیا جائے اور دینی ، اصلاحی ، تعلیمی ، دعوتی کاموں کو گھر گھر پہونچایا جائے تاکہ مسلمان اسلامی تشخص اور شعار کے ساتھ اس ملک میں با عزت شہری بن کر زندگی گذار سکیں، اس کام کے لیے با صلاحیت افراد کی ضرورت ہے۔ امارت شرعیہ سے منسلک ہو کر دعوتی وتبلیغی خدمات انجام دینے کے خواہش مند افراد کو اس کام کے لیے اپنی خدمات پیش کرنی چاہیے