اسلامیات
علم و ہدایت اور شرعی مسائل کو چھپانا
’علم‘جس کی ترغیب اسلام کی پہلی وحیِ الٰہی ہی میں موجود ہے، اس وقت اس کی فضیلت و اہمیت کا بیان مقصود نہیں،بلکہ جو لوگ ضرورت کے موقعوں پر بھی ’حکمت‘ و ’مصلحت‘ کا نام لے کر علم و حق کی باتیں چھپاتےہیں، انھیں متنبہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ایسا کرکے جہاں خود گنہ گار ہو رہے ہیں، وہیں ان کے اس عمل سے باطل کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ اس لیے کہ باطل پر سکوت اختیار کرنا بعض دفع اس کی حمایت میں چلا جاتا ہے اور عوام یہی گمان کرتی ہے کہ اگر اس میں کوئی برائی ہوتی تو اہلِ علم اس پر تنقید و تردید ضرور کرتے۔ علم اور حق کی باتوں کا ایسے موقعوں پر کتمان دین و شریعت کی رو سے گناہِ کبیرہ ہے، اس لیے ہمیں سنجیدگی سے اس مسئلے پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم اس جرمِ عظیم کے مرتکب تو نہیں!
دینِ اسلام نے دیگر مسائل کی طرح اس اہم مسئلے پر بھی شرح و بسط سے روشنی ڈالی ہے، جس کے اہم جزئیات پیشِ خدمت ہیں۔ارشادِ ربانی ہے:اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتٰبِ ۙاُولٰۗىِٕكَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَبے شک! وہ لوگ جو ہماری نازل کی ہوئی روشن دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیہ کہ ہم انھیں کتاب میں کھول کھول کر لوگوں کے لیے بیان کرچکے ہیں، ایسے لوگوں پر اللہ بھی لعنت بھیجتا ہے اور دوسرے لعنت کرنے والے بھی لعنت بھیجتے ہیں۔[البقرۃ] اس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں کہ اہلِ کتاب ہونے کے باوجود غرضِ دنیا کی خاطر اللہ کی طرف سے نازل کی ہوئی ہدایت و نشانیاںچھپاتے تھے، اور لعنت کرنے والے یعنی تمام فرشتے اور مسلمان جنات و بنی آدم انسان نیز تمام حیوانات-کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی شامت و نحوست میں گرانی،قحط سالی، بارش کا بند ہونا و دیگر امراض اور سختیاں ہوتی ہیں اور چوں کہ اس بلائے ناگہانی میں جانور تک مبتلا ہو کر تکلیف پاتے ہیں، اس لیے اللہ کے نافرمان بندوں کو – وہ بھی لعنت کرنے لگتے ہیں۔[تفسیر میرٹھی] دینی مسائل چھپانا
آیت میں ’ الھدی‘کا عطف ہے ’البینات‘پر اور اس سے عمومی طور پر ہدایت کی سب چیزیں مراد ہیں، جن میں حضرت خاتم النّبیین ﷺ پر ایمان لانا اور آپ کا اتباع کرنا بھی شامل ہے اور آیت اگرچہ اہلِ کتاب کے بارے میں نازل ہوئی، لیکن حکم سب کے لیے عام ہے یعنی ضرورت کے موقعوں پر علمِ دین کا چھپانا ہر جاننے والے کے لیے‘ گناہ ہے۔[روح المعانی]مطلب یہ ہے کہ کسی شخص سے کوئی سائل، دین کا مسئلہ پوچھے اور وہ جانتا ہو (خواہ باقاعدہ کسی دینی درس گار میں تربیت حاصل کرنے یا مطالعے کی بنا پر) تو اس کا چھپانا اور پوچھنے والے کو نہ بتانا سخت گناہ ہے، چناں چہ یہ واضح رہے کہ کتمانِ علم پر اس وعید کا تعلق دین کی اسی بات سے ہے جس کو بتانا سکھانا اور جس کی تعلیم دینا ضروری ہے۔مثلاً ایک شخص مسلمان ہونے کا ارادہ کرتا ہے اور پوچھتا ہے کہ مجھے بتاؤکہ اسلام کیا ہے اور ایمان کس طرح لایا جاتا ہے؟ یا کوئی شخص نماز پڑھنا چاہتا ہے اور نماز کا وقت آجانے پر پوچھتا ہے کہ مجھ کو نماز کے بارے میں بتاؤ، یا کوئی شخص کسی چیز کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں پوچھتا ہے، تو دینی فرائض و واجبات سے متعلق اس طرح کی چیزوں میں پوچھنے والے کو بتانا اور اس کو دینی مسئلے سے واقف کرا دینا لازم ہے، جب کہ نفل امور میں یہ صورت نہیں۔[مظاہر حق جدید،بتغیر] اللہ تعالیٰ کی دھمکی
اس میں زبردست دھمکی ہے ان لوگوں کو -جو اللہ تعالیٰ کی باتیں یعنی شرعی مسائل چھپا لیا کرتے ہیں- اہلِ کتاب نے نعتِ نبی ﷺ کو چھپا لیا تھا، جس پر ارشاد ہوا کہ حق کے چھپانے والے ملعون ہیں۔ جس طرح اس عالِم کے لیے جو لوگوں میں اللہ کی باتیں پھیلائے ہر چیز استغفار کرتی ہے، یہاں تک کہ پانی کی مچھلیاں اور ہوا میں اڑنے والے پرند بھی‘ اسی طرح ان لوگوں پر جو حق کی بات کو جانتے ہوئے گونگے بہرے بن جائیں، ہر چیز لعنت بھیجتی ہے۔صحیح حدیث میں ہے، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص سے کسی شرعی امر کی نسبت سوال کیا جائے اور وہ اسے چھپا لے، اسے قیامت کے دن آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر اللہ کی کتاب میں یہ آیت نازل نہ ہوتی تو میں ایک حدیث بھی بیان نہ کرتا۔[ابن کثیر]حضرت ابوہریرہؓکے اس قول کی طرح بعض دوسرے صحابہ کرامؓنے بھی بعض روایاتِ حدیث کے ذکر کرنے کے ساتھ ایسے ہی الفاظ فرمائے ہیں کہ اگر قرآن مجید کی یہ آیت کتمانِ علم کے بارے میں نازل نہ ہوتی تو میں یہ حدیث بیان نہ کرتا۔ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے نزدیک حدیثِ رسول اللہ قرآن ہی کے حکم میں ہے، کیوں کہ آیت میں تو کتمان کی وعید ان لوگوں کے لیے آئی ہے جو قرآن میں نازل شدہ ہدایات وبینات کو چھپائیں، اس میں حدیث کا صراحۃًذکر نہیں، لیکن صحابہ کرامؓنے حدیثِ رسول اللہ ﷺ کو بھی قرآن ہی کے حکم میں سمجھ کر اس کے اخفا کرنے کو اس وعید کا سبب سمجھا۔[معارف القرآن] کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج جب کسی کو اس کی اصلاح کی خاطر قرآن کی آیت یا حدیث سنائی جاتی ہے تووہ بے علمی اور جہالت سے کہا کرتا ہے ’ہر بات میں فتوے مت سناؤ‘۔ گویا یہ دین کی باتیں اس رام و شیام کے لیے ہیں جن کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں،یا للعجب!
حق کو چھپانےسے باطل کی حمایت
جیسا کہ اوپر گزرا کہ حضرت ابوہریرہؓنے فرمایا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی کتاب میں یہ آیت نازل نہ ہوئی ہوتی تو میں کوئی حدیث بیان نہ کرتا، اس سے علمانے علمِ حق کی تبلیغ کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے، ہاں ساتھ ہی یہ بھی بیان کیا ہے کہ عالم جب علم کو چھپانے کا قصد کرے گا تو گنہ گار ہوگا اور جب علم چھپانے کا قصد نہ کرے تو تبلیغ لازم نہیں، جب کہ دوسرا کوئی بتانے والا موجود ہو۔[تفسیر قرطبی] کتمانِ علم پر وعید اس صورت میں ہے جب کہ اس کے سوا کوئی دوسرا آدمی مسئلے کا بیان کرنے والا وہاں موجود نہ ہو اور اگر دوسرے علما بھی موجود ہوں تو گنجائش ہے کہ یہ کہہ دے کہ دوسرے علما سے دریافت کر لو۔ [معارف القرآن] عام لوگوںکے ساتھ تو یہ روش اختیار کی جا سکتی ہے ، لیکن جن کی تعلیم و تربیت خود کے ذمّے ہو، انھیں تو آہستہ آہستہ دینی مسائل کے سمجھنے کا خوگر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بعض لوگ اپنے ہونٹوں کو حق کہنے سے بالکل سی لیتے ہیں، جس سے باطل کوتقویت پہنچتی ہے۔ علامہ قرطبی کا بیان ہے کہ یہ بعض علوم پر محمول ہے، جس طرح علمِ کلام وغیرہ یا ایسا علم- جس کے سمجھنے میں تمام لوگ برابر نہ ہوں- البتہ راہِ اعتدال یہی ہے کہ عالم وہی چیز بیان کرے جو مخاطب سمجھ سکے اور ہر انسان کے ساتھ بات کرنے میں اس کے مرتبے کا لحاظ رکھے۔[تفسیر قرطبی] تمام مخلوق کی لعنت
حضرت براء بن عازبؓفرماتے ہیں، ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک جنازے میں شریک تھے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ قبر میں کافر کی پیشانی پر اس زور سے ہتھوڑا مارا جاتا ہے کہ سب جان دار اس کا دھماکہ سنتے ہیں، سوائے جن و انس کے، پھر وہ سب اس پر لعنت بھیجتے ہیں، یہی معنی ہیں اس کے کہ ان پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے یعنی تمام جان داروں کی۔ حضرت عطا فرماتے ہیں مذکورہ آیت میں’لاعنون‘ سے مراد تمام جانور اور کُل جِن و انس ہیں۔حضرت مجاھدؒ فرماتے ہیں کہ جب خشک سالی ہوتی ہے اور بارش نہیں برستی تو چوپائے جانور کہتے ہیں کہ یہ بنی آدم کے گنہ گاروں کی شومیِ اعمال ہے، اللہ تعالیٰ ان پر لعنت نازل کرے۔ بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ اس سے مراد فرشتے اور مومنین ہیں، حدیث میں ہے کہ عالِم کے لیے ہر چیز استغفار کرتی ہے،یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں بھی۔اس آیت میں ہے کہ علم کے چھپانے والوں پر اللہ لعنت کرتا ہے اور فرشتے اور تمام لوگ اور کُل لعنت کرنے والے یعنی ہر ’بازبان‘ اور ’بے زبان‘، خواہ زبان سے کہے، خواہ قرائن سے‘ اور قیامت کے دن بھی سب چیزیں اس پر لعنت کریں گی۔[تفسیر ابن کثیر] امتِ محمدیہ کی خصوصیت
پھر سلسلۂ کلام میں ان لوگوں کو الگ کرلیا گیا جو اپنے اس فعل سے باز آجائیں اور اپنے اعمال کی اصلاح کرلیں اور جو چھپایا تھا اسے ظاہر کر دیں، اگر ایسا ہو تو ان لوگوں کی توبہ اللہ تعالیٰ‘ جو تواب الرحیم ہے‘ قبول فرما لیتا ہے۔ معلوم ہوا کہ جو شخص کفر و بدعت کی طرف لوگوں کو بلانے والا ہو، وہ بھی جب سچے دل سے رجوع کرلے اور جن سے اس حق بات کو چھپایا تھا ان کے سامنے حق کو ظاہر کر دے، اس کی توبہ قبول ہو جاتی ہے۔بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سابقہ امتوں میں ایسے گنہ گاروں کی توبہ قبول نہیں ہوتی تھی لیکن ’نبی التوبہ‘ اور ’نبی الرحمہ‘ حضرت محمد ﷺ کی امت کے ساتھ یہ مہربانی مخصوص ہے۔[تفسیر ابن کثیر] مخاطب کے مرتبے کا لحاظ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’جو نازل شدہ بینات اور ہدایت‘ کو چھپاتا ہے وہ ملعون ہے، لیکن اس کی مراد میں اختلاف ہے۔ بعض علما نے فرمایا : اس سے مراد ہر وہ شخص ہے جس نے حق کو چھپایا، اس کے حق میں یہ وعید عام ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ جس سے کوئی علمی بات پوچھی جائے، جسے وہ جانتا بھی ہے‘ پھر اس نے اسے چھپایا تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے روز آگ کی لگام پہنائیں گے،لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تو کسی کے سامنے ایسی حدیث بیان مت کر، جن تک ان کی عقلیں نہیں پہنچ سکتیں، اگر تم نے ایسا کیا تو یہ باتیںبعض لوگوں کے لیے فتنے کا باعث ہوں گی۔ خود رسول اللہ ﷺکا بھی ارشاد ہے کہ لوگوں کو وہ بیان کرو جس کو وہ سمجھ سکتے ہوں، کیا تم پسند کرتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلایا جائے۔ [القرطبی] بعض باتیں بیان نہ کرے
علم کو چھپانے کی یہ سخت وعید انھیں علوم و مسائل کے متعلق ہے جو قرآن وسنت میں واضح بیان کیے گئے ہیں اور جن کے ظاہر کرنے اور پھیلانے کی ضرورت ہے، وہ باریک اور دقیق مسائل جو عوام نہ سمجھ سکیں بلکہ خطرہ ہو کہ وہ کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوجائیں گے، تو ایسے مسائل و احکام کا عوام کے سامنے بیان نہ کرنا ہی بہتر ہے اور وہ کتمانِ علم کے حکم میں نہیں ہے۔ آیتِ مذکورہ میں لفظ ’من البینات والھدی‘ میں اسی طرف اشارہ ہے۔ [معارف القرآن] رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ حکمت کو اس کے اہل سے مت روکو، ورنہ تم ان پر ظلم کرو گے اور نا اہل کو حکمت کی باتیں نہ سکھاؤ، ورنہ حکمت پر ظلم کرو گے۔ ایک حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: (موتیوں کا ہار خنزیر کی گردن میں نہ ڈالو) یعنی علم و فقہ کی تعلیم ایسے شخص کو نہ دو جو اس کا اہل نہیں۔ [تفسیر قرطبی]
دینِ اسلام نے دیگر مسائل کی طرح اس اہم مسئلے پر بھی شرح و بسط سے روشنی ڈالی ہے، جس کے اہم جزئیات پیشِ خدمت ہیں۔ارشادِ ربانی ہے:اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتٰبِ ۙاُولٰۗىِٕكَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَبے شک! وہ لوگ جو ہماری نازل کی ہوئی روشن دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیہ کہ ہم انھیں کتاب میں کھول کھول کر لوگوں کے لیے بیان کرچکے ہیں، ایسے لوگوں پر اللہ بھی لعنت بھیجتا ہے اور دوسرے لعنت کرنے والے بھی لعنت بھیجتے ہیں۔[البقرۃ] اس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں کہ اہلِ کتاب ہونے کے باوجود غرضِ دنیا کی خاطر اللہ کی طرف سے نازل کی ہوئی ہدایت و نشانیاںچھپاتے تھے، اور لعنت کرنے والے یعنی تمام فرشتے اور مسلمان جنات و بنی آدم انسان نیز تمام حیوانات-کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی شامت و نحوست میں گرانی،قحط سالی، بارش کا بند ہونا و دیگر امراض اور سختیاں ہوتی ہیں اور چوں کہ اس بلائے ناگہانی میں جانور تک مبتلا ہو کر تکلیف پاتے ہیں، اس لیے اللہ کے نافرمان بندوں کو – وہ بھی لعنت کرنے لگتے ہیں۔[تفسیر میرٹھی] دینی مسائل چھپانا
آیت میں ’ الھدی‘کا عطف ہے ’البینات‘پر اور اس سے عمومی طور پر ہدایت کی سب چیزیں مراد ہیں، جن میں حضرت خاتم النّبیین ﷺ پر ایمان لانا اور آپ کا اتباع کرنا بھی شامل ہے اور آیت اگرچہ اہلِ کتاب کے بارے میں نازل ہوئی، لیکن حکم سب کے لیے عام ہے یعنی ضرورت کے موقعوں پر علمِ دین کا چھپانا ہر جاننے والے کے لیے‘ گناہ ہے۔[روح المعانی]مطلب یہ ہے کہ کسی شخص سے کوئی سائل، دین کا مسئلہ پوچھے اور وہ جانتا ہو (خواہ باقاعدہ کسی دینی درس گار میں تربیت حاصل کرنے یا مطالعے کی بنا پر) تو اس کا چھپانا اور پوچھنے والے کو نہ بتانا سخت گناہ ہے، چناں چہ یہ واضح رہے کہ کتمانِ علم پر اس وعید کا تعلق دین کی اسی بات سے ہے جس کو بتانا سکھانا اور جس کی تعلیم دینا ضروری ہے۔مثلاً ایک شخص مسلمان ہونے کا ارادہ کرتا ہے اور پوچھتا ہے کہ مجھے بتاؤکہ اسلام کیا ہے اور ایمان کس طرح لایا جاتا ہے؟ یا کوئی شخص نماز پڑھنا چاہتا ہے اور نماز کا وقت آجانے پر پوچھتا ہے کہ مجھ کو نماز کے بارے میں بتاؤ، یا کوئی شخص کسی چیز کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں پوچھتا ہے، تو دینی فرائض و واجبات سے متعلق اس طرح کی چیزوں میں پوچھنے والے کو بتانا اور اس کو دینی مسئلے سے واقف کرا دینا لازم ہے، جب کہ نفل امور میں یہ صورت نہیں۔[مظاہر حق جدید،بتغیر] اللہ تعالیٰ کی دھمکی
اس میں زبردست دھمکی ہے ان لوگوں کو -جو اللہ تعالیٰ کی باتیں یعنی شرعی مسائل چھپا لیا کرتے ہیں- اہلِ کتاب نے نعتِ نبی ﷺ کو چھپا لیا تھا، جس پر ارشاد ہوا کہ حق کے چھپانے والے ملعون ہیں۔ جس طرح اس عالِم کے لیے جو لوگوں میں اللہ کی باتیں پھیلائے ہر چیز استغفار کرتی ہے، یہاں تک کہ پانی کی مچھلیاں اور ہوا میں اڑنے والے پرند بھی‘ اسی طرح ان لوگوں پر جو حق کی بات کو جانتے ہوئے گونگے بہرے بن جائیں، ہر چیز لعنت بھیجتی ہے۔صحیح حدیث میں ہے، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص سے کسی شرعی امر کی نسبت سوال کیا جائے اور وہ اسے چھپا لے، اسے قیامت کے دن آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر اللہ کی کتاب میں یہ آیت نازل نہ ہوتی تو میں ایک حدیث بھی بیان نہ کرتا۔[ابن کثیر]حضرت ابوہریرہؓکے اس قول کی طرح بعض دوسرے صحابہ کرامؓنے بھی بعض روایاتِ حدیث کے ذکر کرنے کے ساتھ ایسے ہی الفاظ فرمائے ہیں کہ اگر قرآن مجید کی یہ آیت کتمانِ علم کے بارے میں نازل نہ ہوتی تو میں یہ حدیث بیان نہ کرتا۔ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے نزدیک حدیثِ رسول اللہ قرآن ہی کے حکم میں ہے، کیوں کہ آیت میں تو کتمان کی وعید ان لوگوں کے لیے آئی ہے جو قرآن میں نازل شدہ ہدایات وبینات کو چھپائیں، اس میں حدیث کا صراحۃًذکر نہیں، لیکن صحابہ کرامؓنے حدیثِ رسول اللہ ﷺ کو بھی قرآن ہی کے حکم میں سمجھ کر اس کے اخفا کرنے کو اس وعید کا سبب سمجھا۔[معارف القرآن] کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج جب کسی کو اس کی اصلاح کی خاطر قرآن کی آیت یا حدیث سنائی جاتی ہے تووہ بے علمی اور جہالت سے کہا کرتا ہے ’ہر بات میں فتوے مت سناؤ‘۔ گویا یہ دین کی باتیں اس رام و شیام کے لیے ہیں جن کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں،یا للعجب!
حق کو چھپانےسے باطل کی حمایت
جیسا کہ اوپر گزرا کہ حضرت ابوہریرہؓنے فرمایا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی کتاب میں یہ آیت نازل نہ ہوئی ہوتی تو میں کوئی حدیث بیان نہ کرتا، اس سے علمانے علمِ حق کی تبلیغ کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے، ہاں ساتھ ہی یہ بھی بیان کیا ہے کہ عالم جب علم کو چھپانے کا قصد کرے گا تو گنہ گار ہوگا اور جب علم چھپانے کا قصد نہ کرے تو تبلیغ لازم نہیں، جب کہ دوسرا کوئی بتانے والا موجود ہو۔[تفسیر قرطبی] کتمانِ علم پر وعید اس صورت میں ہے جب کہ اس کے سوا کوئی دوسرا آدمی مسئلے کا بیان کرنے والا وہاں موجود نہ ہو اور اگر دوسرے علما بھی موجود ہوں تو گنجائش ہے کہ یہ کہہ دے کہ دوسرے علما سے دریافت کر لو۔ [معارف القرآن] عام لوگوںکے ساتھ تو یہ روش اختیار کی جا سکتی ہے ، لیکن جن کی تعلیم و تربیت خود کے ذمّے ہو، انھیں تو آہستہ آہستہ دینی مسائل کے سمجھنے کا خوگر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بعض لوگ اپنے ہونٹوں کو حق کہنے سے بالکل سی لیتے ہیں، جس سے باطل کوتقویت پہنچتی ہے۔ علامہ قرطبی کا بیان ہے کہ یہ بعض علوم پر محمول ہے، جس طرح علمِ کلام وغیرہ یا ایسا علم- جس کے سمجھنے میں تمام لوگ برابر نہ ہوں- البتہ راہِ اعتدال یہی ہے کہ عالم وہی چیز بیان کرے جو مخاطب سمجھ سکے اور ہر انسان کے ساتھ بات کرنے میں اس کے مرتبے کا لحاظ رکھے۔[تفسیر قرطبی] تمام مخلوق کی لعنت
حضرت براء بن عازبؓفرماتے ہیں، ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک جنازے میں شریک تھے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ قبر میں کافر کی پیشانی پر اس زور سے ہتھوڑا مارا جاتا ہے کہ سب جان دار اس کا دھماکہ سنتے ہیں، سوائے جن و انس کے، پھر وہ سب اس پر لعنت بھیجتے ہیں، یہی معنی ہیں اس کے کہ ان پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے یعنی تمام جان داروں کی۔ حضرت عطا فرماتے ہیں مذکورہ آیت میں’لاعنون‘ سے مراد تمام جانور اور کُل جِن و انس ہیں۔حضرت مجاھدؒ فرماتے ہیں کہ جب خشک سالی ہوتی ہے اور بارش نہیں برستی تو چوپائے جانور کہتے ہیں کہ یہ بنی آدم کے گنہ گاروں کی شومیِ اعمال ہے، اللہ تعالیٰ ان پر لعنت نازل کرے۔ بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ اس سے مراد فرشتے اور مومنین ہیں، حدیث میں ہے کہ عالِم کے لیے ہر چیز استغفار کرتی ہے،یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں بھی۔اس آیت میں ہے کہ علم کے چھپانے والوں پر اللہ لعنت کرتا ہے اور فرشتے اور تمام لوگ اور کُل لعنت کرنے والے یعنی ہر ’بازبان‘ اور ’بے زبان‘، خواہ زبان سے کہے، خواہ قرائن سے‘ اور قیامت کے دن بھی سب چیزیں اس پر لعنت کریں گی۔[تفسیر ابن کثیر] امتِ محمدیہ کی خصوصیت
پھر سلسلۂ کلام میں ان لوگوں کو الگ کرلیا گیا جو اپنے اس فعل سے باز آجائیں اور اپنے اعمال کی اصلاح کرلیں اور جو چھپایا تھا اسے ظاہر کر دیں، اگر ایسا ہو تو ان لوگوں کی توبہ اللہ تعالیٰ‘ جو تواب الرحیم ہے‘ قبول فرما لیتا ہے۔ معلوم ہوا کہ جو شخص کفر و بدعت کی طرف لوگوں کو بلانے والا ہو، وہ بھی جب سچے دل سے رجوع کرلے اور جن سے اس حق بات کو چھپایا تھا ان کے سامنے حق کو ظاہر کر دے، اس کی توبہ قبول ہو جاتی ہے۔بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سابقہ امتوں میں ایسے گنہ گاروں کی توبہ قبول نہیں ہوتی تھی لیکن ’نبی التوبہ‘ اور ’نبی الرحمہ‘ حضرت محمد ﷺ کی امت کے ساتھ یہ مہربانی مخصوص ہے۔[تفسیر ابن کثیر] مخاطب کے مرتبے کا لحاظ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’جو نازل شدہ بینات اور ہدایت‘ کو چھپاتا ہے وہ ملعون ہے، لیکن اس کی مراد میں اختلاف ہے۔ بعض علما نے فرمایا : اس سے مراد ہر وہ شخص ہے جس نے حق کو چھپایا، اس کے حق میں یہ وعید عام ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ جس سے کوئی علمی بات پوچھی جائے، جسے وہ جانتا بھی ہے‘ پھر اس نے اسے چھپایا تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے روز آگ کی لگام پہنائیں گے،لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تو کسی کے سامنے ایسی حدیث بیان مت کر، جن تک ان کی عقلیں نہیں پہنچ سکتیں، اگر تم نے ایسا کیا تو یہ باتیںبعض لوگوں کے لیے فتنے کا باعث ہوں گی۔ خود رسول اللہ ﷺکا بھی ارشاد ہے کہ لوگوں کو وہ بیان کرو جس کو وہ سمجھ سکتے ہوں، کیا تم پسند کرتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلایا جائے۔ [القرطبی] بعض باتیں بیان نہ کرے
علم کو چھپانے کی یہ سخت وعید انھیں علوم و مسائل کے متعلق ہے جو قرآن وسنت میں واضح بیان کیے گئے ہیں اور جن کے ظاہر کرنے اور پھیلانے کی ضرورت ہے، وہ باریک اور دقیق مسائل جو عوام نہ سمجھ سکیں بلکہ خطرہ ہو کہ وہ کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوجائیں گے، تو ایسے مسائل و احکام کا عوام کے سامنے بیان نہ کرنا ہی بہتر ہے اور وہ کتمانِ علم کے حکم میں نہیں ہے۔ آیتِ مذکورہ میں لفظ ’من البینات والھدی‘ میں اسی طرف اشارہ ہے۔ [معارف القرآن] رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ حکمت کو اس کے اہل سے مت روکو، ورنہ تم ان پر ظلم کرو گے اور نا اہل کو حکمت کی باتیں نہ سکھاؤ، ورنہ حکمت پر ظلم کرو گے۔ ایک حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: (موتیوں کا ہار خنزیر کی گردن میں نہ ڈالو) یعنی علم و فقہ کی تعلیم ایسے شخص کو نہ دو جو اس کا اہل نہیں۔ [تفسیر قرطبی]