آئینۂ دکن

مالدار‘ غریب رشتہ داروں کو سودی قرض سے بچانے کیلئے قرضہ حسنہ دیں

حیدرآباد: 4؍جون (پریس ریلیز) گزشتہ ڈھائی ماہ سے زائد عرصے سے کورونا وائرس کے نتیجے میں نافذ لاک ڈاؤن کے نتیجے میں اوسط اور غریب طبقہ غربت ، پریشانی اور فقر و فاقہ کی زد میں ہے۔ روزمرہ کے اخراجات کی پابجائی کے لیے یہ طبقہ پریشان ہے ۔بہت سے لوگ اپنا کاروباری سرمایہ کھو چکے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں ملازم اپنی ملازمت سے محروم ہوچکے ہیں۔ اس وقت ملت کا ایک بڑا طبقہ معیشت کے اعتبار سے مفلوج ہوچکا ہے۔ ان حالات میں کمزور ایمان والے مسلمان سودی قرض لینے کی طرف مائل ہورہے ہیں۔ ایسے وقت اگر ملت کا مالدار طبقہ اپنے اپنے غریب رشتہ داروں کو قرضہ ٔ حسنہ دے تو ان کی معیشت کے دوبارہ بحال ہونے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار منبر و محراب فاؤنڈیشن کے بانی مولانا غیاث احمد رشادی نے کیا اور کہا کہ جو مال اللہ تعالیٰ نے ہم کو دیا ہے یہ صرف ہماری اپنی ذات اور اپنے بیوی بچوں ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ اس میں اپنے ان رشتہ داروں کا بھی حق ہے جو غربت کی سطح پر زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ اس مال کے حقدار بالخصوص وہ غریب رشتہ دار ہیں جو عزت نفس کی وجہ سے اپنی غربت و بیچارگی کے اظہار سے کتراتے ہیں ۔ظاہر بات ہے کہ سودی قرض آدمی کو کمزور سے کمزور تر کردیتا ہے اور آدمی مجبوری میں سودی قرض لینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اسی لیے نبی رحمت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرضۂ حسنہ دینے کی ترغیب دی۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں نے معراج کی رات جنت کے دروازے پر یہ لکھے ہوئے دیکھا کہ صدقہ کا ثواب دس گناہ ہے اور قرضۂ حسنہ کا ثواب اٹھارہ گنا ہے۔ میں نے جبرئیل سے پوچھا کہ صدقہ کے مقابلے میں قرض کی فضیلت اس قدر کیوں ہے ؟ فرمایا کہ قرض لینے والا اسی وقت قرض لیتا ہے جبکہ اس کو شدید حاجت اور ضرورت ہو ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کوئی کسی مجبور کو قرض دیتا ہے اور اس سے قرض واپس طلب کرنے میں نرمی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کو جنت میں ایک درہم کے بدلہ ایک قنطار کا اجر عطا فرمائیں گے ۔نیز یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کو قرض دیتا ہے اس کو ہر درہم کے عوض احد کے پہاڑ کے وزن کے بقدر اجر دیا جاتا ہے۔ یہ بات یاد رکھیں کہ ضرورت پر قرض لینا کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ خود نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورت پر قرض لیا ہے۔ ایک صحابی رسول فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے چالیس ہزار کا قرض لیا ۔جب ان کے پاس مال آیا تو انھوں نے مجھے قرض لوٹا دیا اور پھر کہا بارک اللہ لک فی اھلک و مالک کہ اللہ تمہارے اہل میں اور مال میں برکت عطا فرمائے ۔وقت کا تقاضا ہے کہ مالدار اپنے غریب رشتہ داروں کے حالات کا جائزہ لیں اور ان کو قرضۂ حسنہ دیں۔ دوسری طرف قرض لینے والوں کو بھی چاہیے کہ جو قرض لیا ہے وقت پر ادا کردیں تاکہ دوبارہ انہیں ضرورت پڑنے پر قرضۂ حسنہ مل سکے اور ان کا کردار اور اعتماد بھی بحال رہے ۔ قرض لینے اور دینے والوں کو چاہیے کہ وہ اس قرآنی ہدایت کا لحاظ رکھیں کہ جب بھی قرض لیا یا دیا جائے تو اس کو دو گواہوں کی موجودگی میں لکھ لیا جائے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×