1947کی طرف بڑھتاقدم
ہمارے ملک بھارت میں غاصب اورظالم انگریزوں نے جس وقت قدم رکھا، اس وقت یہاں حکومت ایک ایسے قوم کی تھی، جوپرامن اورسب کوساتھ لے کرچلنے والی قوم تھی، یہی وجہ ہے کہ ان کی وزارتوں اور عہدوں میں اپنی قوم کے علاوہ دوسری قوم کے افرادبھی کثیرتعدادمیں شریک تھے، اورنہ صرف شریک تھے؛ بل کہ اونچے عہدوں اوراعلیٰ مناصب پرفائزتھے، اسی کافائدہ اٹھاتے ہوئے عیاراورچلاک قوم گوروں نے تجارت کی اجازت لی، پھرآہستہ آہستہ غاصب اورقابض بن بیٹھے اوراسی قوم کوحکومت سے بے دخل کردیا، جس نے اس کوتجارت کی اجازت دے کراحسان کیاتھا۔
قبضہ کے بعدان لوگوں نے یہاں کے اصل باشندوں کے ساتھ غلاموں سے بھی بدترسلوک کرناشروع کیا اور جب پانی سرسے اونچاہوگیاتوپھرسب پہلے اسی قوم نے ان کے ظلم وستم کے خلاف آوازبلندکی، جن سے حکومت چھینی گئی تھی، ان کے خلاف یہ لڑائی سوسال سے زائدعرصہ پرمحیط رہا، اس میں سب سے زیادہ نقصان اسی قوم کاہوا، جس نے ان انگریزوں کویہاں قدم رکھنے کی اجازت دی تھی، گویاان کویہ سزااسی لئے بھگتناپڑی کہ انھوں نے ایک قوم کی مدد کرناچاہی تھی، لڑائی کے آخری دور میں یہاں کی دوسری قوموں نے بھی شرکت کی اورقدم سے قدم اورشانہ شانہ ملایا، نتیجۃً یہ ملک آزادہوا۔
لیکن یہ آزادی اس حالت میں نہیں تھی، جس حالت میں ملک پرقبضہ کیا گیا تھا، مالی اعتبارسے اس ملک کو تولوٹاہی گیا، رقبہ کے اعتبارسے بھی اس کے ٹکڑے کے گئے اوریہ غاصب اورقابض قوم کی شرست رہی ہے کہ جہاں بھی اس نے قبضہ کیااورپھرجدوجہد کے بعدآزادکیا، اس ملک کے حصے بخرے کئے؛ تاکہ ملک دوبارہ اس استحکامی حالت میں باقی نہ رہے، جس حالت میں پہلے تھی، یہی اس ملک کے ساتھ ہوا، اس کے پہلے تودوٹکڑے کئے؛ لیکن اس اعتبارسے کہ آگے چل کراس کے اوربھی ٹکڑے ہوسکتے ہوں، نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ملک تین ٹکڑوں میں بٹ گیا۔
دنیاکایہ اصول ہے کہ جب کسی ملک کے ٹکڑے ہوتے ہیں، اس وقت بھی اسی طرح قربانی عوام کودینی پڑتی ہے، جس طرح کسی کے قبضہ سے آزادی لیتے وقت دینی پڑتی ہے، یہاں بھی اسی اصول کودہرایاگیا، انگریزوں سے آزادی کے وقت جتنی قربانی دینی پڑی تھی، کم وبیش اسی طرح کی قربانی الگ ہوتے وقت بھی دینی پڑی، بس فرق یہ تھا کہ آزادی کے آخری وقت میں ملک کے تمام باشندے اس قربانی میں شریک ہوئے، جب کہ تقسیم کے وقت غصہ کالاوا ایک قوم کے خلاف پھوٹ پڑا اوراس طرح پھوٹا کہ جان ہتھیلی پررکھ کربھاگناپڑا، اگربچتے بچاتے بارڈرکراس ہوگئے توقسمت اوراگرخون میں لت پت ہوکرگرپڑے توبدقسمتی۔
یہ اس وقت کی بات ہے، جسے 1947کہاجاتاہے؛ لیکن اگرآج کے حالات کاموازنہ اس وقت کے حالات سے کیاجائے توکسی قدرایک جیسے ہی نظرآئیں گے، آج جوبرسراقتدار لوگ ہیں، وہ اپنے کوانگریزہی سمجھتے ہیں، اسی طرح من مانی کرتے ہیں، جس طرح وہ کرتے تھے، کہنے کوتوجمہوریت ہے؛ لیکن حقیقت میں ڈکٹیٹرشپ ہے، جس طرح انگریزوں کوعوام کی پرواہ نہیں تھی، انھیں بھی نہیں ہے، جس طرح وہ لوگوں پرظلم کرتے تھے، اسی طرح یہ بھی کررہے ہیں، فرق اتناہے کہ وہ پوری بھارتی قوم پرظلم کرتے تھے اوریہ بھارت کے کچھ لوگوں پرکرتے ہیں۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، آنکھیں گواہ ہیں، اخبارات شاہد ہیں، نیوز چینلس اورسوشل میڈیازکے ویڈیوزآج بھی شہادت دے رہے ہیں، حتی کہ دوسرے ممالک کے سربراہان نے بھی چپی توڑی اوراس پرکمنٹس کئے، یہاں ظلم کے نشانے پرکمزورطبقہ کے لوگ ہیں اورمسلم کمیونٹی ہے، وہ لوگ بھی ہیں، جن سے کام نمٹا لیا جاتا ہے اوراب وہ کسی کام کے نہیں رہتے، وہ بھی ہوتے ہیں، جوظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، ماب لنچنگ کے جتنے واقعات ہوئے، وہ مسلم اورکچھ دلت کے ہوئے، معمولی معمولی بہانے کی وجہ سے ماب لنچنگ کی گئی؛ لیکن ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی؛ بل کہ انھیں شہ دیاگیا، کملیش تیواری اوراس جیسے کئی گرگوں کوقتل کروایاگیا، یہ قتل اسی لئے ہوئے کہ ان کا کام اب ختم ہوچکاتھا، اب وہ اپنے حق کامطالبہ کرتے ہوں گے اورحق نہ دینے کی صورت میں پردہ فاش کرنے کی دھمکی دیتے ہوں گے، گوری لنگیش جیسے لوگوں کوقتل کیاگیاکہ وہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے تھے۔
نوٹ بندی اورجی ایس ٹی کے ذریعہ سے لوگوں کوپریشان کیاگیا، سی اے اے کے ذریعہ سے مسلم کمیونٹی کوخصوصیت کے ساتھ پریشان کرنے کی کوشش کی گئی، کوروناکی آڑ میں مسلم قوم کوتوبدنام کیاہی گیا؛ لیکن جس طرح کی پریشانیاں بے چاری عوام کواٹھانی پڑی، جس کے تصورسے آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، وہ 1947کانمونہ پیش کرنے کے لئے کافی ہے، طلاق ثلاثہ بل کے ذریعہ سے مسلم قوم کو پریشان کیاگیااوراس تعلق سے ایک بات بھی نہیں سنی گئی، بابری مسجد کے تعلق سے جوفیصلہ سامنے آیا، ایک ریاست کے خصوصی درجہ کوجوچھینا گیا، یہ سب ایک قوم کوپریشان کی کرنے کی ہی مثالیں ہیں،جے این یوکے طلبہ کوتکلیف دی گئی، جامعہ ملیہ کے طلبہ کوپریشان کیاگیا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ کوپریشان کیاگیا، اب زرعی قوانین کے ذریعہ کمزورکسانوں کوپریشان کیاجارہاہے، کسان جنوری کی ٹھٹھرتی سردی میں بھی سڑکوں پرہیں اوردیش کے رکھوالے آرام دہ گرم بستراورگرم کمروں میں مزے کے خراٹے لے رہے ہیں۔
اس وقت برسراقتدارپارٹی سے تعلق رکھنے والوں کے حوصلے ظالمانہ اورمتشددانہ ہیں، لوجہادکاقانون اسی حوصلے کی علامت ہے، مدھیہ پردیش میں دہشت گردی بڑھی ہوئی ہے، وی ایچ پی کی اتنی بڑی ریلی، وہ بھی کورونا کال میں اوروہ اس وقت، جب کہ کوروناکی نئی قسم کی دریافت ہورہی ہے اوربھارت میں بھی اس کے پچیس تیس متاثرپائے جاچکے ہیں، پانچ ہزار کے قریب لوگوں کی شمولیت، پھرریلی میں مسلم مخالف نعرہ بازی، مسجد پرچڑھ بھگواجھنڈا لہرانااوراس قدردہشت پھیلاناکہ لوگ پورے گاؤں کوہی خالی کرکے نقل مکانی کرنے پرمجبورہوجائیں، یہ 1947کانظارہ نہیں تواورکیاہے؟ ملک کے یہ مسائل ایک اور1947کی طرف قدم بڑھارہے ہیں، اگراسی وقت اسے روکانہ گیاتوپھر1947کا وہ منظرحقیقت بن کرہمارے سامنے کھڑاہوگا، جس کوہم کتابوں میں پڑھتے رہے ہیں۔
ایسے میں مسلم پارٹیوں اورایم پیز وایم اے لیزکومدھیہ پردیش کے حالات پرآواز بلند کرنے کی ضرورت ہے، ساتھ میں ان لوگوں کوبھی شامل کرناچاہئے، جن پارٹیوں کے آپ حلیف ہیں، آج کادوروہ دورنہیں، جہاں حق والے کواس کاحق مل جاتاہے، آج کادوروہ دورہے، جہاں حق چھین کرلیناپڑتاہے، اورظاہرہے کہ اس کے لئے طاقت کی ضرورت ہوتی ہے، ہماری طاقت ہماری یونٹی میں ہے، ہم متحد ہوں گے توہماری طاقت بحال ہوگی، ورنہ الگ الگ آواز کوئی حیثیت نہیں، بکھرے ہوئے ستاروں کی روشنی میں کام دھندھا نہیں کیاجاسکتا، اس کے لئے توخورشید مبین ہی کی روشنی چاہئے۔