عشرۂ ذی الحجہ کی فضیلت اورموجودہ حالات میں قربانی سے متعلق بعض اہم مسائل
ذی الحجہ کا مہینہ اپنی خصوصیات،فضائل اوراعمال کی وجہ سےنہایت اہمیت کاحامل ہے،اس میں کچھ اعمال تو ایسے ہیں ’جو اسی مہینہ کے ساتھ مخصوص ہیں؛جن میں سب سے اہم اسلام کے پانچویں رکن ‘‘فریضۂ حج’’ کی ادائیگی ہے،جو ۸؍ ذی الحجہ سے لےکر ۱۲؍ذی الحجہ تک مکہ مکرمہ اور اس کے اطراف کے مشاعر منی، مزدلفہ وغیرہ میں ادا کیاجاتا ہے۔
دوسرا اہم عمل قربانی ہے جو ۱۰؍ ۱۱؍ ۱۲ کوانجام دیا جاتا ہے،اسی مہینہ میں پانچ دن ایام تشریق کہلاتے ہیں۔پھر پہلے عشرہ کی خاص فضیلت حدیث میں وارد ہوئی ہے،حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ عزوجل کے نزدیک عشرۂ ذی الحجہ میں نیک عمل کرنے سے زیادہ پاکیزہ اور زیادہ ثواب کا حامل کوئی عمل نہیں ہے۔صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دریافت کیا کہ جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں، ہاں! البتہ وہ شخص کا جواپنی جان اور اپنا مال لے کر راہ خدا میں نکلا اور کچھ بھی واپس نہ لاسکا” ۔(مسند احمد ،دارمی)
حدیث شریف میں ‘‘ما من ایام العمل الصالح’’ کا لفظ استعمال کیا گیا ہےیعنی اس عشرے کے جو مخصوص اعمال ہیں ،ان کے علاوہ بھی دیگر تمام اعمال کو اہتمام کے ساتھ انجام دینا چاہیے۔ان خاص اعمال میں ایک عمل ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے لے کر نوتاریخ تک نفلی روزہ رکھنا ہے؛کیونکہ ۱۰ سے ۱۳ تک روزہ رکھنا ممنوع ہے ،ان میں بھی نو تاریخ کے روزہ کی سب سے زیادہ اہمیت ہے،اگر اللہ ہمت دے تو پورے عشرے کا روزہ رکھنا چاہیے،یا پھر جتنے آسانی سے ہوسکیں،اور کم ازکم ۹؍ذی الحجہ یعنی عرفے کے روزہ کا اہتمام تو کرنا ہی چاہئے۔ان کے علاوہ جو نیک اعمال ہیں جیسے صدقات وخیرات وغیرہ ان میں بھی حسب وسعت حصہ لینا چاہیے ۔خصوصا موجودہ حالات میں جب کہ بالعموم ساری انسانیت اور بالخصوص ہمارے ایمان والے بھائی مختلف دقتوں کا شکار ہیں ،معاشی پریشانیوں میں مبتلا ہیں ،اللہ تبارک وتعالی نے اگر وسعت عطا فرمائی ہے تو مالی امداد کے ذریعہ انہیں سہا را دیا جائے ،ایسے ہی نفل نمازیں،قرآن پاک کی تلاوت ،دعا واستغفار،اور مختلف قسم کے نیک اعمال انجام دیے جائیں، گناہوں سے بھی اپنے آپ کو بچایا جائے ،رات کی عبادات کا بھی اہتمام کیا جائےاور دن کی عبادت کا بھی اہتمام کیا جائے۔ پھر دسویں ذی الحجہ سے ایام قربانی شروع ہوجاتے ہیں،اس میں ہر صاحب استطاعت پر قربانی کرنا واجب ہے ،صاحب استطاعت سے مراد ہر وہ شخص ہے جس کے پاس نصاب کے بقدر سونا یا چاندی،روپیہ پیسہ،مال تجارت ،یا روزمرہ کی ضروریات سے فاضل سامان موجود ہو ،نہ اس کےلئے مال نامی ہونا شرط ہے اور نہ ہی حولان حول کی شرط ہے جیسا کہ زکاۃ کے نصاب میں ہے؛بلکہ اگرقربانی کے ایام میں۱۲؍تاریخ کے غروب آفتاب سے پہلے پہلے تک اگر کوئی شخص مال کا مالک ہوجاتا ہےتو اس پر قربانی واجب ہوجاتی ہے ،اس وقت کاروباری دقت وتنگ دستی کی وجہ سے بہت سے لوگ اس صورت حال کا شکار ہیں کہ گھر میں زیورات وغیرہ موجود ہیں،یا ان کے پیسے گاہگ کے پاس رکے ہوئےہیں؛لیکن نقد پیسہ ان کے پاس نہیں ہے ،وہ سوال کررہے ہیں کہ واجب قربانی ادا کرنے کی کیا شکل ہے؟مسئلہ تو یہی ہے کہ ہر صاحب استطاعت پر قربانی واجب ہے،اور قربانی کا بدل ایام قربانی میں کچھ اور نہیں ہے،ایام قربانی میں قربانی کرنا ہی واجب ہے،چاہے سالم جانور قربان کیا جائے یا بڑے جانور میں حصہ لے لیا جائے،اگر کسی کے پاس اتنی استطاعت نہیں کہ وہ پورا جانور قربان کرسکے،تو کہیں کسی ادارے میں حصہ لے کر واجب قربانی ادا کرے،یا سب لوگ مل کر ایک بڑا جانور خریدلیں،اور سب اپنا اپنا حصہ شامل کرلیں۔قربانی ۱۰؍ ذی الحجہ سے لےکر ۱۲ ؍ذی الحجہ کے غروب آفتاب سے قبل تک کسی بھی وقت کی جاسکتی ہے۔
ان دنوں میں ایک عمل تکبیر تشریق کا بھی ہےکہ ۹؍ ذی الحجہ کی فجر سے لے کر ۱۳ ؍ذی الحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد ایک مرتبہ اَ للہُ اکبر اللہ اکبر لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبراللہ اکبر ولِلّٰہ الْحَمْد یہ تکبیر کہنا واجب ہے۔ مرد حضرات قدرے بلند آواز سے کہیں،اور خواتین پست آواز سے۔تکبیر واجب ہونے کے لئے نماز کا جماعت کے ساتھ ہونا بھی شرط نہیں ہے ،تنہا نماز پڑھنے والا بھی تکبیر تشریق کہے گا ،قربانی سے پہلے عیدالاضحی کی نماز بھی ادا کی جاتی ہے اس وقت حکومت کی پابندیوں کی وجہ سےجہاں جس طرح بھی ممکن ہو عید الاضحی کی نمازادا کرنی چاہیے،اور گھروں میں عورتیں دو رکعت نفل چاشت کے وقت میں ادا کرنے کا اہتمام کریں،ان کے ذمہ عید الاضحی کی نماز واجب نہیں ہے ۔
یہ مختصر سے احکام تھے جو آپ کے سامنے پیش کردئے گئے،اس کے اہتمام کی فکر کرنی چاہیے۔اللہ پاک توفیق عمل نصیب فرمائے ۔آمین