حیدرآباد و اطراف

موجودہ حالات میں اصحابِ خیر اس جانب بھی توجہ فرمائیں!

حیدرآباد: 20؍جولائی (عصر حاضر) مولانا عبدالقوی صاحب ناظم ادارہ اشرف العلوم نے اپنے صحافتی بیان میں کہا ہے کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کے مسلمانوں نے  لاک ڈاؤن کے اس زمانہ میں جس فراخ دلی اور عالی حوصلگی سے بلا لحاظِ مذہب و فکر خدمتِ خلق کے جتنے کام کیے ہیں وہ سب قابلِ تعریف‘ قابل تحسین اور قابلِ تقلید ہیں۔ بلکہ یہ جنابِ رسول الله ﷺ کی انسانیت نوازی اور ہمدردی و غمخواری کاصدقہ ہے۔ بہت دنوں سے ایک بات اصحابِ خیر اور منفقین (مال خرچ کرنے والوں) کی خدمت میں عرض کرنے کا جی چاہ رہا تھا وہ یہ کہ انفاق کے حوالہ سے بعض پہلو ایسے بھی ہیں جو اصحابِ خیر کی نظروں سے اوجھل ہوگئے ان میں سب سے اہم بات یہ کہ اکثر شرفاء محتاجی کے باوجود اہلِ خیر حضرات کی خیرات سے فائدہ نہیں اٹھا سکے۔اور اصحابِ ثروت کی توجہ اس جانب بہت کم ہوئی۔ میں نے اس سلسلہ میں قرآن مجید کی ایک آیت جس میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :خیرات ان حاجت مندوں کے لیے ہے جو دین کی خدمت کی وجہ سے راہ خدا میں محبوس ہیں،ملک میں چل پھر نہیں سکتے، نا واقف ان کے سوال نہ کرنے سے انہیں مال دار سمجھتے ہیں، تم انہیں ان کے چہرے سے پہچان سکتے ہو،وہ لوگوں سے لگ لپٹ کر سوال نہیں کرتے، اور جو کام کی چیز تم خرچ کرو گے بے شک وہ اللہ کو معلوم ہے۔ اور بخاری شریف کی حدیث جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مسکین وہ نہیں ہے جو گھومتا رہتا ہے اور ایک دو لقمہ یا ایک دو کھجور لے کر لوٹ جاتا ہے۔‘‘ صحابہ رضی اللہ علیھم اجمعین نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! پھر مسکین کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جس کو اتنا خرچ نہیں ملتا جو اس کی ضرورت بشری کی کفایت کرتا ہو اور نہ لوگ اسے مسکین جانتے ہیں کہ اس کو صدقہ دیں اور نہ وہ لوگوں سے کچھ مانگتا ہے۔ کے عین مطابق دین کے خاص خدمت گزاروں اور خدمتِ دین میں اپنی زندگیوں کو وقف کرنے والوں کے لیے امداد و تعاون کی آسمانی اور نبوی سفارش ہے۔ اس لیے اہلِ خیر حضرات سے درخواست ہے کہ وہ بطورِ خاص اس طرف بھی توجہ فرمائیں۔ عام طور پر جب بھی خدمتِ خلق اور غرباء پروری کا نام آتا ہے تو خدامِ دین کی طرف ذہن نہیں جاتا اور یہ لوگ اپنی پاکدامنی عفت مآبی اور سفید پوشی کی وجہ سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس وقت تجربہ یہ ہوا کہ بہت سے عام لوگ جو شریف خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جن کے اپنے مکان تو ہیں مگر کاروبار کے بند ہونے کی وجہ سے روزانہ کا گزارا بھی ان کے لیے دشوار بن چکا ہے۔ ان کی امداد کے سلسلہ میں بھی توجہ کی بطورِ خاص ضرورت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×