آئینۂ دکن

موجودہ حالات میں ہردل کی صداء ہے ……………اللہ

حضرت مولانا عبدالقوی صاحب دامت برکاتہم ناظم ادارہ اشرف العلوم کا 12؍اپریل کو بعد نمازِ مغرب ماہانہ اصلاحی مجلس سے آن لائن کیے گئے پُر مغز کے اہم اقتباسات

ہر مضطر کا ضمیر اسی ان دیکھی قوت کو پکارتا ہے اپنے سابقہ معبودوں بتوں اور اوثان کو بھول کر ہر انسان اللہ ہی کو پکارتا ہے ہر دل کی صداء ہے .اللہ ۔ وقت کے فرعون بھی اپنی تنہائی اور خلوت اور اپنے دل ہی دل میں اسی ایک معبود حقیقی کو آواز دیتے ہیں دعواللہ مخلصین لہ الدین اور جب ان کا سفینہ ڈوبنے سے بچ جاتا کنارہ لگ جاتا تو کہتے تھے کہ ہم اپنی طاقت وقوت یا فلاں کہ توجہ وعنایت سے بچ گئے حالانکہ ان کے دل نے اللہ کو پکارا تھا اللہ پاک نے ان کی حفاظت وصیانت فرمائی تھی انسان خواہ مومن ومسلمان ہو ں کہ کسی دوسرے مذہب کو ماننے والا وہ اللہ کی قدرت وطاقت کو بہرحال مانتا ہے اور ماننا ہی پڑے گا اس کے بنا کوئی چارہ نہیں ہے بس لمحہ واحد کے لیے بھی بندہ اگر رجوع الی اللہ ہوجاے اور اپنے گناہوں سے توبہ واستغفار کرلے تو باری تعالی اس کے حال پر رحم فرماکر اس کو دنیا کے مصائب وآلام سے نجات دےدیتے ہیں آج کے حالات کو اگر ہم دیکھیں کورونا وائریس سے نجات اور چھٹکارہ کے لیے اپنی ہرتدبیر سے عاجز آکر آج پورے کے پورے ممالک اور حکمران اپنے آپ میں اناربکم الاعلی کا دعوی کرنے والی سپر پاور طاقتیں بھی جو دین واسلام سے نفرت کرتے اور اسلامی تہذیب وشعار کو یکسر ناپسند کرتے تھے وہ مجبور ہوکر مسجد کے مناروں سے بلند ہونے والی آوازوں کو کان لگاکر سن رہے اور بے تحاشہ سڑکوں پر نکل نکل کر دعائیں مانگ رہے اور نعرہ تکبیر کی گونج سے پورے ملک کے کونہ کونہ کو جگمگجانے لگے ہیں آج ہر حکومت اپنی رعایا کو مرنے کے لیے چھوڑ چکی ہیں اور ان کے پاس کوئی دوا اور علاج دستیاب نہیں ہے بس وہ کہ رہے ہیں کہ ماحول میں وائریس ہے جراثیم ہیں تم لوگ اگر اس سے حفاظت اور بچنا چاہتے ہیں تو بس الگ تھلگ رہو ایک دوسرے سے سماجی فاصلہ بناے رکھو گھروں میں رہو محفوظ رہو گے حقیقت یہ ہیکہ دوستو آج برسوں میں بھی اللہ کو یاد نہ کرنے والا اپنے ہاتھوں کو آسمان کی جانب اٹھانے لگا ہے ان کی نگاہیں آج آسمانوں پر ٹکی ہوی ہیںاور جو بے ایمان بندے ہیں ان کے بھی دل گواہی دے رہے ہیں کہ ا س وباء کو اگر کوئی طاقت روک سکتی ہے تووہ صرف اورصرف اوپر والی ذات عالی ہے جو لوگ اس ذات کونہیں مانتے ہیں ان کا تو حساب اللہ پاک لے گا شکوہ تو ان لوگوں سے ہے جو اس ذات کو مانتے اس پر کامل یقین رکھتے ہیں مگر پھر بھی رجوع الی اللہ کے لیے تیار نہیں ہیں اتنی غفلت ولاپرواہی کہ اپنے آپ کو بارگاہ الہی میں آنے اور اپنی ناک رگڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں آج وقت ہے اس بات کا کہ ہم اللہ سے روروکر معافی مانگیں گڑگڑائیں ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر وباء ختم بھی ہوجاے اور کاروبا ر معمول پر آجائیں مال ودولت کی ریل پیل بھی شروع ہوجاے اور لاک ڈاون بھی ختم ہوجائے تو کیا اللہ کی آزمائش ختم ہوگئی ؟ نہیں دوستو اللہ کی جانب سے آزمائش تو جاری رہے گی ہمیں اپنی زندگیوں کا محاسبہ کرتے رہنا ہوگا اللہ سے معافی مانگتے رہنا ہوگا آج جن پر خطر حالات سے ہم لوگ گذررہے ہیں ہم سوچ بھی نہیں سکتے ہیں گذشتہ دس پندرہ سالوں سے علماء کرام اکابرین عظام اور مختلف تنظیموں کے ذمہ داران اور امت کے بہی خواہان اس بات کہ جانب باربار توجہ دلاتے رہے کہ اپنی غفلت کو دور کروبے حسی کو ختم کرو اور ملک میں بسنے والی دیگر اقوام کو بالخصوص دلت طبقہ کو ساتھ لے کر دوریاں ختم کرو لیکن ہم نے اس کو سنی ان سنی کردیا ہم.نے ا سکو مانا نہیں نتیجہ ہمارے سامنے آگیا کہ ایک مخصوص جماعت کونشانہ بناکر پورے مسلمانوں سے نفرت پیداکردی گئی ہے کوئی مسلمان سے سامان خریدنے دودھ ڈالنے اور اشیاء خوردونوش تک بھی لینے تیار نہیں ہیں اللہ ہی اب حالا ت پر رحم فرمائے یہ سب شامت اعمال ما ہے ہماری اپنی بد عملیوں کا ثمرہ ہے مقولہ ہیکہ اعمالکم عمالکم جیسے اعمال ہوں گے ویسے ہی حکام ہوں گے بندوں کے اعمال کے مطابق اللہ پاک اپنے فیصلوں کو جاری کرتے ہیں شامت اعمال ما صورت نادرگرفت ہرمسلمان کوچاہیے کہ وہ یہ سمجھے کہ یہ آزمائشیں یہ حالات یہ مصیبتیں سب میرے اعمال بد کا نتیجہ ہے جس کے لیے مجھے اللہ سے توبہ واستغفار کرنا ہے پتہ نہیں آگے اور کیا کیا حالت آئیں گے اللہ کرے کہ اور کوئی آزمائش ہماری نہ ہوں لیکن ہم سب کو اللہ کی طرف رجوع کرنا بہت ضروتی ہے اللہ پاک ہربندہ کی توبہ کو قبول کرتے ہیں اللہ پاک ناراض ہونے کی حالت میں بھی اپنے بندوں کو پیار ومحبت کے انداز میں کہ رہے ہیں یاعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اس ناراضگی کے عالم.میں بھی اللہ نے بندوں کو میرے بندو کہہکر پکارا ہے چاہتے تو اے گنہ گارو! یا اے انسانو !یا اے ایمان والو! بھی کہ سکتے تھے پیار بھرے الفاظ استعمال کرکے اےمیرے بندو کہا پھر فرمایا کہ لاتقنطوا من رحمۃ اللہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں مسلمانوں کو کسی حال میں بھی اللہ سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہیں حالات خواہ کتنے ہی بد تر کیوں نہ ہوجائیں ہمیں رحمت الہی سے مایوس اوربد دل نہیں ہونا ہے اسلام کے ابتدائیدور میں اس سے بھی کہیں زیادہ پر خطر اور صبر آزما حالات آے ہیں اس وقت بھی اسلام کے ماننے والوں نے ہمت اور صبر واستقامت سے کام لیا جمے رہے اپنے دین واعمال پر حالات سے ڈرے نہیں پھر اللہ نے ان کو جمادیا ان اللہ یغفرالذنوب جمیعا اللہ تعالی سب کے گناہوں کو معاف کرنے والا ہے کافر کے کفر کو مشرک کے شرک کو منافق کے نفاق کو مجرم اور پاپی کے جرم کو عاف کرتا ہے دنیا والوں کے پا س ایسا ہوا ہے تاریخ گواہ ہے کہ ان کے پا س جرم کی سزا دیتے دہتے آخر کار اس مجرم کو پھانسی لگادی جاتی ہے مگر قدرت کے قانون میں معافہ ہی معافی ہے اس کا طریقہ کار بھی بتلایا کہ انیبوا الی ربکم واسلموا شرط ہیکہ بندے اس کی جانب رجوع کریں اور توبہ کریں اس کی تعلیمات کو قبول کریں اس کے احکامات کو مانیں اوراس پر عمل پیرا ہوں قبل اس کے کہ ان کے عذاب آجاے اور اس وقت تمہاری کوی مددنہ کی جاسکے توبہ کے سلسلہ میں بتایا گیا ہیکہ تین چیزیں ضروری ہیں گناہ پر ندامت ہوں فی الحال اس گناہ کو ترک کردیںآئندہ نہ کرنے کا عزم.مصمم ہوں اور اسی کو توبۃ النصوح کہا جاتا ہے اس لےءہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ توبۃ النصوح کرے اسی طرح حقوق العباد سے متعلق گناہوں میں ایک شرط اور لگائی گئی کہ معافی یا تلافی کے ذریعہ بندوں سے معاملہ صاف کرلیں نیز فرمایا کہ سالک کو چاہیے کہ وہ غم اور حزن کے زمانہ میں صبر ورضا کا دامن تھامے رہے اس کے ذریعہ سے سالک وہ منازل طے کرلیتا ہے جو عام حالات میں بہت سے نوافل اور عبادات کے ذریعہ حاصل نہیں کر پاتا ہے اللہ پاک سب کو عافیت دارین نصیب فرمائے آمین بجاہ سید المرسلین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×