آئینۂ دکن

حضرت عمر فاروقؓ کو اپنا رول ماڈل بنائیں: حافظ پیر شبیر احمد

حیدرآباد : 21؍اگست (پریس ریلیز)  حضرت مولانا حافظ پیر شبیر احمد صاحب صدر جمعیتہ علماء تلنگانہ وآندھرا پردیش نے یکم؍ محرم الحرام حضرت عمرؓ کی یوم شہادت کے موقع پر اپنے رہائش گاہ شاہین نگر میں نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خلیفہ دوم حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسلام کی وہ عظیم شخصیت ہیں کہ جن کی اسلام کے لئے روشن خدمات، جرات و بہادری، عدل و انصاف پر مبنی فیصلوں، فتوحات اور شاندار کردار اور کارناموں سے اسلام کا چہرہ روشن ہے۔سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تاریخ انسانی کا ایسا نام ہے جس کی عظمت کو اپنے ہی نہیں بیگانے بھی تسلیم کرتے ہیں۔ وہ نبی نہیں تھے مگر اللہ نے ان کی زبان حق پر وہ مضامین جاری کردیئے جو وحی کا حصہ بن گئے۔ قبول اسلام کے بعد وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے شیدائی بن کر فاروق کہلائے۔آپ رضی اللہ عنہ کا نام عمر بن خطاب، لقب فاروق اور کنیت ابو حفص ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ سے قبل چالیس مرد اور گیارہ عورتیں نور ایمان سے منور ہوچکی تھیں۔آپ رضی اللہ عنہ عام الفیل کے تقریباً 13 سال بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور نبوت کے چھٹے سال پینتیس سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوکر حرم ایمان میں داخل ہوئے۔حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ وہ عظیم المرتبت شخصیت ہیں کہ جن کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے خصوصی طور پر دعا مانگی تھی۔اے اللہ! تو ابوجہل یا عمر بن خطاب دونوں میں سے اپنے ایک پسندیدہ بندے کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کو بارگاہ الہٰی میں شرف قبولیت سے نوازا گیا عمر بن خطاب اسلام قبول کرکے اسلام کا سب سے بڑا خیر خواہ اور جانثار بن گے۔حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اہل اسلام نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے پر خوشی منائی ہے۔آپ رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے سے نہ صرف اسلامی تاریخ میں انقلابی تبدیلی آئی بلکہ مسلمانوں کی قوت و عظمت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا۔ وہ مسلمان جو پہلے اپنے اسلام کو ظاہر کرتے ہوئے شدید خطرات محسوس کرتے تھے، اب اعلانیہ خانہ کعبہ میں عبادت انجام دینے لگے۔حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لوکان نبی بعدی لکان عمر بن الخطاب اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتا۔اسی طرح ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:تم سے پہلی امتوں میں محدثون ہوا کرتے تھے جو کہ انبیاء نہیں تھے اور اگر میری امت میں سے کوئی محدث ہے تو وہ عمر ہے حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ حد درجہ ذہین، سلیم الطبع، بالغ نظر اور صائب الرائے تھے۔ قرآن پاک کے متعدد احکامات آپ رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق نازل ہوئے مثلاً اذان کا طریقہ، عورتوں کے لئے پردہ کا حکم اور شراب کی حرمت۔ آپ رضی اللہ عنہ شجاعت، فصاحت و بلاغت اور خطابت میں یکتائے زمانہ افراد میں سے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مسلمانوں کو بے مثال فتوحات اور کامیابیاں نصیب ہوئیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے قیصر و کسریٰ کو پیوند خاک کرکے اسلام کی عظمت کا پرچم لہرانے کے علاوہ شام، مصر، عراق، جزیرہ، خوزستان، عجم، آرمینہ، آذربائیجان، فارس، کرمان، خراسان اور مکران فتح کئے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں 3600 علاقے فتح ہوئے، 900جامع مساجد اور 4 ہزار مساجد تعمیر ہوئیں۔ ۲۶؍ ذوالحجہ 23ھ کو آپ رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ شدید زخمی ہوگئے۔ چار دن تک آپ موت و حیات کی کشمکش میں رہے۔یکم محرم الحرام 24ھ کو اپنے بیٹے سے کہا: میری پیشانی زمین سے لگادو۔ اس طرح سجدے کی حالت میں جان، جان آفرین کے سپرد کردی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔آپ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا زمانہ خلافت دس سال پانچ ماہ اکیس دن بنتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×