ریاست و ملک

مرکز نظام الدین فیک نیوز معاملہ؛ چیف جسٹس آف انڈیا کی عدم دستیابی کی وجہ سے معاملہ کی سماعت ٹلی: گلزار اعظمی

نئی دہلی: 18؍جولائی (عصر حاضر) مسلسل زہر افشانی اور جھوٹی خبریں نشر کرکے مسلمانوں کی شبیہ کوداغدار اور ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان نفرت کی دیوارکھڑی کرنے کی دانستہ سازش کرنے والے ٹی وی چینلوں کے خلاف داخل کی گئی جمعیۃعلماء ہند کی عرضی پر کل یعنی کہ 19 جون کو سپریم کورٹ آف انڈیا میں تیسری مرتبہ سماعت ہونے والی تھی لیکن چیف جسٹس آف انڈیا کی عدم دستیابی کی وجہ سے سماعت ٹل گی ہے اب یہ سماعت 6جولائی کو ہونے کی امید ہے  چونکہ موسم گرماکی تعطیل کی وجہ سے سپریم کورٹ 19جون سے 5جولائی تک بند رہے گا، جمعیۃ علماء ہند کے وکیل آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے چیف رجسٹرارسے کیس کوجلد از جلد سماعت کے لیئے پیش کیئے جانے کی درخواست کی ہے۔ یہ اطلاع آج اس معاملہ میں مدعی بنے جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے دی۔واضح رہے کہ اس سے قبل کی سماعت پر سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے کی بحث کے بعد عدالت نے مرکزی حکومت کے وکیل سے دریافت کیا تھا کہ عرض گذار کو بتائے کہ اس تعلق سے حکومت نے کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک قانون کی دفعات 19 اور 20 کے تحت اب تک ان چینلوں پر کیا کارروائی کی ہے، ساتھ ہی عدالت نے جمعیۃعلماء ہند کوبراڈ کاسٹ ایسوسی ایشن کو بھی فریق بنانے کا حکم دیا تھا جس کی تکمیل کرتے ہوئے این بی اے کو فریق بنایا دیاگیاتھا جس نے عدالت میں اپنا جواب داخل کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ عرض گذار کوسپریم کورٹ آنے سے پہلے نیوز چینلوں کی ان سے شکایت کرنا چاہئے تھا اور اگر وہ ان پر معقول کارروائی نہ کرتے تب انہیں سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا نا چاہئے تھا۔گلزار اعظمی نے کہا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر اب تک ہم نے پریس کونسل آف انڈیا اور نیوز براڈکاسٹرس ایسو سی ایشن کو فریق بنا چکے ہیں نیز اب امید ہے کہ معاملے کی اگلی سماعت پر عدالت ہماری عرضداشت پر حتمی فیصلہ صادر کردیگی۔اس سے قبل کی سماعت کے موقع پر ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجازمقبول نے عدالت کی توجہ ان دیڑھ سو نیوز چینلوں اور اخبارات کی جانب دلائی تھی جس میں انڈیا ٹی وی،زی نیوز، نیشن نیوز،ری پبلک بھارت،ری پبلک ٹی وی،شدرشن نیوز چینل اور بعض دوسرے چینل شامل ہیں جنہوں نے صحافتی اصولوں کو تار تار کرتے ہوئے مسلمانوں کی دل آزاری اور قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی ناپاک سازش کی تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×