آئینۂ دکن

مدارس اسلامیہ کا تعاون ملتِ اسلامیہ کی اہم ذمہ داری: حافظ پیر شبیر احمد

حیدرآباد 27 اپریل ( پریس نوٹ ) ملک بھر میں جاری لاک ڈاؤن کے باعث جہاں کاروبار زندگی متاثر ہوچکے ہیں‘ وہیں دینی مدارس پر کاری ضرب لگی ہے۔ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد دیگر تمام سرگرمیاں بحال ہوجائیں گی اور جلد یا بدیر معمول پر آجائیں گی لیکن دینی مدارس کو جو نقصان پہنچا ہے اس کی تلافی بہت ہی مشکل نظر آتی ہے اور ان مدارس کی بقا ہی خطرہ میں پڑ گئی ہے۔ مولانا حافظ پیر شبیر احمد صدر جمیعتہ علمآ تلنگانہ و آندھرا پردیش نے ایک صحافتی بیان میں کہا کہ کرونا وائرس کی وجہہ سے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کردیا گیا جس کی وجہ سے زندگی تعطل کا شکار ہوکر رہ گئی ہے ۔ تجارتی و معاشی سرگرمیاں ٹھپ ہوچکی ہیں ۔ غریب اور متوسط طبقہ پریشان حالی کاشکار ہے ‘محنت مزدوری کرنے والے بری طرح زد میں آئے ہیں‘ دوسری طرف اچانک لاک ڈاؤن سے دینی مدارس میں طلبا پھنس گئے ہیں اور وہ اپنے آبائی مقامات کو جانے سے قاصر ہیں‘ مدرسوں کو ماہ شعبان میں سالانہ چھٹیاں دے دی جاتی ہیں اوربچے اپنے اپنے گھروں کو واپس ہوجاتے ہیں اور ماہ شوال میں مدرسوں میں تعلیم کا آغاز ہوجاتا ہے۔ لیکن اس سال لاک ڈاؤن کی وجہہ سے بچے گھروں کو واپس نہیں ہوسکے اور اب تک بھی اس کے کوئی امکانات نہیں ہیں‘ بلکہ شوال میں بھی بچوں کی واپسی ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ ان بچوں کے قیام و طعام کا انتظام مدرسوں کو ہی کرنا پڑرہا ہے اور انتظامیہ کے لئے ان بچوں کے کھانے پینے کا انتظام کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے اور وہ دشواریوں کا سامناکررہا ہے ۔ یہ مدارس صرف اور صرف عطیات‘ خیرات ‘ زکوۃ ‘چرم قربانی اور عوامی چندو ں پر چلتے ہیں‘ شعبان اور رمضان میں چندوں کی وصولی زیادہ ہوتی ہے او ر ان چندوں و عطیات سے سال بھر کاخرچ چلتا ہے ‘ لیکن اس سال لاک ڈاؤن کی وجہ سے مدرسوں کے سفیر نکل نہیں سکے اور مدرسوں کو کسی قسم کی آمدنی نہیں ہوپائی۔ اگر یہی صورت حال رہی تو مدرسوں کا چلانا مشکل ہوجائے گا۔ لاک ڈاؤن کے دوران مخیر اصحاب نے غریبوں کی مدد‘ اناج اور کھانے کی تقسیم پر کافی دولت خرچ کردی ہے‘ اور اکثر صورتوں میں زکواۃ کی رقم بھی اسی امداد میں خرچ کردی گئی۔ اگر لاک ڈاؤن رمضان اور اس کے بعد تک جاری رہے تو غریبوں کی امداد کا سلسلہ بھی جاری رہے گا اور ان اصحاب کے پاس مدرسوں کی اعانت کے لئے رقم باقی نہیں رہ جائے گی ۔ مولانا حافظ پیر شبیر احمدنے مزیدکہا کہ مدرسوں کو اسلام کے قلعے تصور کیا جاتا ہے کیونکہ یہاں سے جو علمأ و حفاظ کرام نکلتے ہیں وہ دینی خدمات انجام دینے کی ذمہ داری نبھاتے ہیں اور انکو جو حقیر معاوضْے ملتے ہیں اسی پر قناعت کرکے اپنی زندگیاں گزاردیتے ہیں اور اس طرح عام مسلمانوں کے دینی امور کی تکمیل کرتے رہتے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ مدرسوں کی حفاظت ‘ ان کو چلانے کا سلسلہ جاری رکھنے اور ان کو ترقی دینے کی ذمہ داری تمام مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے‘ اس لئے ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان مدرسوں کی بقا و برقراری کے لئے خاص توجہ دیں ‘ اگر انکی زکواۃ کی رقم امدادی کاموں میں ختم بھی ہوچکی ہو تو وہ دینی فریضہ سمجھ کر اسے پورا کریں ‘ کیونکہ ان مدارس سے ہی ہماری شناخت باقی رہ سکتی ہے اوران ہی کی وجہہ سے ہمارے درمیان دین باقی رہ سکتا ہے۔ یاد رکھئے یہ صرف اور صرف ہم اہل ایمان کی ذمہ داری ہے ‘اگر ہم غفلت کریں تو پھر مستقبل ہمارا مواخذہ اسی طرح کرے گا ‘ جس طرح مائینمار ( برما) کے مسلمانوں کاکیا گیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×