آئینۂ دکن

تیرہ تیزی کی اسلامی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں ہے: حافظ پیر شبیر احمد

حیدرآباد :11؍ اکٹوبر (پریس ریلیز) حافظ پیر شبیر احمدصاحب صدر جمعیۃ علماء تلنگانہ وآندھراپردیش نے مسجد زم زم باغ عنبر پیٹھ حیدر آباد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی کا دین واسلام تمام انسانیت کے لئے مکمل دستور حیات ومنشور زندگی ہے، جملہ نقائص سے منزہ و مبرا ہے تمام تر تعلیمات پایہ تکمیل کو پہونچ چکی ہیں ارشاد باری تعالی ہے،’’آج کے دن ہم نے تمہارے دین تمہارے لیے کامل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو ( بطور دین) کے پسند فرمایالہذا  اس دین مبین میں بدعات و خرافات، باطل نظریات و تصورات کو جگہ دینے کی کوئی گنجائش نہیں ملتی، ہرفرد کوعقل و نقل کے تناظر میں اپنے افکار و خیالات کا صحیح موازنہ کرنا چاہیے تاکہ کوئی عمل صراط مستقیم سے سے اور اسلامی تقاضوں سے سرتابی نہ کرے مگر آ ج زندگی کے جس شعبہ کے طرف بھی ایک طائرانہ نظر ڈالیں امت میں ایک نمایاں زوال و انحطاط روزافزوں ہیں معاشرتی و سماجی، اور اعتقادی برائیاں یا ہر فرد کو گھن کی طرح کھا رہی ہیں ، شرافت و اخلاق سے سماج بے عبارت ہے، بے دینی و بے راہ روی مسموم فضاچل رہی ہے،آج بھی ماہ صفر المظفر کے بارے میں بد فالی ،بدشگونی ،تیرہ تیزی وغیرہ جاہلی تصورات سماج میں پنپ رہے ہیں ،حالانکہ جو  چیزیں ظہور اسلام سے قبل دور جاہلیت میں روا سمجھی جاتی تھیں انہیں اسلام اپنے پیروں تلے روند چکاہے اسکے باوجود باطل توہمات و نظریات ابھی بھی شباب پر ہے ، بہتر نتائج کے ظاہر ہونے پر اپنی قدرت وکمال کا خبط ، اور برے انجام پر خدائی فیصلوں پر گلہ و شکوہ ، جاہلی تخیلات کی دین ہے ، بد لتے حالات سے ناامیدی نے  انسان کو تخیلات کی دنیامیں اس حد تک پہنچا دیا سلسلہ بیان جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کتاب و سنت میں کوئی حیثیت نہیں ہے اور نئے شادی شدہ جوڑوں کو اس ماہ کی پہلی تیرہ تاریخوں میں ایک دوسرے سے علیحدگی کردی جائے –اس ماہ میں شادی بیاہ اور دیگر تقاریب انجام دینے ، نئے مکانات بنانے،اوراس میں منتقل ہونے، اور اور نئی تجارت میں مشغول  ہونے کے کام سب قابل نحوست ہیں- انہوں نے کہاکہ خصوصا ماہ صفر میں یہ بھی تصور عا م ہے کہ تیرہ تاریخوں کو تیرہ تیزی کا نام رکھتے ہوے ان دنوں میں اپنے استعمالی چیزیں مثلا تیل، انڈے بھلاویں وغیرہ صبح انہیں خیرات کردیا جاتاہے –ماہ صفر کے آخری چہارشنبہ کے متعلق بھی بعض مخصوص اچھی بری باتیں انجام دینے کو   ضروری خیال کی گئی ہیں مثلا روزے کا اہتمام ، خاص انداز سے چاشت  کے وقت نوافل کا اہتمام، مکانات سے دور کسی خوشگوار موقع کی طرف جانے کا پروگرام ،اس دن کوئی کاروبار نہ کرنے کا التزام، ماہ صفرکے ختم ہونیکی خوشخبری دینے والے کو کو جنت کا حقدار بتا نا۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کا پیغام تو یہ ہے کہ اگر آپ کو کوئی راحت آسائش یا بھلائی پہنچتی ہے تو وہ اللہ کے حکم سے ہے اور اگر کوئی مصیبت پہنچے تو اپنے اعمال کی وجہ سے ہے ایک اور موقع پر فرمایا اے پیغمبر آپ کہہ دیجئے  ہمیں صرف اتنا ہی نقصان پہنچے گا جتنا اللہ جل شانہ نے ہماری تقدیر میں ازل سے لکھ دیا ہے وہی ہمارا حامی وناصر ہے  اسی ذات پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ماہ صفر کے بارے میں غلطی کا ازالہ بھی کیا اور فرمایااللہ تعالی کے حکم کے بغیرچھونے سے دوسرے کو بیماری لگ جانے (کا عقیدہ ) پرندے سے بد شگونی (کا عقیدہ)بے حقیقت ہے نہ الو کا بولنا (کوئی براثر رکھتاہے)،اور نہ ہی ماہ صفر منحوس ہے آخر میں انہوں نے کہا کہ ایک مسلمان ہو نے کا لازمی امر ہیکہ پوری زندگی اسلام کے سانچے ڈھل جائے ، اسکے احکام کو اپنی ذات کے لئے خدا کی رحمت تصور کرے،یہ خیال دل ودماغ سے نکال دے کہ ماہ وسال میں کوئی مہینہ،شب روز میں کوئی دن یا رات منحوس ہوتی ہے اور اس میں کام کاج ترک کردینا چاہیے، جبکہ اسکا اعتقاد کہ کار خانہ قدرت میں کوئی چیز بری نہیں ہوتی ، ہر چیز اسکے علم وحکمت کے مطابق کسی نہ کسی خیر سے جڑی ہے،کسی انسان کی کم عقلی اور کورچشمی اسکو نہ پا سکے تو نہ پاے؛لیکن ایمان والے کو "والقدر خیرہ وشرہ من اللہ تعالی "کے عقیدہ کو رکھنا چاہئے اس سے متعلق آیات مبارک اوراحادیث شریفہ کو بار بار غور سے پڑھنا اور ایمان ویقین کو درست ، اعمال وافعال کو بلکہ تخیلات وتصورات کو مومنانہ بنانا چاہیے۔اللہ تعالی ہم سب کو عمل صالحہ کی توفیق عطافرمائیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×