سیاسی و سماجی
وہ جھوٹ بولے گااورلاجواب کردے گا
ہمارا ملک ہندوستان ہرطرف سے ترقی معکوس کی طرف جارہاہے، اوریہ پچھلے چھ سالوں کے عرصہ میں ہواہے، ملک کی ترقی کے وعدے پربی جے پی کواقتدارسونپی گئی تھی؛ لیکن یہ حکومت ہرشعبہ میں ناکام ہے، سب کاساتھ ، سب کاوکاس کاخوش نما؛ مگرپرفریب نعرہ دیاگیاتھا، لیکن عملی طورپروکاس صرف امیروں کاہواہے، غریبوں کا تو اس سے دورتک کاواسطہ نہیں، جی ایس ٹی کی ماربھی غریبوں پرپڑی، اورنوٹ بندی کی ماربھی اسی کے سرپرلگی، امیرتوکل بھی ٹھاٹ سے جی رہے تھے، نوٹ بندی کے دور میں بھی انھیں کوئی فرق نہیں پڑا، ان کا تو اندرسے رابطہ رہتاہے ، کام بھی اندر اندر ہو جاتا ہے، بے چارے غریب! لائن میں کھڑے کھڑے تھک گئے، بیٹھ گئے،گرگئے، مرگئے، کتنوں نے خوش کشی بھی کرلی۔
وکاس کے نام پرغریبوں کے ہاتھ لے دے کے ایک عدد ٹوائلیٹ، زیروبیلینس پربینک اکاؤنٹ ، فری گیس کنکشن اورایک مہینہ کے لئے مفت گیس آئے، ٹوائلیٹ کس طرح بنا یا گیا؟ یہ مت پوچھئے، اتناتنگ کہ ڈھنگ سے آدمی بیٹھ بھی نہیں سکتا، اتنا کمزور کہ ذرا بھاری بھرکم آدمی ٹوئلیٹ سے نکلے تو دروازہ سمیت باہرآجائے، یہ وکاس نہیں، وکاس کے نام پر عوام کوبے وقوف بناناہے اوربس، جی ایس ٹی کی وجہ سے ساری چیزیں مہنگی ہوگئیں اوربے چارہ غریب اس مہنگائی کے بوجھ تلے دب گیا، کرے بھی تو کیا کرے؟ جان بچانے کے لئے توجان کی بازی بھی لگائی جاسکتی ہے، پھرنوٹ بندی کی وجہ سے ایسی ہاہاکاری مچی کہ اللہ کی پناہ!
زیروبینک بیلینس پراکاؤنٹ کھلنے کافائدہ کیا؟ کیایہ وکاس ہے کہ آدمی دانہ کو ترس رہاہے اورآپ اسے بینک کاکھاتہ زیروبیلینس پرکھول کردے رہے ہیں؟ اندھے کو آنکھیں چاہئے اور بھوکے کوکھانا، مریض کوعلاج چاہئے اورفقیرکودوروٹی، ایسے میں بینک اکاؤنٹ کس کام کا؟ فری گیس کنکشن، کیاخوب وکاس ہے، ایک مہینہ کے لئے گیس فری اوروہ بھی فری کیسے؟ بہت ساروں کی سبسڈی کاٹ کرفری گیس، تولے دے کر برابر سرابر، فری کہاں ہوا؟ پھریہ بھی عجیب ہے کہ ایک مہینہ کے لئے گیس فری اور ہمیشہ کے لئے گیس مہنگی، نہ اتنے پیسے ہوں گے غریبوں کے پاس اورناہی گیس ہی بھرواسکیں گے، نہ نومن تیل ہی ہوگا، نہ رادھاناچے گی۔
اقتدارمیں آنے کے لئے بڑے بڑے وعدے کئے گئے، اونچے اونچے خواب دکھائے گئے، بلیٹ ٹرین، دنوں کاسفرگھنٹوں میں اورگھنٹوں کامنٹوں میں، اس کے لئے سودے بازی بھی ہوئی؛ لیکن آنکھیں ہنوز محروم، ڈیجیٹل انڈیاکاسپناشرمندۂ تعبیرہونے کے لئے بے چین ہے، کیش لیس انڈیاکاخواب کب پوراہوگا؟ شایدکبھی نہیں، ہاں اگریہ اس مفہوم میں ہے کہ سارے سے روپے پیسے اچک لئے جائیں گے اورسارے لوگ بے زر رہیں گے تواس معنی میں یہ بالکل درست ہے، نوٹ بندی سے کچھ کیش لیس ہوئے، کچھ ملک بندی سے ، یہاں تولوگ دووقت کی روٹی کے لئے ترس رہے ہیں، پہلے اکاؤنٹ میں پیسے توہوں، جب ہی تویہ سنہراسپناپوراہوگا۔
ملک کے کئی اثاثہ جات کوبطوررہن رکھ دیاگیا؛ حتی کہ تاریخی لال قلعہ، جو ہندوستان کی علامت ہے اورجہاں سے یوم جمہوریہ اوریوم آزادی منائی جاتی ہے، اسے بخشا نہیں گیا، کئی ایئرپورٹ گروی رکھ دئے گئے، ظاہرہے کہ یہ حکومت کی جاگیر نہیں ہیں، یہ توملک کی جاگیرہیں؛ لیکن دھاندلی ہے کہ ملک کی جاگیرکواپنی جاگیرسمجھ لیاجائے اوراس میں من مانی تصرف کیاجائے، شاید کچھ دنوں کے بعد پوری عوام کو گروی رکھ کرجھولااٹھاکر چل دینے کاپلان ہے۔
اس حکومت کے اقتدارمیں آنے کے بعدملک کی عوام بالخصوص یہاں کی اقلیتیں اپنے آپ کوغیرمحفوظ تصورکرتی ہیں، راہ چلتے انھیں مارااورپیٹاجاتاہے؛ بل کہ جان سے ہی ماردیاجاتاہے، راہ چلتی لڑکیوں کواٹھالیاجاتاہے اوراس کے ساتھ منھ کالا کیا جاتا ہے، پھراسے جان سے ماردیاجاتاہے، حتی کہ اس معاملہ میں نابالغ لڑکیوں کو بھی نہیں چھوڑا جاتا،پھرمجرمین کوسزابھی نہیں ہوتی، یاہوتی ہے توخاطرخواہ نہیں، ریپ کے ایک دو معاملہ میں توسزاہوئی بھی؛ لیکن لنچنگ کے معاملے آج تک نہیں؛ بل کہ ان کے مجرمین کوسراہاجاتا ہے، انھیں مالوں کاہارپہنایاجاتاہے، اس سے یہ محسوس ہوتاہے کہ یہ سب ارباب اقتدارکے چھترچھایہ انجام دئے جاتے ہیں۔
اقلیتیوں کومزید ہراساں کرنے کے لئے سی اے اے لایاگیا، جس کی وجہ سے اقلیتوں کی بے اطمینانی مزیدبڑھ گئی، پھراس کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی زمین تنگ کی جارہی ہے، انھیں گرفتارکرکے جیلوں میں ٹھونساجارہاہے، اس سلسلہ میں کوئی رورعایت برتی نہیں جارہی ہے، اسے بھی جیل میں ڈالاجارہاہے، جوحمل سے ہے، اسے بھی جیل میں ٹھونساجارہاہے، جس کے پیرپولیس والوں کے ڈندوں سے ٹوٹ گئے تھے اوروہ معذورہوچکاہے، یعنی ملک کاایک بڑاطبقہ اپنے آپ کوغیرمحفوظ تصورکرنے پرمجبورہے۔
بینک ہویاانسویسٹی گیشن کاشعبہ، فوج ہویاپولیس ، صحافت ہوعدالت، کوئی شعبہ ایسانہیں، جوقابل اطمینان ہو، ہرجگہ بدعنوانی، ہرجگہ بے اطمینانی، حتی کہ ججوں کو بیان دینے کی ضرورت پڑی، بینک منیجر کواستعفی دیناپڑا، سی بی آئی کے ڈائریکٹر کو اپنا عہدہ چھوڑناپڑا، فوج کے عہدہ داروں کوہٹایاگیا، یہ سب چیزیں کس طرف اشارہ کرتی ہیں؟ کیا انتظامی اعتبارسے مضبوط ملک میں ایساہوسکتاہے؟
ڈیفنس کے شعبہ میں بھی افراتفری مچی ہوئی ہے، آئے دن جوانوں کی شہادت کی خبرملتی رہتی ہے، اوران پانچ چھ سالوں میں جتنے جوان شہیدہوئے، اتنے شاید پندرہ سالوں میں بھی نہیں ہوئے ہوں گے، گزشتہ سال پلوامہ حملہ ہواتھا، اسے کوئی بھی بھول نہیں سکتا، کس طرح اڑا دئے گئے؟ اس کے جواب میں حکومت نے جوکیا، وہ کتنا سچ تھا؟ تمام اہل بصیرت اس سے واقف ہیں، ابھی کل ہی چینی فوج نے ۲۰؍ جوانوں کو شہید کردیا، حکومت اس کے جواب میں کیاکرے گی؟ یہ توآنے والاوقت ہی بتائے گا؛ لیکن قیاس یہی ہے کہ پلوامہ کی طرح ہی کوئی کرشمہ سازی کی جائے گی اور بس، جوان ہماری حفاظت کرتے ہیں، ہماری حفاظت کے لئے دھوپ کی تپش کوبرداشت کرتے ہیں، آندھی طوفان کوجھیلتے ہیں، سینوں پرگولیاں کھاتے ہیں، اس کے بدلہ میں ہم انھیں کیادیتے ہیں؟ گزشتہ برسوں میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ انھیں بھی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتاہے، ظاہرہے کہ ان کے ساتھ ایسانہیں ہوناچاہئے،انھیں ہروہ سامان فراہم کرناچاہئے، جوان کی حفاظت کے لئے ضروری ہے؛ لیکن افسوس! کہ اس تعلق سے بھی شکایتیں موصول ہوتی رہی ہیں۔
نیپال بھی آنکھیں دکھارہاہے، اس نے بھی ہندوستان کے دوتین علاقوں کواپنے نقشہ میں شامل کرلیاہے، چین تودباہی رہاہے، اوردباتے دباتے آرمی پرہاتھ بھی صاف کرنے لگاہے، نیپال جیسے ایک جھوٹے ملک کی جراء ت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ملک میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہاہے، اڑوس پڑوس کے لوگ اسی وقت کسی کودبانے کی کوشش کرتے ہیں، جب وہ بھانپ لیتے ہیں کہ بازووالاکمزورہے، طاقت ورکے ساتھ کوئی بھی ایسا نہیں کرتاہے، اڑوس پڑوس والوں کومعلوم ہوچکاہے کہ یہ ملک اندرسے کھوکھلاہے، زبانی دعوے بہت ہیں؛ لیکن حقیقت میں نکمے اورناکام ہیں۔
آپ اس ملک کے شہری ہونے کی حیثیت سے حکومت سے سوال کریں اورپوچھیں کہ ’’یہ کیسی تصویربنادی، تم نے ہندوستان کی‘‘؟یہ سوال آپ کاحق ہے، پوچھیں گے تو جواب دہی کااحساس ہوگا، نہیں پوچھیں گے توجواب دہی کااحساس جاتارہے گا، اس ملک میں یہی ہواہے، اپوزیشن کمزرترین ہے، گزشتہ سالوں میں اس نے سوال ہی نہیں کئے اور کئے بھی توایسے جیسے بچے کرتے ہیں، مضبوطی کے ساتھ پوچھ ہونی چاہئے، یہ جمہوری ملک ہے، یہاں بادشاہت نہیں چلتی، ایک فردکے ووٹ سے اقتدارملتی ہے، لیکن یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اب کی بار، آئی ہے ایسی سرکار،جواب دینے , بل کہ جواب بنانے میں ماہرہے، جولفظوں کاجادو جانتا ہے ، وہ آپ کے ہرسوال کے جواب میں جھوٹ بولے گا اورلاجواب کردے گا۔
لہٰذااب عوام کوسوچنے کی ضرورت ہے کہ جولوگ ملک کی حفاظت نہیں کر سکتے ، جولوگ جوانوں کی حفاظت نہیں کرسکتے، جولوگ اپنے ملک کے باشندوں کو خوشی نہیں دے سکتے، جولوگ ملکی معیشت کوترقی دینے کے بجائے گراتے جارہے ہیں، جولوگ مجرمین کومالائیں پہناکرانھیں جرم پراکساتے ہیں، جولوگ بدکاروں کے ساتھ کھڑے ہوکران کی حوصلہ افزئی کرتے ہیں، جولوگ بیٹیوں کوبچانے کا تونعرہ لگاتے ہیں؛ لیکن انھیں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں، جولوگ غریبوں کاخون چوستے ہیں، جولوگ صرف امیروں کا ساتھ دیتے اوران کی سنتے ہیں، جولوگ ملک کے قابل قدراثاثہ جات کو گروی رکھ رہے ہیں، جن لوگوں کے دوراقتدارمیں نہ عدالت محفوظ ہے، نہ سی بی آئی ، نہ فوج محفوظ ہے، نہ پولیس، جن کے دورمیں مسلسل مہنگائی کی مارپڑتی جارہی ہے، انھیں کے ہاتھوں میں کب تک ملک کی باگ ڈوردے کررکھیں گے؟
jamiljh04@gmail.com / Mob:8292017888