آئینۂ دکن

اقلیتوں کو خوش رکھے بغیر ملک کی ترقی ناممکن!‘ کے ایم عارف الدین کا تعزیتی جلسہ

حیدرآباد۔ 20دسمبر (پریس نوٹ) اقلیتوں کو خوش رکھے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ بی جے پی حکومت کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہئے۔ نظام کی جب حکومت تھی تب انہوں نے اسی اصول کو اپنایا کہ ایک مسلم حکمران کی غیر مسلم رعایا کو جب تک خوش نہ رکھا گیا اس وقت تک ریاست حیدرآباد میں امن و امان کی برقراری ممکن نہیں۔ ان خیالات کا اظہار تلنگانہ فریڈم فائٹر ڈاکٹر چیرنجیوی نے کیا۔ وہ 20 دسمبر کی صبح جناب کے ایم عارف الدین بانی مدینہ تعلیمی اداروں کے تعزیتی جلسہ سے مخاطب تھے۔ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عامر اللہ خان نے صدارت کی۔ ریٹائرڈ جسٹس وامن رائو‘ غلام یزدانی ایڈوکیٹ‘ پروفیسر احمد اللہ خان‘ آصف پاشاہ سابق وزیر‘ عزیز پاشاہ سابق رکن پارلیمنٹ‘ حامد محمد خان امیر جماعت اسلامی‘ جسٹس ای اسمعیل‘ مفتی صادق محی الدین شہ نشین پر موجود تھے جبکہ شہر کی ممتاز و معروف شخصیات اس تعزیتی محفل میں شریک تھیں جن میں ڈاکٹر فخر الدین محمد‘ خواجہ ناصر الدین‘ محترمہ تسنیم جوہر‘ مصطفیٰ علی سروری‘ ڈاکٹر محمد صفی اللہ‘ ایم ایس فاروق‘ افتخار حسین فیض عام ٹرسٹ‘ محمد اظہر الدین جماعت اسلامی‘ ڈاکٹر انور خان‘ حمید الظفر‘ ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز‘ ایم اے حمید ماہر تعلیم‘ نعیم اللہ شریف قابل ذکر ہیں۔
ڈاکٹر چیرنجیوی نے کے ایم عارف الدین کو سیکولر کردار کا بہترین نمونہ قراردیا اور کہا کہ ان کے حلقۂ احباب میں اور تعلیمی اداروں کے اسٹاف میں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود تھے۔ وہ کشادہ ذہنیت‘ وسیع القلب دوراندیش انسان تھے۔ ملک کے بدلتے ہوئے حالات پر فکر مند اور رنجیدہ رہا کرتے تھے۔ انہوں نے کے ایم عارف الدین صاحب کے حیات اور خدمات پر عنقریب ایک کتاب شائع کرنے کا اعلان کیا۔ ریٹائرڈ جسٹس بامن رائو نے مرحوم عارف الدین کی فردشناسی کو خراج عقیدت پیش کیا اور بتایا کہ کس طرح سے اپنے جواںسال بیٹے کی تدفین کے بعد بھی وہ اپنے دفتر گئے تھے۔ انہوں نے عارف صاحب سے 35 سالہ وابستگی کے واقعات بیان کئے۔ مولانا حامد محمد خان نے جناب عارف الدین مرحوم کی علیحدہ ریاست تلنگانہ کی تحریک کا ایک اہم سپاہی قرار دیا جنہوں نے 1969ء کی تحریک میں بھی بڑھ چڑھ کا حصہ لیا تھا۔ 9 دسمبر 2009ء کو تلنگانہ مسلم فورم تشکیل دی گئی تھی جس کے عارف صاحب کنوینر اور خود حامد محمد خان معاون کنوینر تھے۔ اس فورم نے چارمینار کے دامن میں تاریخ ساز دھرنا دیا تھا اور یہیں سے علیحدہ تلنگانہ ریاست کا خواب حقیقت میں بدلا۔ جناب عزیز پاشاہ نے جو کے ایم عارف الدین کے عثمانیہ یونیورسٹی کے ساتھی رہے‘ تلنگانہ تحریک اور اردو کی تحریکات میں ساتھ ساتھ حصہ لیا‘ کہا کہ عارف صاحب کی قیادت میں اردو تحریک کامیابی سے چلائی گئی اور 1968ء میں اسمبلی چلو کی ریالی کی آج تک نظیر نہیں ملتی۔ جناب آصف پاشاہ نے قوم و ملت کے لئے عارف الدین کے دردمند دل اور ان کی فکر پر روشنی ڈالی۔ پروفیسر احمد اللہ خان سابق ڈین عثمانیہ یونیورسٹی لاء کالج نے کہا کہ کے ایم عارف الدین کی خدمات کا احاطہ کسی ایک جلسہ میں نہیں کیا جاسکتا۔ وہ گفتار کے غازی نہیں تھے بلکہ عملی پیہم کی زندہ تصویر تھے۔ انہوں نے لائبریریز کے قیام کی تحریک چلائی اور جس کسی نے لائبریری قائم کی اسے دس ہزار کی امداد دی۔ مسلم نوجوانوں کو سیول سرویسس کے مسابقتی امتحانات میں شرکت کی ترغیب دینے کے لئے ان کی تحریک کے بہترین نتائج نکلے۔ خود ان کے مرحوم فرنزد کے ایم رضی الدین ان کے بوئے ہوئے درخت کا پھل تھے۔ کے ایم رضی الدین محض ایک فرد کا نام نہیں تھا بلکہ یہ سیول سرویسز کی تحریک کی علامت تھے۔ ڈاکٹر انور خان سابق پرنسپال انوار العلوم کالج نے کہا کہ کردار سازی اور شخصیت سازی پر مرحوم ہمیشہ زور دیا کرتے۔ جناب ضیاء الدین نیر نے کہا کہ مدینہ تعلیمی اداروں بالخصوص نہرو آڈیٹوریم اور مدینہ ایجوکیشن سنٹر کو انہوں نے تہذیبی ‘ ادبی‘ ثقافتی سرگرمیوں کا گہوارہ بنایا۔ ہر مشہور و معروف شخصیت کو انہوں نے مدعو کیا۔ ہونہار طلبہ کو تہنیت اور گولڈ میڈل پیش کئے۔ وہ صبر و ضبط و تحمل کے پیکر تھے۔ ڈاکٹر اسلام الدین مجاہد نے تجویز پیش کی کہ سیول سرویسس سنٹر عارف صاحب کے نام سے موسوم کیا جائے اور ان کے نام سے ایک فائونڈیشن بھی قائم کیا جائے۔ تسنیم جوہر جو مرحوم عارف الدین کی سمدھن ہیں‘ کہا کہ نفاست اور شائستگی کی وہ ایک بہترین مثال تھے۔ ڈاکٹر سیادت علی‘ ایس کے افضل الدین جنرل سکریٹری پردیش کانگریس کمیٹی ‘ غلام یزدانی ایڈوکیٹ نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر جناب کے ایم عارف الدین کے تحریر کردہ مدینہ تعلیمی اداروں کے جدوجہد سے بھرپور 40 سالہ سفر کی داستان کی رسم اجراء عمل میں آئی۔ ماریہ تبسم‘ کے ایم فصیح الدین‘ کے ایم منہاج الدین کے علاوہ کے ایم رضی الدین مرحوم کے فرزند فیض الدین اور صاحبزادی سماء مریم بھی اس موقع پر موجود تھے۔ ڈاکٹر عامر اللہ خان نے متاثر کن انداز میں نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ مفتی صادق محی الدین کی رقت انگیز دعا پر پرورام کا اختتام ہوا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×