حیدرآباد و اطراف
شہر حیدرآباد کے معزز علماء کا مشاورتی اجلاس‘ مدارسِ اسلامیہ سے متعلق اہم تجاویز کی منظوری
حیدرآباد: 20؍ جون( راست) مولانا جمال الرحمن مفتاحی(صدر دینی مدارس بورڈ)مولانا خالد سیف اللہ رحمانی (جنرل سکریٹری دینی مدارس بورڈ) جناب محمد رحیم الدین انصاری (ناظم دارالعلوم حیدرآباد) مفتی غیاث الدین رحمانی (مہتمم دارالعلوم رحمانیہ) مفتی عبدالمغنی مظاہری (ناظم مدرسہ سبیل الفلاح) مولانا عبدالقوی صاحب (ناظم ادارہ اشرف العلوم) مولانا محمد نعمان بدر ندوی قاسمی (دارالعلوم سبیل السلام) مولانا معراج الدین ابرار (جامعہ انوار الہدیٰ) جناب مولانا حافط محمد غوث رشیدی (ناظم مدرسہ تجوید القرآن) جناب میر مقبول علی ہاشمی ومولانا محمد انس مسعودی (جامعہ عائشہ نسوان) ،مولانا محمد بانعیم مظاہری (نائب ناظم مجلس علمیہ) جناب حامد محمد خان اور جناب محمد اظہر صاحب (جماعت اسلامی تلنگانہ) نے اپنے مشترکہ بیان میں اپیل کی ہے کہ:
۱۔ حکومت جب تعلیمی اداروں کو کھولنے کی اجازت دے، اس کے بعد ہی مدارس کھولے جائیں، اور اس کے بعد بھی وبائی مرض کے پس منظر میں حکومت کی مقررہ گائڈ لائن کی پوری رعایت کی جائے۔
۲۔ لاک ڈاؤن میں اگرچہ مدارس میں تعلیم نہیں ہو سکی، اور ابھی بھی نہیں ہو رہی ہے؛ لیکن چوں کہ اساتذہ وعملہ مدرسہ کے مستقل ملازم ہیں اور انھوں نے اپنے آپ کو مدرسہ کی خدمت کا پابند رکھا ہے؛ اس لئے انہیں ان ایام میں بھی تنخواہیں دینی چاہئیں، ان مشکل حالات میں ان کو حق المحنت سے محروم کر دینا شرعاََ اور اخلاقاََ مناسب نہیں ہے۔
۳۔ چوں کہ رمضان المبارک کا مہینہ ہی مدارس کے لئے آمدنی کا زمانہ ہوتا ہے؛ اورا س زمانہ میں لاک ڈاؤن کی صورت حال نے مدارس کو سخت مالی دشواریوں سے دو چار کر دیا ہے؛ لہٰذا مدارس کوشش تو کریں پوری تنخواہ ادا کرنے کی؛ لیکن اگر مالی حالات اس کے لئے سازگار نہ ہوں تو کم سے کم نصف تنخواہ اساتذہ وعملہ کو ضرور ہی ادا کی جائے،نیز جو اساتذہ مالی اعتبار سے خود مکتفی ہیں، وہ اگر اپنی مرضی سے ان ایام کی تنخواہ سے دست بردار ہو جائیں تو ان کو ایسا کرنا چاہئے، یہ یقیناََ ان کے لئے باعث اجرو ثواب ہوگا۔
۴۔ ادارہ نصف تنخواہ ادا کرے یا مکمل ؛ مگر موجودہ حالات میں تمام مدارس بر وقت تنخواہ ادا کرنے کے موقف میں نہیں ہیں؛ اس لئے اساتذہ وعملہ اس کا لحاظ رکھیں اور مدرسہ کے مالی حالات کے تحت جو بھی دیر سویر ہو، اسے بخوشی قبول کریں، نیز خود ان کا بھی فریضہ ہے کہ مدرسہ کے مالی استحکام کے لئے پورے خلوص اور محنت سے کام کریں۔
۵۔ موجودہ دورمیں دینی مدارس مسلمانوں کے ایمان کے بقاء کا ذریعہ ہیں، یہیں سے مساجد کو ائمہ وخطباء، دینی مدارس کو علوم اسلامیہ کے ماہر اساتذہ، عصری درسگاہوں کو بنیادی دینی تعلیم دینے والے مدرسین، شرعی رہنمائی کے لئے مفتیان کرام، سماجی نزاعات کو حل کرنے کے لئے قضاۃ، اسلام کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے با صلاحیت علماء ، دین کی صحیح تشریح کرنے والے مصنفین، اخبارات کو اسلامی کالم نویس، جماعتوں اور تنظیموں کو رہنما، غرض دین وملت کے ہر شعبہ کے لئے قرآن وحدیث سے واقف اور دینی حمیت سے معمور افراد مہیا ہوتے ہیں؛ اس لئے مدارس کا تحفظ پوری امت کا فریضہ ہے، یہ ادارے زیادہ تر رمضان المبارک میں زکوٰۃ، صدقات اور عطیات کی حاصل ہونے والی اعانتوں سے چلتے ہیں، اس سال لاک ڈاؤن کی وجہ سے نہ شہر میں پہلے کی طرح تعاون کی رقمیں وصول ہوئیں اور نہ مدارس کے خدام اس مقصد کے لئے شہر سے باہر سفر کر سکے، جس کی وجہ سے اس وقت مدارس سخت مالی مشکلات سے گذر رہے ہیں؛ اس لئے تمام اہل خیر سے اپیل کی جاتی ہے کہ ملت کے اس اہم اثاثہ کو بچانے کے لئے مدارس کا خصوصی تعاون فرمائیں، اور اس کو اپنا ملی فریضہ تصور کریں۔