قبرستانوں میں تدفین کی عام اجازت دی جائے
حیدرآباد: 31؍مئی (عصر حاضر) شہر میں مسلم میت کی قبرستان کے بجائے شمشان گھاٹ میں تدفین کے پیش آئے واقعہ کی ہر جانب سے مذمت کی جارہی ہے اور اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، مسلمانوں کی کثیر آبادی اور گنبد ومینار سے مشہور شہر حیدرآباد میں ایسے دل خراش واقعہ کا پیش آنا، مسلمانوں کے سروں کو شرم سے جھکانے کے لیے کافی ہے ؛ بلکہ یہ واقعہ غیر ت ایمانی وحمیت اسلامی کے بھی منافی ہے، مولانا مفتی سید ابراہیم حسامی ؔ(ناظم مدرسہ تعلیم القرآن بورا بنڈہ) نے مطالبہ کیا کہ جن متولیوں نے تدفین کی اجازت نہیں دی،تحقیق کے بعد انہیں فوری برطرف کیا جائے نیز ان پر قانونی کاروائی بھی کی جائے،مولانا نے کہا کہ قبرستانوں کے متولی و صدور قبرستانوں پر اپنی اجارہ داری چلاتے ہیں، شہر میں کئی ایسے قبرستان ہیں جہاں تدفین کے لیے ہزاروں میں رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے ، اگر قبرستان مشہورہو یا وہاںپر کوئی ناموربزرگ ہستی مدفون ہوتو پھرمنھ بولی رقم کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے، جب کہ شہر کے 98%فیصد قبرستان وقف کی جائیداد ہیں، اس کے باوجود بھی تدفین کی عام اجازت کا نہ ہونا یہ وقف بورڈ کی لاپرواہی کی بین دلیل ہے، مولانا نے مزید کہا کہ شہر کے اکثر قبرستان ناجائز قبضوں کا شکار ہوچکے ہیں، جس کی بنا پر بڑے بڑے قبرستان بھی اب بہت چھوٹے ہو چکے ہیں، ان قبضہ کرنے والوں اور تدفین کے موقع پر رقم کا مطالبہ کرنے والوں پر کوئی نہ روک لگانے تیار ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی اٹھانے تیار ہے،مولانا نے جناب سید سلیم صاحب چیرمین وقف بورڈ کے زبانی دئیے گئے فیصلہ اور بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ جناب سید سلیم صاحب کا یہ اقدام قابل قدر ہے؛ مگر اس پر عمل آوری انتہائی ناگزیر ہے، وقف بورڈ کے ذمہ داروں سے مولانا نے گزارش کی ہے کہ ایک جی او وزیر اعلیٰ کی دستخط کے ساتھ پاس کریں اور اس کو قانونی دستاویز کی حیثیت سے تمام قبرستانوں کے متولیان اور صدور کے سپرد کریں،تمام قبرستانوں پر حکومت کی جانب سے مسلم اموات کی عام تدفین کی اجازت کا ایک بورڈ نصب کیا جائے، اسی طرح شہر کے تمام قبرستانوں کے متولیان وصدور کی ایک ہنگامی میٹنگ بلائی جائے اور انہیں ایسی ناروا حرکات پر متنبہ کرایا جائے اور انہیں اس کا پابند بنایا جائے کہ وہ کسی بھی مسلم میت کی تدفین سے انکار نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی سے کوئی رقم کا مطالبہ کریں گے، مفتی صاحب نے مزید کہا کہ قبرستانوں کی صفائی بھی ایک قابل توجہ امر ہے، متولیان کی اس جانب بھی سختی کے ساتھ توجہ مرکوز کروائی جائے، پختہ قبر بنانے پر روک لگائی جائے، تاکہ آئندہ کسی کو جگہ کی تنگی کی شکایت نہ ہوسکے؛ اگر تدفین کے موقع پر رقم وصول نہ کی جائے تو پختہ قبریں بنانے پر آسانی سے پابندی لگائی جاسکتی ہے ، قبرستانوں پر صفائی کے عملہ کوباتنخواہ مقرر کیا جائے، ان کی تنخواہ وقف بورڈ مقرر کرے یا عوامی چندے سے دی جائے، اسی طرح قبرکھودنے والے ، کفن بیچنے والے اور غسّال حضرات بھی من مانی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں، ان چیزوں کی واجبی رقم مقرر کی جائے اور اخبارات کے ذریعہ اس کی اطلاع دی جائے، مولانا نے مزید کہا کہ جوا کھیلنے، شراب پینے، پتنگ بازی کرنے اور تمام مخرب اخلاق حرکتوں سے قبرستانوں کو پاک رکھا جائے اور پکڑے جانے پر سخت کاروائی کی جائے، مولانا نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ جو لوگ صاحب ثروت وحیثیت ہیں، وہ مساجد و مدارس کی تعمیر کے ساتھ ساتھ قبرستانوں کے لیے جگہ وقف کرنے کے سلسلہ میں غور کریں، مسلمانوں کی کثیر آبادی والے محلہ میں ایک ڈھنگ کاایک قبرستان موجود نہیں ہے۔