آئینۂ دکن

مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری اپنے ہی مذہب سے دوری اور علومِ اسلامی سے ناواقفیت ہے

اپنی اولاد کو دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنا وقت کی اہم ضرورت:مولانا غیاث احمد رشادی

حیدرآباد: 17؍مئی (پریس ریلیز) پچھلے چند سالوں سے مسلسل شریعت اسلامی پر نئے نئے طریقوں سے حملے اور حضرت محمد رسول اللہﷺ کی ذاتِ عالی کا تقدس پامال کرکے مسلمانوں کی غیرتِ ایمانی اور جذبۂ مسلمانی کو کمزور کیا جارہا ہے۔ ایسے ایسے مسائل کو زیر بحث لایا جارہا ہے جس سے عام مسلمان ہی اپنے دین میں خامی و کجی محسوس کررہا ہے۔ اس وقت مسلمانوں کو جہاں کئی قسم کے چیلنجس کا سامنا ہے وہیں دینِ اسلام سے دوری، میڈیا پر شریعت مطہرہ کو لیکر کیے جانے والے نہایت نازیبا چرچے اور ملک کے طول و عرض سے نمودار ہونے والے نت نئے فتنوں کا سامنا ہے۔ کوئی عیسی مسیح ہونے کا دعوی کررہا ہے تو کوئی شرکیہ اعمال کے ذریعہ علاج کرکے مسلمانوں کے اندر سے ایمان کو سلب کررہا ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ ان سب حربوں کا شکار مسلمان ہی بآسانی ہورہا ہے، جس کی بنیادی وجہ دین بیزاری اور دینی تعلیم سے کلی طور پر ناواقفیت ہے۔ ان خیالات کا اظہار مولانا غیاث احمد رشادی صدر صفا بیت المال انڈیا و بانی و مینیجنگ ٹرسٹی منبر و محراب فاؤنڈیشن انڈیا نے اپنے صحافتی بیان میں کیا ہے۔ مولانا نے کہا کہ اس وقت مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری اپنے ہی مذہب سے دوری اور علومِ اسلامی سے ناواقفیت ہے۔ جس کی وجہ سے مسلمان بہ حیثیت مسلمان باقی رہنا دشوا رہوگیا ہے۔ موجودہ معاشرہ دینی علوم سے اس قدر دور ہوگیا ہے کہ ڈاکٹر، انجینیر اور دیگر بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرلینے کے باوجود انہیں کلمہ طیبہ و کلمۂ شہادت تک کا علم نہیں ہے، غسل کے فرائض سے ناواقف ہے، نماز کی رکعتیں تو بہت دور کی بات ہے نماز کے ناموں سے تک نا بلد ہے۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دینی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دیں اپنے گھر سے کم از کم ایک لڑکے یا لڑکی کو حافظِ قرآن اور مکمل عالمِ دین بنائیں اور اپنے بچوں کو مکاتب و تعلیم بالغان کے ذریعہ دین کی بنیادی تعلیم حاصل کروائیں۔بہ حیثیت مسلمان ہر مرد و عورت کو چاہیے کہ وہ کم از کم دین کا اتنا علم حاصل کرلیں کہ وہ حلال وحرام میں تمیز کرسکیںاور اپنی عبادتوں کو صحیح طرح سے انجام دے سکیں۔ مولانا غیاث رشادی نے کہا کہ اس وقت نوجوان نسل نئے نئے فتنوں کا شکار ہورہی ہے،دینی علوم اور اسلامی عقائد سے نا آشنا والدین بھی اسی کو دین سمجھ رہے ہیں اور محض ایک فرد کی وجہ سے خاندان کے خاندان ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھ رہے ہیں۔ ان فتنوں کو پہچاننے اور سمجھنے کے لیے اُمت کا علماء سے مربوط رہنا ضروری ہے تاکہ حق و باطل کا فرق ہمیں سمجھ میں آئے۔ مولانا نے کہا کہ اس وقت دینی مدارس میں داخلوں کا آغاز ہوچکا ہے ،اپنے بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کے لیے مستند مدارس کا انتخاب کریں اور بچوں کو داخلہ دلواکر دینی علوم سے آراستہ کروائیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×