آئینۂ دکن

تلنگانہ پولیس کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کی اجازت نہ ملنے پر محمد عرفان کا انوکھا احتجاج

حیدرآباد: 9؍فروری (عصر حاضر) تلنگانہ پولیس کی جانب سے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی اجازت نہ ملنے پر مظاہرین میں سخت مایوسی پیدا ہورہی ہے‘ حالانکہ وزیر اعلی کے سی آر نے بھی اس بل کی مخالفت میں ایوان میں قرارداد منظور کرنے باضابطہ اعلان کیا ہے جب کہ ریاستی وزیر اعلی بھی اس کی مخالفت میں بل منظور کرنے والے ہیں تو پھر مختلف تنظیموں اور جماعتوں کی جانب سے احتجاجی پروگراموں کی اجازت نہ ملنے پر پولیس کے مشکوک رویہ واضح ہورہا ہے اس کے پس پردہ عوام ریاستی حکومت کے اعلانات کو بھی شک کی نگاہوں سے دیکھنے لگی ہے‘ شہر حیدرآباد میں تا حال کئی احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا گیا لیکن اس کو منعقد نہیں کیا گیا جس کی بنیادی وجہ محکمہ پولیس کی عدم اجازت ہے۔ اسی بنیاد پر شہر کی مرد و خواتین ہر دن دو دن میں شہر کے مختلف حصوں میں فلیش پروٹیسٹ کرتے نظر آرہے ہیں اور پولیس انہیں گرفتار کرکے چند گھنٹے اسٹیشن میں مقفل کرکے پھر انہیں رہا کررہی ہے۔ شہر حیدرآباد کی عوام پولیس کے اس ناروا حرکت سے سخت نالاں ہیں اگر کسی تنظیم کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کیے جاتے ہیں تو تلنگانہ پولیس احتجا جیوں کے خلاف کارروائی کررہی ہے۔ تاہم جمہوریت میں عوام کو اپنی ناراضگی کا اظہارکرنے کی پوری آزادی ہے۔ حیدرآباد میں ایک جہد کار نے اپنے ہی دم پر تلنگانہ پولیس اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف انوکھا احتجاج درج کروایا ہے۔

ہاتھ میں نو سی اے اے نو این آر سی اور نو این پی آر (NO CAA NO NRC NO NPR)لکھے پلا کارڈ اور ساتھ میں ترنگا تھامے محمد عرفان کو حکومت تلنگانہ اور خاص طور پر محکمہ پولیس سے شکایت ہے ان کا سوال ہے ریاست تلنگانہ میں سی اے اے اور ین آر سی کے خلاف پر امن احتجاج کی اجازت کیوں نہیں ملتی ؟ ۔حال ہی میں مختلف تنظیموں کی جانب سے شہرت قانون کے خلاف احتجاج کی زیادہ تر درخواستوں کو پولیس نے مسترد کر دیا۔ محکمہ پولیس کے رویہ کے خلاف عرفان نے گنبدان قطب شاہی سے گن پارک تک اکیلے ہی مارچ کا ا رادہ کیا۔
محمد عرفان قادری کا ماننا ہے کہ جمہوری طریقہ سے پرامن احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے جبکہ حیدرآباد پولیس شہریان حیدرآباد کو سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کی اجا زت نہ دے کر انکے حقوق سلب کر رہی ہے جب محمد عرفان اکیلے ہی پیدل چلتے ہوئے احتجاج کررہے تھے تو انکے اس مارچ کے دوران پولیس نے انھیں دوجگہ روکنے کی کوشش کی لیکن عرفان نے اپنا ارادہ نہیں بدلا لیکن محمد عرفان نے پولیس سے یہی سوال کیا کہ کیا ترنگا لے کر پیدل چلنے پر پابندی ہے؟
اسکے باوجود مقامی پولیس کے جوانوں نے انہیں روک کر واپس بھیجنے کی کوشش کی۔ پولیس کی مزاحمت کے باوجود محمد عرفان نے نا مپلی کے علاقہ میں اسمبلی کے روبرو گن پارک تک اپنا مارچ جاری رکھا اور یہ پیام دینے کی کوشش کی کہ جمہوری طریقہ سے اپنا احتجاج درج کروانے کیلئے ایک شخص بھی کافی ہوتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×