سیاسی و سماجی
جمہوریت یا تاناشاہی
اس ملک کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں کے تمام ہی باشندگان کو اپنے اپنے مذہب اوردھرم کو فالوکرتے ہوئے اپنی اپنی مذہبی شناخت وتعلیمات پر عمل آوری کرتے ہوئے باہمی ملنساری ایک دوسرے کے جذبات ومذاہب کا خیال رکھتے ہو ئے امن وامان اور شانتی کے ساتھ زندگی گذاریں جس کو آج سے 72/ سال پہلے ہی ملک کی دستورساز کمیٹی نے لکھ کر نافذ اورجاری بھی کردیا اسی وجہ سے اس کو جمہوری ملک کہا جاتا ہے
لیکن
مشاہدہ یہ بتلارہا ہیکہ جمہوری ملک کا جونظام ہے اور جن بنیادوں پر جمہوریت قائم ہے ان تمام بنیادوں کو آج کچھ لوگ اپنی عددی اکثریت کافائدہ اٹھاکر تسلط اورجبر کا استعمال کرکے ایک ذہنیت کے لوگ اس پر قابض ہونا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے ملک کی گنگا جمنی تہذیب اور جمہوریت کو یقینا خطرہ محسوس کیا جارہا ہے
ہماری اپنی معلومات کےمطابق اس ملک کا نظام چاربنیادوں پر قائم ہے
(1)مالیہ
(2)عدلیہ
(3)انتظامیہ
(4)میڈیا
جہاں تک مالیہ کا مسئلہ ہے اس میں آ ئے دن دھاندلیاں بے اعتدالیاں من مانی اور لوٹ کھسوٹ بڑھتی ہی جارہی ہے اورہمارا ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا جارہا ہے جس پر ملک کے حکمرانوں کا کوی کنٹرول باقی نہیں رہایوں ملک کا مالیہ ختم ہوتا جارہا ہے
رہی بات عدلیہ کی تو حالیہ کئ ایک مقدمات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ عوام الناس کہاں تک اس عدلیہ پر فیصلوں پر اعتماد رکھتی ہے اور کیا ان کا نظریہ قائم ہوا ہے اس کو پوری دنیا جان چکی ہے خواہ وہ مسئلہ بابری مسجد ورام مندر کا ہو یا بے قصور لوگوں کو جیلوں میں ڈالنے اور قصورواروں کے کھلے عام گھومنے کا ہوں این آر سی کامعاملہ ہوں یا کسانوں کے مسائل کا
بہرحال یوں لگتا ہے کہ
اس ملک کے باشندگان کا سپریم کورٹ پر سے بھی آج اعتماد ختم ہو رہا ہے
بات کر تے ہیں اب انتظامیہ کی تو اس حوالہ سے بس گذشتہ دوتین سال میں محکمہ پولیس کی جانب سے ہونے والے ظلم وجبر اور یک طرفہ کارروائیوں کی داستان خود بتادے گی کہ انتظامیہ پر کس کا قبضہ اور تسلط ہورہا ہے اور یہ محکمہ کتنی ایمانداری اور شفافیت سے اپنے فرائض منصبی کو ادا کررہا ہے منھ بولتی تصویریں اور مارپیٹ کی ویڈیوز جو دیکھنے کومل رہی ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انتظامی امور اس ملک کے کہاں تک جمہوریت کی عکاسی کرتے ہیں
رہ جاتی ہے بات اب میڈیا کی جو چوتھا ستون کہلاتا ہے لیکن وہ بھی آج ایک خاص ذہنیت کے حامل افراد کا زر خرید غلام بن کر کام کررہا ہے جس کی دسیوں مثالیں عالمی منظر نامہ پہ دیکھی جارہی ہیں خواہ وہ الکٹرانک وپرنٹ میڈیا ہو یا سوشل میڈیا بہرحال وہ سب کے سب اپنے آقاؤوں کی چاپلوسی اور مالداروں کے اشارہ پر کام کرناہی اپنا مشغلہ بنا چکے ہیں
موجودہ حالات کو دیکھتے ہو ئے تو یہی سمجھا جاسکتا ہے کہ اس ملک کی جمہوریت کی جب بنیادیں ہی مضبوط نہیں ہیں اور سب اپنے اپنے مفاد کے لیے کام کررہے تو پھر مفاد عامہ اور باشندگان ملک کے مسائل کدھر جائیں گے کون ان کو حل کرے گا ایسا لگ رہا اور یقینا ایسا ہی ہے کہ اس ملک میں فقط تانا شاہی اور آمریت کام کررہی ہے جمہوریت نہیں …..
لہذا اب ملک کے ہر باشندہ خواہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا ہوں اس کو آگے آکر جمہوریت کا تحفظ کرنا لازم ہوچکا ہے جس طرح سب نے مل کر اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرایا اور اپنا خون پسینہ بہاکر غلامی سے نجات دلای آج پھر وقت آچکا ہے کہ اس ملک کی حفاظت کی جائے اور فرقہ پرستوں سے اس ملک کے دستور اور جمہوریت کا تحفظ کیا جائے
احمدعلی