آئینۂ دکن

تین طلاق بل کے خلاف تقریبا تین کروڑ خواتین کی جمہوری انداز میں بھرپور مخالفت کو بھی حکومت نے نظر انداز کردیا

حیدرآباد: 31؍جولائی (عصر حاضر) آج طلاقِ ثلاثہ بل کے خلاف جد و جہد کرنے والی وہ خواتین جنہوں نے جمہوری طریقہ پر احتجاجی مظاہرہ کیا ہے اور انتھک کاوشیں کی ہیں یقینا انہیں افسوس ہورہا ہوگا اور وہ اپنی کوششوں پر پانی پھیر دئیے جانے کا غم منارہی ہوگی لیکن یاد رکھیں آپ کی یہ جد وجہد محض رضائے الہی کے لیے تھی آخرت کی فلاح و بہبود کے لیے تھی آپ اس سے ہر گز مایوس نہ ہوں الله رب العزت آپ کو اس کا بہترین اجر دے گا۔

ویمنس وینگ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی انچارج ڈاکٹر اسماء زہرہ صاحبہ نے کہا کہ یہ بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ آج راجیہ سبھا میں تین طلاق بل منظور کرلیا گیا‘ در حقیقت یہ بل دستور میں دئیے گئے اقلیتوں کے حقوق کے خلاف ہے‘ یہ بل مسلمان عورتوں کے خلاف ہے ‘ یہ بل مسلمانوں کے گھروں کو برباد کرنے والا بل ہے‘ بچوں کے روشن مستقبل کو تاریک کرنے والا بل ہے‘ یہ بل مسلم شوہروں کو جیل بھیجنے کا بل ہے‘ سماج کو تباہ کردینے والا بل ہے‘ اس بل کی مخالفت میں مسلم سماج کی خواتین نے بہت جد و جہد کی ہے‘ اس بل کے خلاف دو کروڑ پچھتر لاکھ دستخطیں خواتین نے ویمنس لاء کمیشن کے حوالہ کیں تھیں‘  اور ہیومن رائٹس کو بھی ارسال کی گئی تھی تاکہ وہ یہ جان لیں کہ مسلم عورتیں اپنے پرسنل لاء میں خوش ہے اس کو قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے‘ یہ بل کا مسودہ بحث کے لیے آیا تو  خواتین دو کروڑ کی تعداد میں پورے ملک میں اپنا احتجاجی مظاہرہ کیا‘ کلکٹرس کو میمورنڈم پیش کیے گئے اور جمہوری ہر طریقہ اپنایا گیا تا کہ یہ بل کو روکا جاسکے۔ اور اس کا مقصد اربابِ اقتدار کو اس بل کی خامیاں بتانا مقصد تھا۔ انہوں نے کہا  ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ بل کا مسلم خواتین کے امپاورمنٹ سے کوئی تعلق نہیں اور یہ بل راست شریعت اور مسلم پرسنل لاء میں مداخلت ہے اور یہ بل کی منظوری ملک میں دی گئی آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے‘ مسلم خواتین اپنی شریعت کو اپنے دل و جان سے زیادہ اہم سمجھتی ہیں۔ لاء کمیشن سے بار بار یہ سوال کیا گیا کہ مردوں کو جیل بھیجنے کے بعد گھر کے اخراجات کون دے گا تو اس پر کوئی جواب نہیں ملا۔ اس بل کی مخالفت میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ساتھ ہندوستان بھر میں موجود جماعتوں اور تنظیموں نے بھر پور مخالفت درج کی‘ اس کو روکنے کی ممکنہ کوشش کی۔

میں مسلم خواتین سے کہنا چاہتی ہوں کہ جب جبراً اس طرح کے قانون ہم پر مسلط کئے جاتے ہیں تو ہم لوگ اس سے بالکل پریشان نہ ہوں کوشش اس بات کی کریں کہ ہم اپنے گھروں میں علاقوں میں تحفظ شریعت واصلاحِ معاشرہ کو کس طرح مضبوط سے مضبوط ترین کرسکتے ہیں کرتے رہیں۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×