مساكين وغرباءکیامدادمیں کیمرےکا استعمال
لگتا ہے کہ سوچ کا پیمانہ بدل گیا ہے، خلوص نے ریاکاری سے سمجھوتہ کر لیا ہے، امداد کے نام پر تذلیل، تعاون کے نام پر توہین ہونے لگی ہے، مطلب یہ کہ اگر آپ غریب ہیں اور زکاۃ وصدقات و خیرات اور تعاون کے محتاج ہیں تو پھر اپنی بیچارگی کو کیمرے میں قید کرواکر یہ دلیل دینی پڑے گی کہ آپ حقیقی طور پر مسکین ہیں.
محترم قارئین: جو مساکین وفقراء ہمارے تعاون کے محتاج ہوتے ہیں وہ غیر نہیں ہوتے، بلکہ اللہ رب العالمين نے ان سے ہمارا رشتہ یوں باندھا ہے "انما المؤمنون اخوۃ” ایک مؤمن کا دوسرے مؤمن کے ساتھ رشتہ سگے بھائی سے بھی گہرا ہوتا ہے، بلکہ رحمت للعالمين صلی اللہ علیہ و سلم نے تو دنیا کے تمام مؤمن کو ایک ہی جسم قرار دیا ہے، پھر کوئی کیسے یہ برداشت کر سکتا ہے کہ اس کے جسمانی اعضاء کی تذلیل کی جائے، اور اس کی عزت نفس کو اخبارو کے صفحات پر بیچا جائے؟ .
تعاون کرکے تصویر لینے والے اور پھر اسے اخبار کی یا سوشل میڈیا کی زینت بنانے والے یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ وہ زکوۃ نکال کر اللہ پر یا اس غریب پر احسان نہیں کر رہے ہیں، بلکہ اللہ نے انہیں جو مال عطا کیا ہے اس میں غریب کا حق ہے، اگر یہ حق انہوں نے بخوشی ادا نہیں کیا تو اسلامی حکومت زبردستی غریبوں کا حق ان سے لے گی، کیا کسی کو اس کا حق دینا احسان ہوتا ہے؟
اللہ رب العالمین نے فرمایا: ﴿کلا بَل لا تُكرِمونَ اليَتيمَ﴾ بلکہ تم لوگ یتیموں کی عزت نہیں کرتے.
[الفجر: ١٧]
محتاج ومساکین اور ضرورتمندوں کی عزت کرنا ایمان کا بنیادی تقاضا ہے، شرعا اور اخلاقا ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم ان کی عزت نفس کا سودا کریں.
اللہ رب العالمين نے فرمایا: ﴿قَولٌ مَعروفٌ وَمَغفِرَةٌ خَيرٌ مِن صَدَقَةٍ يَتبَعُها أَذًى وَاللَّهُ﴾
[البقرة: ٢٦٣]
آیت کا مفہوم: محبت بھری بہترین گفتگو اور اپنے مسلمان بھائی کیلئے دعائے مغفرت کرنا اس صدقے سے بہتر ہے جس سے تکلیف ہوتی ہو.
امام طبری رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ: بہترین بات اور اپنے مسلمان بھائی کیلئے دعاء کرنا، نیز اس کی محتاجی، بد حالی اور فقر وفاقہ پر پردہ ڈالنا اللہ کے نزدیک اس صدقہ سے بدرجہا بہتر ہے جس کے سبب مساکین کو تکلیف پہنچے(1).
تعاون کرتے ہوئے فقراء ومساکین کی بلا وجہ تصویر کشی زکاۃ دینے والے کے اخلاص وللہیت پر سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے.
اللہ رب العالمین نے فرمایا: ( إِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ ) [البقرة : 271]
اگر تم صدقات کی تقسیم علانیہ کرتے ہو تو اچھی بات ہے، اور اگر تم چھپا کر صدقات وخیرات کرتے ہو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے.
ابن كثير رحمه اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:
یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ چھپا کر صدقہ کرنا زیادہ افضل ہے، کیوں کہ اس میں آدمی ریاکاری سے محفوظ رہتا ہے، ہاں اگر علانیہ صدقہ کرنے میں کوئی مصلحت ہو جیسے دوسروں کو صدقے کی ترغیب دلانا مقصود ہو تو جائز ہے(2).
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ((سبعة يظلهم الله في ظله يوم لا ظل إلا ظله …)) الحديث ، وفيه : (( ورجل تصدق بصدقة فأخفاها حتى لا تعلم شماله ما تنفق يمينه))(3).
ترجمہ: بروز قیامت اللہ رب العالمین سات قسم کے اشخاص کو اپنے سائے میں رکھے گا، جن میں سے ایک وہ شخص بھی ہوگا جس نے صدقہ کرنے میں اس قدر پوشیدگی سے کام لیا ہوگا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو سکی کہ اس کا دایاں ہاتھ کیا خرچ کر رہا ہے.
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: اہل علم کے نزدیک چھپا کر صدقہ کرنا علانیہ صدقہ کرنے سے افضل ہے(4).
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (( صدقة السر تطفئ غضب الرب ))(5).
ترجمہ: پوشیدہ طور پر صدقہ کرنے سے اللہ رب العالمين کا غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے.
ایک جگہ اللہ رب العالمین اپنے نیک بندوں کی صفات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: {إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ ٱللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَآءًۭ وَلَا شُكُورًا } [ 9 سورة الإنسان].
آیت کا مفہوم: اللہ کے نیک بندے جب مساکین کو کھلاتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ ہم تو تمہیں اللہ کی رضا اور خوشنودی کیلئے کھلا رہے ہیں، ہم تم سے کوئی بدلہ یا شکر گذاری نہیں چاہتے.
شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله فرماتے ہیں: جو فقیروں سے دعاء کا طلب گار ہوتا ہے یا اس سے تعریف کی امید رکھتا ہے تو وہ اس آیت میں داخل نہیں(6).
اگر تصویر کی اشد ضرورت ہو جیسے کسی نے اپنی زکاۃ وصدقات کی تقسیم یا غریبوں کے تعاون پر دوسرے کو مامور کیا ہو اور کہیں سے اسے اس کی تقسیم میں بدعنوانی کی شکایت موصول ہوتی ہو اور صاحب مال شفافیت کی غرض سے چند تصاویر لینے کے لیے بولتا ہو جس سے شکوک و شبہات دور ہو سکے تو اس میں کوئی حرج نہیں.
لیکن یہاں پر یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ صاحب مال نے تصاویر طلب کی ہے تو اسے ہی بھیجنا ہے نا کہ اخبارات، فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پروگرام پر نشر کرنا ہے.
نیز تقسیم اموال کی تصویر لینا ہے کہ کہ غرباء ومساکین کو لیتے ہوئے اور خود کو بہت بڑے داتا کے پوز میں تصویر لینا ہے، کیوں کہ بلا ضرورت جاندار کی تصویر کشی حرام ہے، اس لئے اس سے بچنا ضروری ہے.
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اس طرح لوگوں کو ترغیب دلانا چاہتے ہیں.
میرے بھائی یقیناً آپ ترغیب دلائیں اور شریعت نے بھی آپ کو اس بات کی اجازت دی ہے، لیکن شریعت نے علانیہ صدقہ کرنے کی اجازت دی ہے تصویر کشی کی نہیں، اور تصویر تو شریعت میں ایسے ہی حرام ہے، اور اگر اس تصویر سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہو، اور اس کی آبرو کو ٹھیس پہنچتی ہو تو اس کی حرمت مزید سنگین ہو جاتی ہے.
خلاصہ یہ کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کا مصداق بنیں، یعنی اپنے بھائی کیلئے وہی پسند کریں جو ہم اور آپ اپنے لئے پسند کرتے ہیں، اگر ہم میں سے کوئی مجبور ہوجائے اور اسے تعاون لینے کی حاجت پڑجائے تو کیا اس کی عزت نفس اس بات کی اجازت دے گی کہ اس کی محتاجی اور مجبوری کا سر عام پر چار کیا جائے؟ تو پھر یہی بات اپنے دیگر مسلمان بھائی کیلئے کیسے پسند کرتے ہیں.
اور یقین جانیں کہ اس قبیح عمل کی وجہ سے بہت سے ایسے حاجتمند ہیں جو وہاں جانا نہیں چاہتے کیوں کہ ان کی عزت نفس اس بات کو گوارا نہیں کرتی، اور اس طرح زکاۃ سے زکاۃ دینے والے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ حقیقی محتاج محروم رہ جاتے ہیں.
اس لئے ہماری زیادہ تر کوشش یہی ہونی چاہئے کہ اسٹیج لگا کر سرعام صدقہ و خیرات کرنے کے بجائے پوشیدہ طور پر تقسیم کریں تاکہ ہر قسم کے محتاج فائدہ اٹھا سکیں.
اللہ ہم سبھوں کی اصلاح فرمائے، اور ہمیں حقیقی تقوی سے روشناس کرائے.
________________
(1) تفسیر طبری (5 / 520).
(2) تفسير ابن كثير (1 / 701-702).
(3) صحيح البخاري (629).
(4) جامع الترمذی (5/180).
(5) رواه الطبراني في "الأوسط” (943) اور شیخ البانی رحمہ اللہ اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے "الصحيحة” (1908).
(6) مجموع الفتاوى (11/111).