اسلامیات
سالِ نو کا جشن یا عمرِ رفتہ کا محاسبہ
ماہ دسمبر اپنا آخری مرحلہ طے کررہا ہے چند گھنٹے بعد عیسوی سال نو ٢٠٠٢١ کا کلینڈر کا آغاز ہوجاۓ گا عیسوی سال نو کی آمد پر دنیا کے مختلف ملکوں میں خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے ہمارے معاشرے میں بھی جگہ جگہ Happy New year کے بینر دکھائ دے رہے ہیں اور اس موقع پر پروگرام کی تیاریاں زوروں شور سے چل رہی ہے ٣١ دسمبر کی تاریج ختم ہوتی ہے تو ایک دوسرے کو مبارک بادی دیا جاتا ہے، تحفہ تحائف کا دور چلتا ہے،شراب و کباب کی محفلیں گرم ہوتی ہے اورمختلف نائٹ کلبوں میں تفریحی پروگرام رکھا جاتا ہے پھر نہ جا ے کیا کیا ہوتا ہے ۔
دراصل نئے سال کا جشن عیسائیوں کا ایجاد کیا ہوا ہے ان کے عقیدے کے مطابق ٢٥ دسمبر کو حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش ہے اسی خوشی میں کرسمس ڈے منایا جاتا ہے جس کی وجہ سے پوری عیسائی دنیا میں جشن کی کیفیت رہتی ہے اور یہی کیفیت نئے سال تک برقرار رہتی ہے۔
آج عیسائیوں کی طرح ہمارے قوم کے بہت سے مسلم نوجوان بھی ٣١ دسمبر کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں اور خوصوصاً نئی نسل مغربیت کی زد میں آکر یہود و نصارىٰ کے کلچر کو اپنا کر اسلام جیسا پیارا مذھب کے اقدار اور روایات کو تحقیر سمجھ کر نئے سال کا جشن مناتے ہیں،جبکہ سال نو کے موقع پر ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کی زندگی کے ایک اور سال کم ہوا اور ان کے قدم مزید قبر سے اور قریب ہوگئے ہیں،
خوشی اور جشن منانے کے بجاۓ ہمیں سب کو سالِ نو کے موقع پر ہمیں اپنے آپ کو احتساب کے کٹھرے میں کھڑا کرنا چاہیۓ اور اپنے عمرِ رفتہ کا محاسبہ کرنی چاہیۓ اپنی عبادات پر نگاہیں،کہ بہ مقابلہ گزشتہ سال کے اس سال میں کچھ اضافہ ہوا یا نہیں ؟ اپنے معاملات کو دیکھیں کہ حلال و حرام اور مستحبات و مکروہات کے احکام ہیں ان میں ھم سے کوتاہی تو نہیں ہورہی ہے، خاص کر اپنےاخلاق و سلوک کا جائزہ لیں ،والدین کے ساتھ،شوہر و بیوی کے ساتھ اولاد کےساتھ ، رشتہ داروں اور خاص کر غریب رشتہ داروں کے ساتھ،خاندان کے بیوہ عورتوں اور بچوں کےساتھ، مسلمان اور غیر مسلم پڑوسیوں کے ساتھ،کاروبار اور دفتر کے رفقاء کےساتھ ہمارا کیا سلوک ہے ھم ان کے لیۓ پھول ہیں یا کانٹے؟ھم نے انھیں محبت کے سوغات دی یا نفرت و عداوت کا تحفہ؟ غرض ہمیں اپنی زندگی کا ایک ایک عمل کا جائزہ لینا چاہیۓ اور خود اپنا حساب کرنا چاہئے کیوں کہ انسان دوسرے انسان کی نگاہ سے اپنی کوتاہی کو تو چھپا سکتا ہے لیکن اپنے آپ سے نہیں چھپا سکتا، اسی لیۓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس سے پہلے کہ تمہارا حساب کیا جاۓ خود اپنا حساب کرو : *حاسبوا انفسکم قبل ان تحاسبوا* اس لیۓ ھم سب کو ایمانداری سے اپنا اپنااپنامواخذہ اود محاسبہ کرنی چاہئے ملی ہوئ مہلت سے فائدہ اٹھانا چاہئے اس سے پہلے کہ یہ مہلت ختم ہوجاۓ اسی کو اللہ تعالی نے اپنے کلام میں ایک خاص انداز میں فرمایا اور کچھ ھم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے ہماری راہ میں اس سے پہلے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کو موت آجاۓ تو کہنے لگے اے میرے رب! مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں سے ہوجاوں اور جب کسی کا وقت مقررہ آجاتا ہے پھر اسے اللہ ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اس سے اللہ تعالی اچھی طرح باخبر ہیں۔
شدّاد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ہیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ہوشیار اور عقلمند شخص وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہے اور مرنے کے بعد کی زندگی کیلۓ عمل کرتا رہے اور عاجز وہ ہے جو خواہشات کی پیروی کرتا ہے اور بنا عمل اور عبادت کہ اللہ سے تمنا اور امیدیں وابستہ کرتا ہے
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ: آخرت کے دن حساب دینے سے پہلے تم دنیا میں اپنا محاسبہ کرتے رہو۔ قیامت کے دن وزن کئے جانے سے پہلے دنیا میں اپنا وزن کر لو۔ آج حساب کر لو تو تمہارے لئے آسانی ہوگی۔ سب سے بڑی پیشی کیلئے اپنے آپ کو مزین کرو۔ جس دن کوئ چیز مخفی اور پوشیدہ نہ ہوگی
ہمیں اس حقیقت سے باخبر ہونا چاہیۓ کہ انسان کے پیدائش کے بعد اس وقت مقررہ پورا ہونے کے بعد آخرت کے مراحل طے کرنا ہے جہاں انسان اپنے کئے ہوے ہر اچھےاور برے عمل کا حساب دیگا ، اس لیۓ نئے سال کے جشن منانے کے بجاۓ اپنی زندگی کا محاسبہ کرنی چاہئے اور یہ سوچنا چاہئے کہ عمر رفتہ میں واجبات و فرائض ھم پر واجب اور ضروری تھے ان کی ادئیگی مکمل طریقے سے ہوئی یا نہیں اگر کوتاہی یا تقصیر ہوئی تو سال نو کی آمد پر ان کمییو اور کوتاہیوں کو ھم نہ صرف دور کریں بلکہ زندگی کو اور بھی بامقصد طریقے سے گزاریں اور جہاں تک سال نو کی آمد پر جشن منانے کا مسئلہ ہے تو اس کا مذھب اسلام اور اھل سلام سے کوئ تعلق بلکہ یہ یہود و نصاریٰ کی تہذیب ہے.
_ فنا نہ کر اپنی زندگی کو رہ جنوں میں اے جواں
کب کرے گا عبادت جب گناہ کی طاقت نہیں ہوگی