’’اپنا جسم، اپنی مرضی‘‘ کا مغربی تصور
پڑوسی ملک میں یومِ خواتین کے موقع پر بعض تنظیموں کی طرف سے ریلی نکالی گئی، اس طرح کی ریلیاں اس سے پہلے بھی وہاں نکلتی رہی ہیں، اس ریلی کا نعرہ تھا ’’میرا جسم میری مرضی‘‘، یہ نعرہ اصل میں اس تہذیب کا ہے جو سمجھتی ہے کہ شخصی آزادی کے معنی ہیں: بے قید جنسی آزادی، اس وقت پورا یورپ اور مغرب اس فلسفہ پر ایمان لا چکا ہے، پھر اس ایجنڈے کو ترقی پذیر اور مذہبی قدروں سے وابستہ ملکوں پر مسلط کرنے کے لیے اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کا سہارا لیا جاتا ہے، ہمارا ملک اگرچہ کہ ہمیشہ سے مذہب و اخلاق سے جڑا رہا ہے، ہندو مت،بدھ مت، جین مت، سکھ مت کی تو پیدائش ہی یہاں ہوئی ہے؛لیکن اسلام اور عیسائیت کو بھی اس سرزمین نے گلے لگایا ہے؛ لیکن بدقسمتی سے معاشی اور سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے، عالمی سطح پر اپنی حیثیت منوانے اور ترقی یافتہ ملکوں سے اپنی دوستی کو قائم رکھنے کے لیے ہندوستان بھی پوری طرح ان کے نقش قدم پر چلنے کو تیار ہے، ادھر چند سالوں میں اس کی کئی مثالیں سامنے آچکی ہیں۔
پہلے سے ہمارے ملک کے قانون کے مطابق ایک بالغ لڑکا اور لڑکی نکاح کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ صنفی تعلق رکھیں تو یہ جرم نہیں ہے، مگر سابق چیف جسٹس دیپک مشرا کے زیر صدارت بینچ کے فیصلہ کے مطابق اگر ایک مرد کسی منکوحہ عورت سے اس کی رضامندی کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرے تو یہ بھی جرم نہیں رہا، شوہر کو حق نہیں ہے کہ وہ بیوی کو اس سے منع کرے،ۡ اور ایسی بد کردار عورت کے خلاف شوہر پولیس میںبھی نہیں جا سکتا، شوہر یا بیوی کا یہ عمل دوسرے فریق کے لئے صرف طلاق کا جواز پیدا کر سکتا ہے اوروہ عدالت سے طلاق کے لیے رجوع کر سکتا ہے:
Adultry is no longer a crime, but it will continue to be grounds for divorce.(India Today: Sep:27-2018)
اب ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے حال ہی میں ممبئی ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ جسم فروشی کوئی جرم نہیں ہے، اس کو جرم قرار دینا انسان کی شخصی آزادی کو مجروح کرنا ہے:
Justice Chavan said: "There is no provision in the law that criminalizes prostitution or punishes a person because s/he indulges in prostitution.” (LOKMAT ENGLISH DESK/ Sep:26-2020)
اس سے پہلے انگریزوں کے عہد میں بنا ہوا قانون جو ہم جنسی کی شادی یا شادی کے بغیر ہم جنسی کے فعل کو غیرقانونی قرار دیتا تھا، کورٹ نے اسے بھی ختم کر دیا تھااور اسے شخصی آزادی کے مغائر قرار دیاتھا،حقیقت یہ ہے کہ مغربی ملکوں میں تو آزادی کے نام پر جنسی بے راہ روی کی پوری چھوٹ دے ہی دی گئی ہے؛ لیکن پھر بھی وہاں شہوت پرستی اور نفسانی نا آسودگی اس درجہ بڑھی ہوئی ہے کہ اب وہاں عورتوں کی طرف سے نئے نئے مطالبات سامنے آ رہے ہیں، میں ایک ملک میں گیا تھا، وہاں اس وقت خواتین کی طرف سے احتجاج ہورہا تھا کہ اگر مردوں کو عوامی مقامات پر سینہ چھپا کر رکھنے کی پابندی نہیں ہے تو عورتوں پر یہ پابندی کیوں؟ اس سے بھی نا گفتہ مطالبات مغرب کے بعض ملکوں میںحقوق نسواں سے مربوط تنظیموں کی طرف سے کی جارہی ہیں۔
ان سب کی بنیاد اسی نعرہ’’میرا جسم، میری مرضی‘‘ پر ہے، اس نعرہ کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ ہماری بے پردگی پر کوئی روک ٹوک نہ ہو اور غیر قانونی صنفی تعلق پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہ ہو،ہم اپنے جسم کے سلسلے میں بالکل آزاد ر ہیں، یہ نعرہ جس کی گونج مغرب سے نکل کر مشرق تک پہنچ چکی ہے کے بارے میں غور کرنے اور اس کے اثرات و نتائج کو سمجھنے کی ضرورت ہے،سب سے پہلے ہمیں اس سلسلہ میں قانون فطرت کا مطالعہ کرنا چاہیے،جب ہم اس پہلو سے غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ بہت سی صورتوں میں ہمیں آزادنہیں چھوڑا گیا ہے؛ بلکہ انسان ہی کے فائدہ کے لئے انسان پر کچھ پابندیاں عائد کی گئی ہیں، جیسے: شوگر کا مریض میٹھا کھانا چاہتا ہے اور میٹھی چیزوں کی طرف اس کی رغبت عام لوگوں کے مقابلہ بڑھی ہوئی بھی ہوتی ہے؛ لیکن ڈاکٹر اور اس سے تعلق رکھنے والے تمام ہمدرد اور بہی خواہ اس کو میٹھی چیزوں کے استعمال سے منع کرتے ہیں اور اس کی معقولیت کو سب لوگ تسلیم کرتے ہیں، یہاں تک کہ اگر اسے ہاسپٹل میں داخل کر دیا جائے تو ہاسپٹل جبراًاس کو میٹھی چیزیں کھانے سے روک دیتا ہے۔
• بات صرف شوگر کی نہیں ہے، مختلف مریضوں کو ایسی چیزوں کے کھانے سے منع کردیا جاتا ہے، جو اس کے لیے نقصان دہ ہو۔
• بعض ملکوں میں نشہ پر پابندی ہے، خود بھارت کے دستور کے رہنما اصول میں بھی یہ بات کہی گئی ہے کہ آہستہ آہستہ پورے ملک میں مکمل نشہ بندی نافذ کی جائے؛ چنانچہ گجرات اور بہار میں نشہ بندی کا قانون موجود ہے، ڈرائیور کے لیے شراب پینا قابل سرزنش جرم ہے، اس کے علاوہ دوسرے جن کاموں میں اس سے خلل پیدا ہو سکتا ہے، ان کو بھی شراب پی ہوئی حالت میں انجام دینے کی اجازت نہیںہے۔
• بہت سے ملکوں میں کھلے عام سگریٹ پینا ممنوع ہے، ہمارے ملک میں بھی ایئرپورٹ اور پبلک مقامات پر ایسے لوگوں کے لئے خصوصی زون بنے ہوئے ہیں، وہیں پر سگریٹ پینے کی اجازت ہے، دوسرے مقامات پر تمباکو نوشی ممنوع ہے۔
• بہت سی دوائیں اپنے منفی اثرات کی وجہ سے ممنوع قرار دی گئی ہیں، ڈاکٹر کی تحریر کے بغیر کوئی شخص ان کو خرید نہیں سکتا۔
• اس وقت کرو نا کی وبا پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے، اس کی وجہ سے مختلف پابندیاں لگائی گئی ہیں اور ان پابندیوں کے خلاف ورزی کو جرم قرار دیا گیا ہے؛ حالانکہ بہت سے لوگ اس پابندی کو ناپسند کرتے ہیں اور اس کو اپنی آزادی میں خلل تصور کرتے ہیں، کئی لوگوں کو اس سلسلہ میں جیل کی سزا ئیں دی گئی ہیں۔
• کوئی انسان اپنا گردہ یا اپنے جسم کا کوئی عضو اپنی مرضی سے فروخت کرنا چاہے تو اس کی اجازت نہیں ہے؛حالانکہ وہ خود اپنا عضو فروخت کر رہا ہے، نہ کہ کسی اور کا، خودکشی کرنے والا اپنی زندگی کو ختم کرتا ہے، نہ کہ دوسروں کی، پھر بھی سنگین جرم ہے۔
یہ اور اس طرح کے بہت سے قوانین جو ساری دنیا میں نافذ ہیں،جن کو تمام اہل دانش معقول قرار دیتے ہیں،حکومتیں عوام کو ان کا پابند بناتی ہیں اور عوام بھی اسے ضروری سمجھتے ہیں، یہ اپنے وجود کے بارے میں بے قید اجازت کے خلاف محسوس ہوتی ہے،اگر یہ فلسفہ درست ہوتا کہ انسان اپنے جسم کے بارے میں اپنی مرضی کا مالک ہے، وہ جس طرح چاہے اسے استعمال کر سکتا ہے تو یہ سب کچھ قانون کی نظر میں درست ہوتااور اہلِ دانش اس کو قبول کرتے؛ لیکن ایسا نہیں ہے، ان میں کئی باتیں وہ ہیں جن کو دنیا کے تمام مذاہب نے منع کیا ہے، کئی باتیں وہ ہیں جن کو دنیا کے اکثر ممالک میں ممنوع قرار دیا گیا ہے، اور کئی چیزیں ایسی ہیں جن کو سلیم الفطرت انسان ناپسند کرتا اور قبیح سمجھتا ہے۔
جسم کو مکمل طور پر اپنی مرضی پر چلانے کا ماحصل بے پردگی، بے روک ٹوک جوان لڑکوں اور لڑکیوں کا اختلاط اور اس کے نتیجے میں زنا جیسے گناہ کا عموم اور پھیلاؤ ہے، زنا ایسا گناہ ہے جس کو ہر مذہب اور ہرمہذب معاشرہ میں بُرا سمجھا گیا ہے، ہندو مذہب میں بھی زنا کو قابل سزا جرم مانا گیا ہے، یہاں تک کہ منوسمرتی کے باب: ۸ میں کہا گیا ہے: ’’کسی پرائی عورت کو تحفہ دینا، اس کے زیورات یا کپڑوں کو چھونا، اس کے ساتھ چارپائی پر بیٹھنا، بدکاروں کے افعال تصور ہوں گے‘‘ یہودیوں کے یہاں جو مشہور ۱۰/ وصیتیں ہیں، ان میں یہ بھی ہے: تو زنانہ کر‘‘ (کتاب استثناء: ۱۷:۵)تورات میں ایک موقع پر بدکاری سے منع کرتے ہوئے کہا گیا ہے:
’’بیگانہ عورت کے ہونٹوں سے شہد ٹپکتا ہے، اور اس کا منہ تیل سے زیادہ چکنا ہے، پر اس کا انجام ناگڈونے کی مانند تلخ اور دو دھاری تلوار کی مانند تیز ہے، اس کے پاؤں موت کی طرف جاتے ہیں، اس کے قدم پاتال تک پہنچتے ہیں، سواسے زندگی کا ہموار راستہ نہیں ملتا، اس کی راہیں بے ٹھکانہ ہیں، پر وہ بے خبر ہے‘‘ (کتاب امثال: ۵-۱-۲۳)
عیسائی مذہب میں انجیل کے صحائف پر یقین کیا جاتاہے، انجیل لوقا میں جگہ جگہ زنا سے منع کیا گیا ہے؛ چنانچہ ایک موقع پر کہا گیا ہے:
’’نو حکموں کو جاننا ہے: زنا نہ کر، خون نہ کر، چوری نہ کر، جھوٹی گواہی نہ دے، اپنے ماں اور باپ کی عزت کر……….‘‘ (انجیل لوقا، باب:۱۸:۱۸-۲)
اسی طرح پولس رسول اپنے خط میں لکھتے ہیں:
’’حرام کاری سے بھاگو، جتنے گناہ آدمی کرتا ہے، وہ بدن سے باہر ہیں؛ مگر حرام کار اپنے بدن کا بھی گناہ گار ہے‘‘ (انجیل لوقا: ۶:۱۸)
شریعت اسلامی میں زنا جس درجہ مذموم فعل ہے، وہ محتاج بیان نہیں ہے؛ کہ صرف زنا سے منع نہیں کیا گیا؛ بلکہ زنا کے قریب پھٹکنے سے بھی منع فرمایا گیا:
’’ولا تقربوا الزنا إنہ کان فاحشۃ وساء سبیلا(اسراء: ۳۲)، زنا سے قریب بھی نہ ہو کہ یہ بے حیائی اور برا راستہ ہے‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی مسلمان زنا میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کا ایمان اس سے نکل جاتا ہے اور ایک چھتری کی طرح لٹکا رہتا ہے، جب وہ اس گناہ سے باہر نکلتا ہے تو پھر ایمان لوٹ آتا ہے۔(سنن ابی داود، باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ، حدیث نمبر: ۴۶۹۵)ایک موقع پر آپ سے دریافت کیا گیا: اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شرک کرنا، پوچھا گیا:اس کے بعد؟ ارشاد ہوا: یہ بات کہ تم اپنی اولاد کو اس لئے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھانے میں شریک ہوجائے گی، سوال کیا گیا: اس کے بعد کون سا گناہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بات کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ بدکاری کرو۔(بخاری، حدیث نمبر: ۶۸۹۰)
زنا صرف مذہبی اور اخلاقی نقطہ نظر سے ہی بری چیز نہیں ہے؛بلکہ زنا کی وجہ سے بہت سے سماجی نقصانات بھی پیدا ہوتے ہیں: پہلا نقصان یہ ہے کہ اس کی وجہ سے نکاح کی شرح کم ہو جاتی ہے، جب لوگ دیکھیں گے کہ جنسی خواہش بیوی کا بوجھ اُٹھائے بغیر پوری کی جاسکتی ہے تو رجحان پیدا ہوگا کہ نکاح کرنے کی بجائے کسی مرد یا کسی عورت کے ساتھ یوں ہی زندگی گزار دی جائے؛ تاکہ مقصد بھی حاصل ہو جائے اور زندگی کا بوجھ بھی اُٹھانا نہ پڑے؛ چنانچہ مغربی ملکوں کی یہی صورت حال ہے کہ وہاں نکاح کی شرح کم سے کم ہوتی جار ہی ہے،2010ء کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں /45فیصد، اسپین اور اٹلی میں/36فیصد، فرانس اور بیلجیم میں/39 فیصد، جرمنی میں/47فیصداور ہالینڈ میں/45فیصد ہی افراد نکاح کرتے ہیں، بقیہ تعداد بغیر نکاح کے زندگی گزارتی ہے، قریب قریب یہی حال اکثر مغربی ملکوں کا ہے، شرح نکاح میں اس کمی کا نقصان خواتین کو زیادہ پہنچتا ہے؛ کیوں کہ جن عورتوں کو نکاح کے بغیر رکھا جاتا ہے، جب اس کا حسن ڈھل جاتا ہے اور وہ بوڑھاپے میں قدم رکھتی ہیں تو سماج میں ان کی کوئی قدروقیمت نہیں رہتی، ان کی حیثیت گھر کے استعمال شدہ کچرے کی ہو جاتی ہے، جس کو ڈسٹ بین میں ڈال دیاجاتا ہے۔
دوسرے:جو لوگ نکاح کے رشتہ میں بندھے ہوئے ہیں، زنا کی چھوٹ ملنے کی وجہ سے ان کے رشتہ میں بھی استحکام باقی نہیں رہے گا، ایک دوسرے کے بارے میں بے اعتمادی کا شکار ہو جائیں گے، اور طلاق کے واقعات بڑھ جائیں گے، رشتہ نکاح کی کمزوری اور طلاق کے واقعات نہ صرف زوجین کو نقصان پہنچاتے ہیں کہ وہ سکون سے محروم ہوتے ہیں، ذہنی تناؤ کا اور بعض دفعہ دوسری نفسیاتی بیماریوںکا شکار ہو جاتے ہیں؛ بلکہ اس کا اثر بچوں پر بھی بہت زیادہ ہوتا ہے، وہ یا تو ماں کی ممتا سے محروم ہو جاتے ہیں یا باپ کی شفقت سے، اوراگر باپ کو اپنی اولاد کے بارے میں شک پیدا ہوگیا کہ وہ اس سے نہیں ہے اور اس نے مالی ذمہ داریاں ادا کرنی چھوڑ دیں تو بچوں کی زندگی مزید تباہ ہو جاتی ہے، اور وہ تعلیم وتربیت سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔
تیسرے:کسی عورت کا غیر مرد سے تعلق ایسی تلخی پیدا کر دیتا ہے کہ اکثر نوبت قتل وقتال کی آجاتی ہے، اگر صرف غلط فہمی اور بدگمانی پیدا ہو جائے تو اس سے بھی قتل اور بعض دفعہ خود کشی کے واقعات پیش آجاتے ہیں، دن رات اخبارات میں ایسی خبریں آتی رہتی ہیں۔
چوتھے:اس سے رشتہ کا تقدس ختم ہو جائے گا، انسان چاہے خود کسی گناہ میں مبتلا ہو؛ لیکن وہ اپنے والدین، بزرگوں اور اساتذہ وغیرہ کے بارے میں زنا جیسے گناہ کا تصور بھی نہیں کر سکتا، اور اس پاکیزہ تصور کی وجہ سے اپنے بڑوں کا بے حد احترام کرتا ہے، جب اسے مثلاََ اپنے ماں باپ کے بارے میںمعلوم ہو کہ وہ دوسرے مرد یا دوسری عورت سے ناجائز تعلق رکھتے ہیں تو کیا اس کے دل میں ان کے لئے محبت واحترام کے جذبات باقی رہیں گے،اور کیا اولاد کے سامنے اس تصویر کے آجانے کے بعد والدین اپنے بچوں کی تربیت کر پائیں گے؟
پانچویں:چاہے کچھ بھی کہا جائے؛ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ زنا کو ہر مہذب سماج میں عار کی بات سمجھا جاتا ہے، آدمی اپنے ماں باپ کے نکاح کا ذکر کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتا؛ لیکن اگر خدانخواستہ ان کے زنا میں مبتلا ہونے کی نوبت آجائے تو کوئی شریف انسان یہ کہنے کا تصور نہیں کر سکتا کہ میری ماں یا بہن یا بیٹی نے یا میرے باپ دادایا نانا نے فلاں کے ساتھ زنا کیا ہے، یہ اس بات کی علامت ہے کہ چاہے انسان نفسانی خواہشات کے غلبہ میں کچھ کہہ جائے یا کر بیٹھے؛ لیکن اس کی فطرت اس فعل کو شرم وعار کا باعث سمجھتی ہے، اور جب یہ شرم وعار کسی کے ساتھ لگ جاتی ہے تو اس کا اثر پشتہا پشت تک باقی رہتا ہے، بالخصوص مشرقی ممالک میں نہ صرف مردوعورت اس جرم کی وجہ سے حقارت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں؛ بلکہ ان کی اولاد بھی اس ناکردہ گناہ کی وجہ سے ذلت ورسوائی سے دو چار رہتی ہے۔
طبی اعتبار سے زنا کے جونقصانات ہیں، وہ بھی بے حد تکلیف دہ ہیں، آتشک اور سوزاک کی بیماریاں اسی گناہ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور گزشتہ چند دہوں میں ایڈ ز کی جو خوفناک بیماری ظاہر ہوئی ہے، وہ بھی بنیادی طور پر اسی کا نتیجہ ہے؛ اسی لیے جن ملکوں میں مرد و عورت کے غیر قانونی تعلق کی اجازت ہے، وہاں یہ بیماری خوفناک سطح پر بڑھتی جا رہی ہے، جس سے انسان کی قوت مدافعت مکمل طور پر ختم ہوجاتی ہے،اور وہ مریض ہی نہیںہوجاتا؛ بلکہ مجموعۂ امراض بن جاتا ہے؛ اس لیے یہ آزادی نہیں ہے؛ بلکہ نفس کی غلامی فطرت سے بغاوت ہے، اللہ نے انسان کو بہترین جسم عطا فرمایا ہے اور پوری کائنات کو اس کو سہولت پہنچانے والی چیزوں سے سجا دیا ہے؛ لیکن انسان کا جسم، انسان کی دولت اور کائنات کی یہ تمام چیزیں اسی وقت اس کے لئے رحمت اور سامانِ راحت ہیں، جبکہ وہ فطرت کے اصولوں کے مطابق ان کا استعمال کرے اور فطرت کے اصول کیا ہیں؟ وہ ہم سے کیا چاہتی ہے؟ اور ہماری کس بات کو نا پسند کرتی ہے؟ یہ بات مذہب اور بالخصوص دین حق کے ذریعہ معلوم ہوتی ہے، جو خالقِ فطرت کا بھیجا ہوا دین ہے، اللہ نے آگ کو جلانے کے لئے پیدا فرمایا ہے اور پانی کو نہانے کے لیے، اب اگر کوئی آگ سے غسل کرنے لگے اور پانی سے چولہا سلگانے لگے تو کیا وہ اپنے مقصد کو حاصل کر سکے گا؟