سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب ِ فرزندی
ماہِ ذوالحجہ کی شروعات کے ساتھ ہی حضرت ابراہیم ؑکے پاکیزہ خاندان کی یادیں ذہن ودل میں گردش کرنے لگتی ہیں ان کی راہِ خدا میں دی جانے والی محیر ا لعقول قربانیوں کا تذکرہ ایمان کو جلا بخشتا ہے، ان کی وفاشعار بیوی کی وفاداری کی عجیب وغریب داستانیں جذبۂ خلوص وفاداری کو پروان چڑھاتی ہیں، ان کے لخت جگر کی بے مثال فرمانبرداری کے واقعات اطاعت وفنائیت کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔
تو آئیے ماہِ ذو الحجہ کی مناسبت سے اس عظیم خاندان کے عظیم فرد حضرت ابراہیم ؑکے آنکھوں کے تارے اور حضرت ہاجرہؑ کے دلارے حضرت اسماعیل ؑکی عظیم الشان زندگی کو مختصراً ملاحظہ کیجئے۔
حضرت اسماعیلؑ کی ولادت:
حضرت ابراہیم ؑ اپنے بڑھاپے کو پہنچ چکے ہیں اور ابھی تک اولاد کی نعمت سے محرو م ہیں، ان کے دل میں مسلسل ایک تمنا دعا کی شکل میں یوں ظاہر ہورہی ہے کہ ’’رب ہب لی من الصالحین‘‘ (الصٰفت : ۱۰۰) ’’میرے پروردگار مجھے ایک ایسا بیٹا دیدے جو نیک لوگوں میں سے ہو‘‘ چناں چہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے برگزیدہ نبی حضرت ابراہیم ؑ کی اس دعا کو قبول فرمالیا اور ارشاد فرمایا: فبشرنہ بغلٰم حلیم: (الصٰفت:۱۰۱)’’چناںچہ ہم نے انہیں ایک بردباد لڑکے کی خوشخبری دی‘‘جب یہ دعا آپ نے فرمائی، تو آپ کی عمر ایک روایت کے مطابق چھیالیس برس اور ایک روایت کے مطابق پچاسی برس تھی۔ (بدائع الزہور :۸۸ بحوالہ جواہر شریعت ج: ۱ ص: ۱۷۰)
ایک نئی آزمائش:
حضرت ابراہیم ؑ اپنے فرزند حضرت اسماعیل ؑ کی ولادت پر ابھی بھر پور خوشیوں کا اظہار بھی نہیں کر پائے تھے کہ خدا تعالیٰ کی جانب سے ایک نئی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا اور وہ آزمائش وفار شعار بیوی اور لخت جگر کو ملک ِشام سے ہزاروں میل دور ایک ایسی وادی میں چھوڑ آئے کہ جہاں نہ آدم تھا نہ آدم زاد۔چناں چہ حضرت ابراہیمؑ اپنی بیوی اور اپنے فرزند کو بے آب وگیاہ ویرانے میں چھوڑ کرجب جانے لگے تو حضرت ہاجرہؑ پیچھے پیچھے یہ کہتی ہوئی آنے لگی کہ: اے ابراہیمؑ آپ کہاں جارہے ہیں اور ہمیں ایسی وادی میں کیوں چھوڑ رہے ہیں جہاں کوئی انسان اور شئی نہیں؟ حضرت ابراہیمؑ برابر چلے جا رہے ہیں، کوئی التفات ہی نہیں فرماتے بالآخر ہاجرہ نے پوچھا کہ کیا یہی اللہ کا حکم ہے؟ آپ نے کہاں: ہاں! اب حضرت ہاجرہؑ نے نہایت ایمان افروز جملہ کہا کہ: إذا لا یضیعنا: ٹھیک تب تو اللہ ہم کو ضائع ہونے نہیں دے گا بخاری (باب قول اللہ عزوجل وتخذاللہ ابراہیم خلیلا: حدیث : ۳۲۵۲)۔
واقعۂ قربانی:
حضرت ابراہیمؑ نے مسلسل تین رات خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے لڑکے کو ذبح کر رہے ہیں اور وہ سمجھ گئے کہ یہ صرف خیالی خواب نہیں بلکہ حکم الہی ہے اسے پورا کرنا ہوگا، اس سلسلہ میں حضرت ابراہیمؑ نے اپنے فرزند سے مشورۃً کہا: قال یا بنی انی اری فی المنام انی اذبحک فانظر ماذا تریٰ (الصٰفت: ۱۰۲) ’’انہوں نے کہابیٹے میں خواب میں دیکھتاہوں کہ تمہیں ذبح کر رہاہوں‘‘ تم سوچ کر بتائو، تمہاری کیا رائے ہے؟ جواب میں حضرت اسماعیلؑ نے عرض کیا: قال یا ابت افعل ما تومر ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین (الصٰفٰت: ۱۰۲) بیٹے نے کہا، اباجان، آپ وہی کیجئے جس کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔
اس جواب میں اول تو انہوں نے ادب کے ساتھ’’ ان شاء اللہ‘‘ کا استعمال کیا دوسرے خود کو اس عظیم ترین آزمائش پر صبر کرنے والا کہنے کے بجائے تواضع وانکساری کے ساتھ عرض کیا کہ: جیسے اللہ کے ا ور بہت سے بندے صبر کرنے والے ہوئے ہیں، آپ انہیں میں مجھے بھی شامل پائیں گے۔ اس میں خود پسندی کا ادنی شائبہ بھی موجود نہیں اور یہی اللہ کے نیک بندوں کی شان ہوتی ہے۔ (تلخیص از روح المعانی بحوالہ معارف القرآن ج: ۷ ص: ۴۵۹)
چناںچہ سعادت مند بیٹے کا یہ جواب سن کر حضرت ابراہیمؑ اپنے فرزند کو قربان گاہ کی طرف لے کر چلے اور جب ذبح کرنے کے لئے لخت جگر کو لٹانے لگے اس وقت سیدنا اسماعیلؑ نے جو تاریخی الفاظ کہیں وہ دل دہلانے والے ہیں’’ حضرت اسماعیلؑ نے اپنے والد سے کہا: اباجان مجھے اچھی طرح باندھ دیجئے تاکہ میں زیادہ تڑپ نہ سکوں، اور اپنے کپڑوں کو مجھ سے بچائیے، ایسا نہ ہو کہ ان پر میرے خون کے چھینٹیں پڑیں، تو میرا ثواب گھٹ جائے، اس کے علاوہ میری والدہ خوان دیکھیں گی تو انہیں غم زیادہ ہوگا، اور اپنی چھری بھی تیز کر لیجئے اور اسے میری حلق پر ذرا جلدی جلدی پھیرئے گا، تاکہ آسانی سے میرا دم نکل سکے، کیوں کہ موت بڑی سخت چیز ہے اور جب آپ میری والدہ کے پاس جائیں تو ان سے میرا سلام کہدیجئے گا، اور آپ میرا قمیص والدہ کے پاس لے جانا چاہے تو لے جائیں، شاید اس سے انہیں کچھ تسلی ہو۔ اکلوتے بیٹے کی زبان سے یہ الفاظ سن کر ایک باپ کے دل پر کیا گزر سکتی ہے؟ لیکن حضرت ابراہیمؑ استقامت کے پہاڑ بن کر جواب دیتے ہیں کہ : بیٹے تم اللہ کا حکم پورا کرنے میں میرے کتنے اچھے مددگار ہو یہ کہہ کر انہوں نے اپنے بیٹے کو بوسہ دیا اور پرنم آنکھوں سے انہیں باندھا ‘‘(مظہری بحوالہ معارف القرآن ج: ۷ ص: ۴۲۶۰) لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کوبیٹے کی قربانی کہاں مقصود تھی؟ اللہ تعالیٰ تو بس اپنے خلیلؑ کا امتحان لینا چاہتے تھے کہ ان کے دل میں خداتعالیٰ کی محبت کتنی ہے؟ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: فنادیناہ ان یابراہیم قد صدقت الرویا انا کذلک نجزی المحسنین إن ہذالہو البلآء المبین وفدینہ بذبح عظیم (الصٰفٰت: ۱۰۴۔۱۰۵۔۱۰۶۔۱۰۷) ’’اور ہم نے انہیں آواز دی کہ اے ابراہیمؑ تم نے خواب کو سچ کر دکھایا، یقینا ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں، یقینا یہ ایک کھلا ہوا امتحان تھا اور ہم نے ایک عظیم ذبیح کا فدیہ دے کر اس بچے کو بچالیا‘‘۔
حضرت اسماعیلؑ ہی ذبیح اللہ ہیں:
اہل تحقیق حضرات مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اسماعیلؑ ہی ذبیح اللہ تھے، اور انہیں کی یاد میں قربانی کا حکم امت محمدیہ کو دیا گیا ہے اور تفسیر کی بعض روایات میںحضرت ابراہیمؑ کے دوسرے صاحب زادے سیدنا اسحاق کے ذبیح اللہ ہونے کی جوبات لکھی گئی ہے محققین علماء نے اسے قبول نہیں کیا کیوں کہ نہ صرف قرآن کے اسلوب بلکہ موجود ہ توریت کی عبارات سے بھی اس کی نفی ہوتی ہے (کتاب المسائل ج:۲ ص:۲۹۲)۔
خانۂ کعبہ کی تعمیر میں حصہ:
ایک مرتبہ حضرت ابراہیمؑ اپنے فرزند حضرت اسماعیلؑ سے فرمانے لگے ’’اسماعیل اللہ نے مجھے ایک حکم دیا ہے‘‘ وہ کہنے لگے ٹھیک ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے بجالائیں۔انہوں نے فرمایا: آپ میری مدد کریں گے؟ وہ کہنے لگے ضرور کروں گا سیدنا ابراہیمؑ نے بتایا ’’مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں یہاں اللہ کا گھر بنائوں (یہ بات انہوں نے ایک ٹیلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہی) پھر انہوں نے مل کر بیت اللہ کی بنیاد اٹھائیں۔ سیدنا اسماعیلؑ پتھر لاتے تھے اور سیدنا ابراہیمؑ عمارت بناتے تھے حتی کہ جب عمارت اونچی ہوگئی تو سیدنا اسماعیلؑ یہ پتھر (مقام ابراہیمؑ) لائے اور والد محترم کے پاس رکھ دیا تاکہ اس پر چڑھ کر عمارت بنا سکیں،حضرت اسماعیلؑ انہیں پتھر پکڑاتے تھے اور وہ دونوں تعمیر کے وقت بیت اللہ کے ارد گرد گھومتے ہوئے یہ دعا پڑھتے تھے۔ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم (البقرہ: ۱۲۷) اے ہمارے پروردگار (یہ کام) ہماری طرف سے قبول فرما یقینا تو سننے اور خوب جاننے والا ہے (تاریخ مکہ مکرمہ ص: ۳۲۔۳۳)
فرمانبرار بیٹے کا اپنے والد کے مشورہ پر عمل:
جب حضرت اسماعیلؑ کی شادی ہوگئی تو باپ حضرت ابراہیمؑ اپنے بیٹے کو ملنے کے لئے تشریف لائے، لیکن چونکہ حضرت اسماعیلؑ گھر پر موجود نہ تھے اسی لئے ان سے ملاقات نہ ہوسکی، آپ نے اپنی بہو سے ان کے متعلق دریافت فرمایا، تو اس نے کہاکہ رزق کی تلاش میں گئے ہوئے ہیں، پھر گھر کے گزران کے متعلق پوچھا، تو وہ کہنے لگی کہ ہم تنگی اور شدت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس طرح اس نے شکوہ وشکایت کے انداز میں بات کی تو حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا کہ جب اسماعیلؑ آئیں تو اسے میرا سلام کہنا ،اور اسے پیغام دینا کہ وہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ بدل دے۔ جب حضرت اسماعیلؑ شام کو گھر واپس آئے اور انہوںنے کچھ احساس کیا تو دریافت فرمایا کہ کیا ہمارے گھر میں کوئی آیاتھا؟ ہاں فلاں شکل وصورت کے بزرگ آئے تھے آپ کے متعلق پوچھا، تو میں نے آگاہ کیا، پھر انہوں نے گھریلوں زندگی کے بارے میں پوچھا تو میں نے کہا کہ تنگی میں گزر رہے ہیں، حضرت اسماعیلؑ نے کہا کہ انہوں نے کچھ وصیت بھی کی تھی اہلیہ نے جواب دیا کہ ہاں، انہوں نے سلام کہنے کا حکم دیا اور بتایا کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ تبدیل کردے۔
حضرت اسماعیل سمجھ گئے اور اپنی گھروالی سے فرمایا کہ وہ میرے باپ تھے اور انہوں نے مجھے حکم فرمایا کہ میں تجھے چھوڑدوں لہذا اب تو اپنے میکے چلی جا اور اسے طلاق دیدی اور ایک دوسری عورت سے شادی کرلی۔
اسی طرح کچھ عرصہ بعدپھر حضرت ابراہیمؑ کا آنا ہوا اپنے لڑکے کے گھر اور اس وقت بھی حضرت اسماعیلؑ موجود نہیں تھے، پہلے ہی کی طرح سوال کیا توحضرت اسماعیلؑ کی اہلیہ نے جواب دیا کہ حالات بہت اچھے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کیا، پھر حضرت ابراہیمؑ نے کہا کہ اسماعیلؑ کو میرا سلام کہنا اور یہ پیغام دیناکہ دروازہ کی چوکھٹ کو قائم رکھے۔ چناں چہ جب حضرت اسماعیلؑ اپنے گھر تشریف لائے تو ویسے ہی سوالات و جوابات ہوئیں، پھر حضرت اسماعیلؑ نے کہا کہ انہوں نے کچھ وصیت کی تھی، تو اہلیہ نے کہا کہ ہاں انہوں نے حکم دیا کہ آپ کو سلام کہنا اور یہ پیغام دینا کہ وہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ کو قائم رکھے۔ حضرت اسماعیلؑ نے کہا کہ وہ میرے والد تھے اور وہ چوکھٹ توہی ہے اور انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں تجھے اپنے پاس رکھوں۔ (مستفاد از قصص الانبیاء ص: ۱۳۶۔۱۳۷حافظ ابن کثیرؒ)
وفات:
حضرت اسماعیل کی عمر جب ایک سو چھتیس (۱۳۶) سال کی ہوئی تو ان کا انتقال ہوگیا اس وقت ان کے سامنے ان کی اولاد اور نسل کا سلسلہ بہت پھیل گیا تھا جو حجاز، شام، عراق، فلسطین اور مصر تک پھیلی ۔ (قصص القرآن ج: ۱ ص: ۱۸۷ از مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ)