ریاست و ملک

گیان واپی مسجد، کاشی متھرا عیدگاہ تنازعہ پر کل سپریم کورٹ میں ہوگی اہم سماعت

نئی دہلی: 9؍جولائی (پریس ریلیز)  گیان واپی مسجد، کاشی متھرا عید گاہ تنازعہ حل کرانے کے لئے سپریم کورٹ آف انڈیا میں داخل پٹیشن پر کل سپریم کورٹ آف انڈیا کی تین رکنی بینچ کے روبرو سماعت عمل میں آئے گی۔
سپریم کورٹ آف انڈیا کے رجسٹرار کی جانب سے جاری کی گئی کاز لسٹ(سماعت کے لیئے پیش ہونے والے مقدمات کی فہرست) کے مطابق اس معاملے کی سماعت چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبڑے، جسٹس سبھاش ریڈی اور جسٹس اے ایس بوپنا کریں گے۔ گیان واپی مسجد، کاشی متھرا عید گاہ تنازعہ حل کرانے کے لئے ہندو پجاریوں کی تنظیم وشو بھدر پجاری پروہیت مہا سنگھ و دیگر نے پٹیشن داخل کرکے عبادت کے مقام کے قانونی یعنی کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔
پجاریوں کی جانب سے داخل کی گئی پٹیشن کی مخالفت کرنے کے لیئے  جمعیۃ علماء ہند نے بھی مداخلت کار کی درخواست داخل کی ہے۔جس میں جمعیۃ علماء ہند قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی کو مدعی بنایا گیا ہے۔جس کا ڈائری نمبر 12395/2020ہے، جمعیۃ علماء کی مداخلت کار کی درخواست کو بھی ہندوسادھوؤں کی جانب سے داخل کردہ پٹیشن کے ساتھ سماعت کے لیئے پیش کیا جارہا ہے۔عدالت اس پر بھی فیصلہ کرسکتی ہے آیا جمعیۃ علماء کو اس معاملے میں مداخلت کرنے کی اجازت دی جائے یا نہیں۔بذریعہ ویڈیو کانفرنسنگ کل کی ہونے والی سماعت پر جمعیۃعلماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون پیش ہونگے۔
واضح رہے کہ یہ قانون 18 ستمبر 1991کو پاس کیا گیا تھا جس کے مطابق 1947 میں ملک آزاد ہونے کے وقت مذہبی مقامات کی جو صورتحال تھی اسے تبدیل نہیں کیاجاسکتا ہے صرف بابری مسجد تنازعہ کو اس قانون سے باہر رکھا گیا تھا کیونکہ یہ معاملہ پہلے سے ہی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت تھا۔
اس سے قبل ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول کی جانب سے داخل کردہ پٹیشن میں تحریر کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے تو عدالت ہندو سادھوؤں کی جانب سے داخل پٹیشن کو سماعت کے لئے قبول ہی نہ کرے اور اسے خارج کردے کیونکہ اگر عدالت اسے سماعت کے لئے قبول کرلیتی ہے تو ہندوستا ن کے انصاف وامن پسند عوام بالخصوص مسلمانوں میں تشویش پیدا ہوجائے گی کیونکہ بابری مسجد فیصلہ آنے کے بعد سے ہی مسلمان ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کو لیکر فکر مند ہیں نیز ملک کی قومی یکجہتی کو اس سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔
عرضداشت میں مزید لکھا گیا ہے کہ بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ میں جمعیۃ علماء ہند اہم فریق تھی جس میں پلیس آف ورشپ قانون کی دفعہ 4کو قبول کیا گیا ہے اور اس قانون کی آئینی حیثیت کو بھی سپریم کورٹ نے تسلیم کیا ہے لہذا اب اس قانون کو چیلنج کرکے ملک کا امن ایک با ر پھر خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے نیز اگر ہندو سادھوؤں کی جانب سے داخل کردہ عرضداشت کو عدالت نے سماعت  کے لے قبول کرلیا تو مقدمہ دائر کرنے کا ایک سیلاب آجائے گاجس کی وجہ سے ملک میں مزید بد امنی پھیلنے کا اندیشہ ہے۔
کل سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت سے قبل آج دوپہر بعد ایڈوکیٹ اعجاز مقبول اور ان کی معاون وکیل اکرتی چوبے نے ڈاکٹر راجیو دھون سے ان کی آفس میں کانفرنس بھی کی،جس کے دوران سادھوؤں کی تنظیم کی جانب سے داخل پٹیشن کے مختلف پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا اور کل کی سماعت کے لئے لائحہ عمل تیار کیا گیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×