مسجدوں کی کشادگی پر مصلیوں کے لئے چند ضروری ہدایات
بلاشبہ مسجد یں اسلام کا شعار ،مقدس ترین مقامات ، نزول رحمت کی جگہیں، عبادت گاہیں اور اہل ایمان کے روحانی مراکز ہیں، مسجدیں زمین کے سب سے مبارک ترین حصے ہیں ،خدا کے محبوب و پسندیدہ مقامات ہیں ،فرشتوں کے نزول کی جگہیں ہیں اور مسلمانوں کے لئے جائے تسکین ہیں ،مسجدیں خدا کی بندگی وعبادت کی جگہیں ہیں ، مسلمانوں کی اجتماعی قوت کی علامت ہیں اور ان کے آپسی اتحاد کا عظیم الشان مظہر ہیں،مسجدوں کی تعمیر وتوسیع اور آبادی وتزئین دخول جنت اور جنت میں حصول محل کا ذریعہ ہیں ، مسجدوں سے وابستگی ایمان کی نشانی ہے ،اس میں داخل ہونے والوں کو خدا کی مہمانی کا شرف حاصل ہوتا ہے ، مسجدوں میں وحدانیت کا اقرار واظہار کیا جاتا ہے اور مسلمان اس میں خدائے واحد کی تکبیر وتہلیل بیان کرتے ہیں ،مسجدوں سے مسلمانوں کا ایمانی رشتہ جڑا ہوا ہوتاہے ، مسجدوں سے مسلمانوں کا ویساہی تعلق ہوتا ہے جیسے جسم کا روح کے ساتھ ہوتا ہے،مسلمان ہر ایک چیز برداشت کر سکتے ہیں لیکن مسجدوں کی بے حرمتی اور اس میں داخل ہونے کی پابندی ہرگز برداشت نہیں کر سکتے ہیں ،کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان سے وابستگی ہی میں ان کی جان میں حقیقی جان ہے نہیں تو یہ جان بھی بے جان ہے۔
عالمی وباء کورونا وائرس کی ہلاکت خیزی کو دیکھتے ہوئے دیگر ممالک کی طرح ہندوستان نے بھی اپنے ملک میں لاک ڈاؤن نافذ کیا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ،تقریبا ! ڈھائی مہینے کا عرصہ بیت چکا ہے ،اس مہلک وائرس کے اثر سے بچنے کے لئے عالمی تنظیم صحت اور مختلف ممالک کے ماہرین طب نے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ رضاکارانہ طور پر گھروں میں بند رہکر اور ہر قسم کی اجتماعی تقریبات سے دور رہتے ہوئے اس وبا سے خود کو محفوظ رکھیں ، حکومت ہند نے ملک میں تجارتی ،تعلیمی ،تفریحی ،سیاحتی ،سفری اور تمام تر مذہبی اجتماعی سر گرمیوں پر پابندی لگا نے کا فیصلہ کیا ہے اور تمام مذاہب کے مذہبی مقامات پر داخلے کی پابندی لگادی ہے ، لاک ڈاؤن کے پہلے ہی دن سے مسلمانوں کی عبادت گاہیں مسجدوں کو مقفل کر دیا گیا ہے ، امام اور مؤذن کے علاوہ صرف تین آدمیوں کو نماز بنجگانہ کی اجازت دی گئی جس پر اب تک پابندی سے عمل جاری ہے ،مسجدوں میں داخلہ پر پابندی کا لگ جانا مسلمانوں کے دلوں پر بجلی بن کے گر پڑا ،وہ بے چین وبے قرار ہو گئے ،انہیں لاک ڈاؤن اور تجارت پر پابندی سے اتنی تکلیف نہیں ہوئی جتنی کہ مساجد میں داخلے پر پابندی لگانے سے ہوئی ہے ،یقینا یہ ان کے لئے پہلا موقع ہوگا کہ مسجدوں میں جانے پر ان کے لئے پابندی عائد کی گئی ہے،اس فیصلہ پر مسلمانوں کی آنکھیں نہیں بلکہ ان کے دل آنسو بہارہے ہیں ،مگر چونکہ حکومت کا فیصلہ تھا اور اس کے ساتھ ملک کے عظیم دینی درسگاہوں اور علمی و فقہی بصیرت رکھنے والے علماء کرام کا بھی فتویٰ تھا،جس کی بنا پر مسلمانوں نے اسے قبول کر لیا ، پنجوقتہ نمازیں وہ گھروں میں ادا کر نے لگے ، اسی لاک ڈاؤن میں رمضان المبارک کی آمد بھی ہو ئی اور اختتام بھی ، لاک ڈاؤن کا مکمل لحاظ کرتے ہوئے مسلمانوں نے اس ماہ مقدس میں بھی نمازوں کے علاوہ نما ز تراویح ،طاق راتوں میں عبادتوں کا اہتمام اور پھر نماز عید الفطر بھی اپنے اپنے گھروں ہی میں ادا کی ، عوام کی سہولت کی خاطر حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار رعایتیں دی جا رہی ہیں ، حکومت نے آٹھ جون سے تمام مذہبی مقامات کو چند شرائط کے ساتھ دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا تھا اور اسی فیصلہ کے تحت تمام مذہبی مقامات کھول دئے گئے ہیں ، حکومت کے اس فیصلے اور مسجدوں کے کھول دئے جانے سے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے ،ان کے چہروں پر صاف چمک نظر آرہی ہے ،وہ زبان حال وقال سے خدا کا شکر بجالارہے ہیں کہ اس نے ایک طویل عرصہ بعد دوبارہ اپنے در حاضری کا موقع فراہم کیا ہے اور اپنے ان گناہگار بندوں کو اپنے گھر کی رحمتوں وبرکتوں سے مالا مال ہونے کا موقع عطا فرمایا ہے،یقینا ایک صاحب ایمان کے لئے اس سے بڑھ کر خوشی ومسرت کا کوئی اور موقع نہیں ہو سکتا ، مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ مسجدوں کی طرف جوق درجوق جائیں اور باجماعت نمازیں پڑھنے کا خوب اہتمام کریں ،سابق میں باجماعت نمازوں کی ادائیگی میں جو کچھ کوتاہی ہوئی ہے اس پر خدا سے معافی مانگیں اور موت تک مسجدوں سے وابستہ رہنے ،اپنے سجدوں سے انہیں آباد رکھنے ،ان کی تعمیر وتزئین اور ہر طرح سے ان کی حفاظت کرنے کا عہد کریں ،یقینا یہ مقام شکر ہے کہ اللہ نے انہیں اب تک اس مہلک ترین بیماری سے محفوظ رکھا ہے ، صحت وتندرستی کی نعمت سے مالا مال رکھا ہے اور اپنے گھر دوبارہ حاضری کی سعادت عطا فرمائی ہے ، کئی لوگ اس مہلک بیماری کا شکار ہو کر ہمیشہ کے لئے دنیا چھوڑ کر جا چکے ہیں ، انہیں دوبارہ مسجدوں میں حاضری کا موقع نہیں مل سکا ،مسجدوں میں دوبارہ حاضری کا موقع مل جانا بڑی سعادت اور خدا کی جانب سے بہت بڑا انعام ہے جس پر جس قدر شکر بجالائے کم ہے ، مگر اس مہلک بیماری کے خاتمہ تک مصلیوں کو حد درجہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے تاکہ خود کے ساتھ دوسروں کو بھی اس مہلک مرض سے محفوظ رہ سکیں،اس سلسلہ میں حکومت نے گائڈ لائن جاری کی ہے جس کو سامنے رکھتے ہوئے ملک بعض بڑے جامعات کے دارالافتاء سے شریعت کی روشنی میں مصلیان کرام کے لئے چند ضروری رہنمایانہ ہدایات جاری کی گئی ہیں جن کا پاس ولحاظ رکھنا مصلیان کرام کی ذمہ داری ہے ،یہ بات ذہن میں رہنا چاہئے کہ عام حالات اور اضطراری حالتوں کے احکامات میں فرق ہوتا ہے اور وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ،مثلاً اقامت ومسافرت ،صحت ومرض اور امن وجنگ کے احکامات بالکل الگ الگ ہیں ،ان میں سے ایک کو دوسرے سے ملا یا نہیں جا سکتا اور حالت مرض میں دی گئی رخصت کو حالت صحت میں ا ستعمال نہیں کر سکتے ،اسی طرح اس وقت پوری دنیا ایک مہلک ترین بیماری کی لپیٹ میں ہے جس کی وجہ سے پورے عالم کے لوگ ایک اضطراری کیفیت سے دوچار ہیں ،اس سے بچاؤ کے لئے جو کچھ ہدایات دی جارہی ہیں وہ انہیں حالات کے لئے ہیں ،جیسے ہی یہ حالت ختم ہو جائیں گے تو یہ حکم بھی منسوخ ہو جائے گا ، بعض لوگ کم علمی اور فقہی بصیرت کی کمی کی وجہ سے پریشان ہو رہے ہیں اور اہل علم پر بلا سونچے سمجھیں اعتراضات کرتے جارہے ہیں ، یہ ان کی غلط فہمی اور کم علمی کی علامت ہے اور علماء کرام پر غیر اعتمادی کا اظہار ہے جو انتہائی افسوس ناک ہے ،ان کی دینی واخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ دینی علم میں گہرائی اور بصیرت رکھنے والے علماء کرام پر مکمل اعتماد کا مظاہرہ کریں اور دینی مسائل میں اپنی عقل کو استعمال کرنے کے بجائے قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء کرام کے ذریعہ بتائے ہوئے مسائل پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں ۔
اس وقت ملک کے مسلمان کئی ایک مسائل کا شکار ہیں ،دشمن ہر طرف سے سازشی جال بچھا رکھا ہے اور اس میں پھنسانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے ، ابھی ڈیڑھ ماہ قبل عالمی وبا کو بہانہ بناکر میڈیا کے ذریعہ جو کچھ ہنگامہ کھڑا گیا اس سے سب اچھی طرح واقف ہیں ، اب بھی دشمنان اسلام معمولی بات کو بہانہ بناکر شور مچا تے ہوئے مسلمانوں کو بدنام کر سکتے ہیں اور مسلمانوں پر غیر ذمہ دار ،غیر سنجیدہ اور لاپرواہ شہری ہونے کا الزام لگاکر سارا الزام ان ہی کے سر تھوپ سکتے ہیں اس لئے اس وقت نہایت چوکنا ر ہنے کی ضرورت ہے ، مساجد میں داخلے کے سلسلہ میں جو کچھ رہنمایانہ ہدایتیں دی گئیں ہیں مساجد کے منتظمین اور مصلیان کرام کو ان کا مکمل پاس ولحاظ رکھنا ہوگا ، جو کچھ ہدایتیں دی جارہی ہیں وہ سب احتیاطی تدبیروں کے درجہ میں ہیں،یقینا شریعت اس کی اجازت دیتی ہے ،بد احتیاطی ناپسندیدہ اور مذموم حرکت ہے اور خود کو ہلاکت کی طرف ڈھکیلنے کے مترادف ہے ، عالمی تنظیم صحت نے جو ہدایتیں دی ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے ملک کے محکمہ صحت نے جو گائڈ لین جاری کی ہیں اسی کے تناظر میں علماء کرام اور مفتیان عظام نے مساجد کی انتظامی کمیٹیوں اور مصلیان کی خدمت میں چند ضروری ہدایات پیش کی ہیں انہیں ذیل میں پیش کیاجارہا ہے ۔
(۱)مصلیان کرام اپنے گھروں سے وضو کرکے تشریف لائیں ، یعنی جن حضرات کے مکانات قریب ہیں وہ اپنے گھروں ہی سے وضو کرکے آنے کا اہتمام کریں ،جن کے گھر دور ہوں ایسے حضرات پوری احتیاط کے ساتھ اور مکمل صفائی کا خیال رکھتے ہوئے مسجد کے طہارت خانے اور وضو خانے سے استفادہ کر سکتے ہیں ،ویسے مصلیان کرام کو اپنے گھروں سے باوضو ہو کر آنے کی عادت ڈالنا چاہئے ،اس میں زیادہ اجر وثواب ہے ،رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے کہ آدمی کی باجماعت پڑھی ہوئی نماز اس کی گھر یا بازار میں پڑھی نماز سے پچیس گنا زیادہ ( اجر والی ) ہوتی ہے اور یہ اس وجہ سے کہ جب وہ اچھی طرح وضو کرکے گھر سے مسجد کی طرف نکلتا ہے نماز ہی کے لئے گھر سے نکلا ہوتا ہے تو جو بھی قدم اٹھاتا ہے اس پر اس کا ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے اور ایک گناہ مٹایا جاتا ہے ،جب وہ نماز پڑھتا ہے اور اپنی نماز والی جگہ پر ہی ہوتا ہے تو فرشتے اس کے لئے دعائیں کرتے ہیں ،اے اللہ ! اس پر رحم فرما،اے اللہ ! اس کی مغفرت فرما،اے اللہ ! اس پر رحم فرما،اور جب تک یہ نماز کے انتظار میں ہوتا ہے تو گویا کہ نماز ہی میں ہوتا ہے( نسائی)،گھرپر وضو کرکے نکلنے پر ایک طرف اجر وثواب حاصل ہوتا ہے تو دوسری طرف اتنی دیر باوضو رہنے کی برکت حاصل ہوتی ہے ،اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس سے ہر وقت باوضو رہنے کا مزاج بھی پیدا ہوتا ہے جس کے بے شمار فوائد ہیں ۔(۲) مسجد میں داخل ہوتے وقت اور باہر نکلتے وقت آپس میں فاصلہ برقرار رکھیں ، چونکہ ماہرین طب آپسی نزدیکی کو وائرس کے پھیلنے کا سبب قرار دے رہے ہیں اس لئے ماہرین کی رائے اور ان کی ہدایات کا پاس ولحاظ رکھنا ضروری ہے ،اس سلسلہ میں آپسی احترام کو ملحوظ رکھنا ہوگا ، ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوئے فاصلہ کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنا ہوگا(۳)ماسک لگا کر مسجد میں آئیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ منہ اور ناک کے ذریعہ وائرس پھیپڑوں میں داخل ہو تے ہیں جس کے بعد آدمی اس مہلک مرض کا شکار ہو جاتا ہے ،یہ نہ صرف اس کی لئے تشویش ناک ہے بلکہ جن لوگوں کا اس سے میل جول ہے ان سب کے لئے بھی خطرہ کی گھنٹی ہے اس لئے ماسک کو غیر اہم سمجھ کر اسے نظر انداز نہ کریں بلکہ خوب اہتمام سے مسجد اور خارج مسجد اس کا استعمال کریں ،(۴) پینسٹھ سال بلکہ احتیاط کے درجہ میں ساٹھ سال والے حضرات اور دس سال سے کم عمر والے بچے نیز بیمار حضرات مسجد میں آنے سے احتراز کریں،نابالغ بچوں پر تو نماز فرض نہیں ہے، جو لوگ بیمار ہیں وہ تو یقینا معذور ہیں انہیں گھروں میں نماز پڑھنے کی شرعاً اجازت ہے ،مگر جو لوگ عمر رسیدہ ہیں اسی طرح کم سن بچے ان کے متعلق ماہرین کا کہنا ہے بلکہ وہ تجربات کی روشنی میں کہہ رہے ہیں کہ ا ن میں قوت مدافعت کی کمی کی وجہ سے وہ بہت جلد مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں ،بد احتیاطی انہیں مریض بنا سکتی ہے اور وہ اس وائرس کے جال میں آسانی سے پھنس جاتے ہیں ،اس لئے ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود کو محفوظ رکھنے کی خاطر وائرس کے ختم ہونے تک مسجدوں میں آنے سے احتراز کریں ،ایسے حضرات کو شریعت بھی گھروں میں نماز کی اجازت دیتی ہے ، کتب فقہ میں جس کی مثالیں موجود ہیں ،مثلا کسی مرگی کے مریض کو تجربہ سے یہ بات معلوم ہو کہ روزہ رکھنے سے مرگی کے دورے پڑتے ہیں تو اب اس کے لئے مرگی کے دورے پڑنے کے خوف سے روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہوگی، چنانچہ جن کے قوی کمزور ہوں جس کی وجہ سے وائرس میں گھر جانے کا قوی امکان ہو تو ایسے حضرات کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود کو ہلاکت کی وادی کی طرف نہ ڈھکیلیں بلکہ گھروں ہی میں نمازوں کا اہتمام کریں ،(۵) جائے نماز اپنے ساتھ لائیں ،چونکہ کپڑوں اور خاص کر دبیز کپڑوں میں وائرس کے جم جانے کا قوی خطرہ ہے اس لئے اس سے محفوظ رہنے کے لئے اپنی اپنی جائے نماز پر نماز پڑھیں ،(۶) مسجد میں داخل ہونے کے بعد خود کو اچھی طرح سنی ٹائز کر لیں ،چونکہ فاصلہ طے کرکے مسجد آئے ہوتے ہیں ، ہاتھ کے ادھر اُدھر کہیں نہ کہیں لگتے ہیں جس میں وائرس کے مقام پر ہاتھ پڑنے کاامکان رہتا ہے ،اس لئے اپنے ہاتھوں کو سنی ٹائز کر لیں ،یہ بات باوثوق ذرائع سے ثابت ہو چکی ہے کہ سنی ٹائزر میں نشہ آور الکحل ملا ہوا نہیں ہوتا ہے اس کے لگانے کے بعد نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے،(۷)سنت ونوافل گھروں میں پڑھنے کا اہتمام کریں،چونکہ فرض نمازوں کے علاوہ سنن ونوافل کا گھروں میں پڑھنا افضل ہے اور احادیث میں اس کی طرف توجہ بھی دلائی گئی ہے ،حضرت زید بن ثابت ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا : لوگو! اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو کیونکہ سوائے فرض نماز کے آدمی کی افضل نماز وہ ہے جو وہ اپنے گھر میں پڑھے( بخاری) ،لوگوں کی کاروباری مصروفیات ، تجارت وملازمت کی وجہ سے گھروں سے دوری اور پھر سنن ونوافل سے غفلت اور سنن ونوافل کے چھوڑ دینے کے خوف سے انہیں مسجدوں ہی میں سنن ونوافل پڑھنے کا مشورہ دیا جاتا رہا ہے ،مگر چونکہ موجودہ حالات میں زیادہ دیر مسجدوں میں قیام اور کثرت اجتماع کی وجہ سے وائرس پھیلنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اس لئے یہ موقع اچھا ہے کہ اس کے ذریعہ گھروں میں سنن ونوافل کا اہتمام کرتے ہوئے خود کو اس کا پابند بنائیں اور اپنے گھروں میں نفل نمازوں کے اہتمام سے یہاں کے ماحول کو بھی نورانی بنائیں ،گھر والوں پر اچھا اثر چھوڑیں ،رحمتوں کے نزول کی راہ کھولیں اور اپنے گھروں کو قبرستان بننے سے بچائیں،(۸)مسجد میں رکھے ہوئے کتب ،ٹوپیوں اور دیگر سامان کے استعمال سے پرہیز کریں،چونکہ ایک دوسرے کے ہاتھ لگنے سے وائرس کے لگنے کا خطرہ رہتا ہے اس لئے تلاوت قرآن ہو یا کسی دینی کتب کا مطالعہ ہو فی الوقت مسجد میں رکھی ہوئی کتابوں سے استفادہ نہ کریں ،اسی طرح ٹوپیوں کے پہننے اور لائٹ وفیان کے کھٹکوں کے کھونے سے بالکل پرہیز کریں اور اس سلسلہ میں کسی بھی قسم کی غفلت سے کام نہ لیں،(۸) دوران نماز صفوں میں فاصلہ کے ساتھ کھڑے ہوں،اگر چہ کے متعدد احادیث میں صفوں میں مل کر کھڑے ہونے اور درمیان میں خلا نہ رکھنے کی تاکیدی طور پر ہدایت دی گئیں ہیں ،فقہائے کرام نے صفوں میں فاصلہ رکھ کر نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے ، لیکن اس وقت حالت کچھ اور ہی ہیں ،یہ ایک مجبوری ہے اور مجبوری میں بقدر ضرورت حکم بدل جاتا ہے مخصوص حالات کے لئے شریعت نے سہولت دی رکھی ہے اس سہولت سے فائدہ اٹھا نا بھی شرعی حکم ہی ہے ،اس لئے موجودہ حالات کے پیش نظر جب تک وائرس ختم نہیں ہوجاتے فقہائے کرام نے شریعت کی روشنی میں نمازیوں کو فاصلہ کے ساتھ کھڑے ہونے کی اجازت دی ہے ،اس کی خلاف ورزی کرنا درست نہیں ہوگا ،(۹) چہرہ پر ماسک لگاکر نماز ادا کریں ، عام حالات میںدوران نماز اگر چہ چہرہ کو کپڑے سے ڈھکنا مکروہ ہے لیکن موجودہ صورت حال میں اس کی اجازت ہے ، (۱۰) مصلی حضرات آپس میں مصافحہ اور معانقہ اور مل کر کھڑے ہونے سے مکمل پر ہیز کریں،ماہرین طب کا کہنا ہے کہ مصافحہ ،معانقہ ( گلے ملنا) اور مل مل کر کھڑے ہونے سے وائرس کے پھیلاؤ میں اضافہ ہو تا ہے اور اس کے ذریعہ سے بھی وائرس ایک دوسرے میں منتقل ہوکر انہیں بھی متاثر کر سکتے ہیں اس لئے جب بھی آمنا سامنا ہو تو سلام ودعا پر اکتفا کریں ،مصافحہ کرنے سے گریز کریں ،یہ ہر دو شخص کے لئے بہتر اور احتیاط پر مبنی ہوگا ۔
ان حالات میں مصلیوں کے ساتھ مسجدوں کے ذمہ دار حضرات کو بھی بڑا اور اہم رول ادا کرنا ہوگا ،ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ مصلیوں کو نہایت محبت وشفقت سے مذکورہ ہدایات پر عمل کی ترغیب دیں اور انہیں وائرس کے نقصانات سے اگاہ کریں اور انہیں مکمل احتیاط برتنے کی طرف توجہ دلائیں، نیز درجہ ذیل ہدایات کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں( ۱) مسجدوں کی صفائی کا خاص خیال رکھیں ،(۲) ہر نماز کے وقت مسجد کو سنی ٹائز کرتے رہیں(۳) جائے نماز لپیٹ کر رکھ دیں (۴) اذان اور جماعت میں دس منٹ کا وقفہ رکھیں(۵) باب الداخلہ اور اندرونی حصہ میں سنی ٹائز کی چھوٹی بوتلیں رکھیں (۶) وضوخانے اور طہارت خانوں کی صفائی کا خاص اہتمام کریں(۷) فی الحال طویل تر دینی تقریبات واجتماعات منعقد نہ کریں(۸) نمازوں کے بعد مساجد کو مقفل کر دیں(۹) امام کی ذمہ داری ہے کہ وہ طویل قرأت نہ کرے (۱۰) نماز جمعہ کے وقت اردو بیان چند منٹ سے زیادہ نہ کریں اور عربی خطبہ اور نماز مختصر ہی پڑھائیں ۔
اس وقت کی سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ جو ہدایات دی گئیں ہیں ہر شخص اپنے آپ کو اس کا پابند بنائیں ،دوسروں کو اس کی ترغیب دیں ،معمولی باتوں میں نہ خود الجھیں اور نہ دوسروں کو الجھائیں ،مسائل شرعیہ میں خود سے حکم نکالنے کی ہر گز کو شش نہ کریں بلکہ مستند علماء کرام سے رہنمائی حاصل کریں، کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے غیروں کو انگلی اٹھانے کا موقع ملے اور عبادت گاہوں پر حرف آئے ، نمازوں کا خوب اہتمام کریں،دوسروں کو بھی نمازوں کی ترغیب دیں اور نمازوں کے بعد اور رات کے آخری حصہ میں امراض ظاہری وباطنی خصوصاً اس مہلک وباء سے محفوظ رہنے اور اس کے جلد خاتمہ کی دعائیں کریں،عالم اسلام کی سلامتی اور ملک میں امن وامان کے لئے خوب دعاؤں کا اہتمام کریں ۔
٭٭٭٭
muftifarooqui@gmail.com
9849270160