اسلامیاتسیاسی و سماجی

’’ووٹ ‘‘ شریعت اورجمہوریت کی نظر میں

مفتی عبدالمنعم فاروقی

ہندوستان دنیا کے چند بڑے جمہوری ممالک میں سے ایک جمہوری ملک ہے، جمہوریت ایک ایسی عوامی طرز حکومت کو کہا جاتا ہے جس میں تمام فیصلے عوامی نمائندے کرتے ہیں ،بالواسطہ جمہوریت میں عوامی نمائندہ ووٹ کے ذریعہ منتخب ہوکر مجلس قانون ساز میں حاضر ہوتے ہیں اور حکومت کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں ,دستور ہند میں تمام ہندوستانیوں کے شہری حقوق کی ضمانت دی گئی ہے،دستور ہند میں آرٹیکل ۳۲۶ کے ماتحت ووٹرز کے حقوق کو بیان کیا گیا ہے ،ان حقوق میں ہر شہری جس کی عمر اٹھارہ(۱۸) سال یا اس سے زیادہ ہو اور کسی قانون کے تحت اسے دوسری صورت میں نااہل قرار نہیں دیا گیا ہو وہ کسی بھی الیکشن میں بطور ووٹر رجسٹر ہونے کا حقدار ہے ،ووٹ کو جمہوری ملک میں ایک طاقتور ترین غیر متشدد ہتھیار مانا جاتا ہے،ووٹنگ کے ذریعہ آپ حکومت پر اپنی ملکیت کا احساس پیدا کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی ضرورت پڑنے پر حق رائے دہی کے ذریعہ خاطر خواہ تبدیلی بھی لاسکتے ہیں کیونکہ ووٹ ہی ہر منصب کا فیصلہ کرتا ہے کہ کون حاکم بنے گا اور کون محکوم؟ کون وزیر اعلیٰ بنے گا اور کون وزیر اعظم؟ ، جو شخص ملک وملت کے لئے مفید اور خیر خواہ ثابت ہو سکتا ہے آپ اپنے ووٹ کے ذریعہ اسے منصب وعہدہ پر فائز کر سکتے ہیں اور جو شخص عہدہ ومنصب پر فائز رہ کر اس کا ناجائز استعمال واستحصال کررہا ہوتا ہے تواسے ووٹ کی طاقت کے ذریعہ عہدہ ومنصب سے برخواست و بے دخل کر سکتے ہیں ، جمہوریت اور اس کے دستوری ڈھانچے پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ووٹ میں غیر معمولی اور بلا کی طاقت ہے،وہ اپنی اس طاقت کے ذریعہ نمائندوں بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے،ووٹ کے بنیادی پانچ فائدے ہیں (۱) جمہوریت کی بقا(۲) دستور کاتحفظ(۳)سچے حکمران کا انتخاب (۴) شہری حقوق کا تحفظ(۵)نااہلوں کی چھٹی۔
دستور نے شہریوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دے کر ان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد کی ہے، ووٹ کی قدر وقیمت کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب کوئی نااہل عہدہ سنبھال کر اس کا استحصال کرتا ہے اور حق داروں کے حقوق پامال کرتا ہے ، حق رائے دہی سے دوری اختیار کرنا اورووٹ نہ دینا درحقیقت اپنی ذمہ داری سے جی چرانا ہے،بلکہ ایک طرح سے نااہلوں کو موقع فراہم کرنا اور فرقہ پرستوں کو تقویت پہنچانا ہے ، ووٹ دراصل ان ہی کا حق ہے جو ذمہ داری کا پورا احساس رکھتے ہیں اور اسے ادا کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں ،ووٹ دینے والے کا حق دار کو ووٹ نہ دینا ،یا نااہل کو ووٹ دینا یا پھر حق رائے دہی کا استعمال نہ کرنا ایک سنگین غلطی ہے ،اس کا خمیازہ انہیں آج نہیں تو کل بھگتنا ہی پڑتا ہے اور جس وقت انہیں اس کا احساس ہوگا تب تک وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوگا ۔
یہ بات اچھی طرح ذہن میں رہنا چاہئے کہ ووٹ آپ کا اپنا حق ہے جو دستورنے آپ کو دیا ہے ، یہ وہ حق ہے جسے پانے کے لئے ہمارے آبا واجداد نے خوب جم کر لڑائی لڑی تھی ،اس لئے اپنے حق سے فائدہ نہ اٹھانا اور اس سے دور رہنا بڑی محرومی بلکہ مجرمانہ غفلت ہے ،جمہوریت کی بقا وکامیابی کے لئے ووٹ ایک اہم ترین ذریعہ ہے اسی سے ہم جمہوریت کو مستحکم کرنے کے ساتھ اپنے جائز حقوق حاصل کر سکتے ہیں ،اگر ہم نے اسے چھوڑ دیا اور اس سے لاپرواہی برتی تو سمجھ لو کہ ہم سے زیادہ نادان،لاپرواہ اور ناسمجھ کوئی اور نہیں ہے ؎
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
عالمی سیاسی حالات پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک ہندوستان بلکہ ہمارے یہاں کے جمہوری ممالک اور یورپ اور دیگر علاقوں کے جمہوری ممالک میں عوام کے سوجھ بوجھ کی صلاحیت میں عمومی طور پر کافی فرق نظر آتا ہے ،یورپ وغیرہ میں الیکشن کے موقع پر سیاسی پارٹیوں کی جانب سے جو منشور جاری کیا جاتا ہے عوام اس کا پہلے باریک بینی سے جائزہ لیتی ہے پھر امیدوار وں کی لیاقت اور قائدانہ صلاحیت پرکھتی ہے اور اس کی روشنی میں غور وفکر کرتی ہے کہ ان میں سے کون عوام اور عہدوں کے لئے زیادہ مفید اور کار آمد ثابت ہوسکتے ہیں اس کے بعد ہی ووٹ کے ذریعہ اس کی تائید کرتی ہے،برخلاف ہمارے یہاں عموماً نہ امید واروں کی صلاحیت وسیاسی حکمت وبصیرت دیکھی جاتی ہے اور نہ ہی منشور پر نظر ڈالی جاتی ہے بلکہ جذباتی نعروں ،ناقابل فہم وعدوں اور جانے پہچانے چہروں کے ہجوم میں گم ہوکر بلا سونچے سمجھیں ووٹ دیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یورپ وغیرہ میں ووٹ ڈال کر عوام اگلے الیکشن تک گھروں میں پر سکون زندگی گزارتے ہیں اور منتخب نمائندے گھروں سے باہر نکل کر ان کی خدمت میں مصروف ہوجاتے ہیں اس کے برخلاف ہمارے پاس حق رائے دہی کے لئے گھروں سے نکلتے نہیں اور جو نکلتے ہیں وہ قیمتی ووٹ کی قیمت نہیں سمجھتے جس کے نتیجہ میں الیکشن کے بعد نمائندے گھروں میں پر سکون زندگی گزارتے ہیں اور عوام گھروں سے نکل کر دردر کی ٹھوکریں کھاتی پھر تی ہیں ، اس لئے سنجیدہ اور زندہ قو موں کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ پہلے لیڈران کو تولتی ہے پھر ووٹ ڈالتی ہے اور نیم مردہ قومیں پہلے ووٹ ڈالتی ہیں پھر سر پیٹتی پھر تی ہیں اسی کو کہتے ہیں ؎
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے

لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جمہوریت میں ووٹ کی غیر معمولی قدروقیمت اور بلاکی طاقت ہے، کاغذ کے پرزہ پر ایک تائیدی مہر یا ووٹنگ مشین پر لگایا گیا ایک بٹن امیدوار کی قسمت بدل کے رکھ دیتا ہے،آن واحد میں بونے کے لوگ قدآور بن جاتے ہیں اور بہت سے قدآور بونے اور بے حیثیت ہو کر رہ جاتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے امیدوار ووٹ کے حصول کے لئے نت نئے طریقے اپناتے ہیں اور عوام کو لبھاکر اپنی طرف راغب کرتے ہیں، بعض سیاسی جماعتوں اور بعضے امیدواروں کا طریقہ تو غیر مہذب بلکہ انتہاء درجہ کا گھٹیا ہوتا ہے جس سے ان کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے ،وہ اس طرح کی حرکت کرکے خود کے ساتھ ووٹ کی قدر و قیمت گھٹاتے ہیں جس سے عوام بدگمان اور جمہوریت شرمسار ہوجاتی ہے ،مثلا جھوٹے وعدے کرنا،روپئے دے کر ووٹ خریدنا،مذ ہب کے نام پر ووٹ مانگنا ،ووٹنگ مشینوں میں الٹ پھیر کرنا وغیرہ یہ وہ غیر جمہوری وغیر اخلاقی گھناونی حرکتیں ہیں جس سے جمہوریت شرمندہ ہوتی ہے ، ووٹ سے اعتماد اٹھ جاتا ہے ،سنجیدہ قسم کے لوگ ووٹ دینے سے کتراتے ہیں اور سب سے بڑی بات جمہوریت کا مقصد فوت ہوجاتا ہے ،اسی کو ووٹ میں کھوٹ کہاجاتا ہے ۔
جمہوریت میں ووٹ کی طاقت کو بتاتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ جمہوریت میں ووٹ کی طاقت نوٹ اور فوج سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے ، جس شہری کو رائے دہی کا حق حاصل ہوتا ہے گویا اس کی صلاحیت اور سوجھ بوجھ کا امتحان ہوتا ہے ،اس کے کندھوں پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ووٹ کے ذریعہ ایسے شخص کا انتخاب کرے جو صاحب فہم ،انصاف پرور ، امانت دار ،دیانت دار،مخلص ، ہمدرد ،خیر خواہ اور ہمہ وقت عوام الناس کی خبر گیری رکھنے والا ہو ،کیونکہ ووٹ دینے والا اپنے ووٹ کے ذریعہ حکومت کی ذمہ داری اس شخص کے کندھوں پر ڈالتا ہے اور اس سے امانت داری کے ساتھ عوامی خدمت کی توقع رکھتا ہے ، جمہوری ممالک میں چونکہ عوام ووٹ کے ذریعہ اپنے قائد ین کا انتخاب کرتی ہے اور انہیں حکومت چلانے کی ذمہ داری دیتی ہے اس لئے نمائندہ کا انتخاب،حکومت کی تشکیل اور ملک کی ترقی وخوشحالی کے لئے عوامی ووٹ بڑی قدر وقیمت رکھتا ہے ،بسا اوقات ایک ووٹ امیدوار کے ساتھ حالات کی تبدیلی کا سبب بن جاتا ہے۔
چونکہ ووٹ ہی کے ذریعہ حکمران منتخب ہوتے ہیں اور اسی بنیاد پر حکومت تشکیل پاتی ہے اور عہدے تقسیم کئے جاتے ہیں ،اس لئے اہل علم نے ووٹ کے استعمال کو ملکی ،ملی اور قومی فریضہ کہا ہے بلکہ علماء کرام اور فقہائے عظام نے شریعت کی روشنی میں ووٹ کو ایک دینی فریضہ قرار دیا ہے ، علماء نے ووٹ کی چار حیثیتیں بیان کی ہیں (۱) شہادت(۲)امانت (۳)وکالت (۴) سفارش۔امید وار کے حق میں ووٹر اپنا ووٹ دے کر گویا اس بات کی شہادت اور گواہی دیتا ہے کہ یہ اس کی نظر میں ذمہ داری اٹھانے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے ، اس لحاظ سے ووٹ شہادت اور گواہی بن جا تا ہے ،قرآن مجید میں سچی شہادت دینے کی تاکید کی گئی ہے اور جھوٹی گوہی دینے سے سختی سے منع کیا گیا ہے ،ارشاد خداوندی ہے : ’’اے ایمان والو! انصاف قائم کرنے والے بنو،اللہ کے خاطر گواہی دینے والے،چاہے وہ گواہی تمہارے اپنے خلاف پڑتی ہو،یا والدین اور قریبی رشتہ دار وں کے خلاف ،وہ شخص (جس کے خلاف گواہی دینے کا حکم دیا جارہا ہے ) چاہے امیر ہو کہ غریب ،اللہ دونوں قسم کے لوگوں کا(تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے ،لہذا ایسی نفسانی خواہش کے پیچھے نہ چلنا جو تمہیں انصاف کرنے سے روکتی ہو،اور اگر تم توڑ مروڑ کروگے (یعنی غلط گواہی دوگے)یا(سچی گواہی دینے سے) پہلو بچاؤ گے تو(یاد رکھناکہ)اللہ تمہارے کاموں سے پوری طرح باخبر ہے‘‘ (انساء :۱۳۵)
اس آیت مبارکہ میں صاف اور کھلے طور سے بتایا گیا کہ جب گواہی دینے کا وقت آجائے تو محض اللہ کے حکم کی تعمیل اور اس کی رضاجوئی کے لئے گواہی دینا ،شخصیتوں کو سامنے رکھ کر یا دنیوی مفادات کو پیش نظر رکھنا یاپھر کسی کے دباؤ میں آکر سچائی سے گریز کرنا بدترین قسم کا جرم اور گناہ ہے ۔
شریعت میں ووٹ کی ایک حیثیت امانت کی ہے اور امانت کا اس کے مالک تک پہنچانا ضروری اور لازمی ہے،امانت میں خیانت کرنا اور کوتاہی برتنا سخت قسم کی بد دیانتی اور بدترین قسم کا جرم ہے ،قرآن مجید میں امانت کو ان کے حق داروں تک پہنچانے تاکید کی گئی ہے ،ارشاد خداوندی ہے :یقینا اللہ تم کو حکم دیتا ہے تم امانتیں ان کے حق داروں تک پہنچاؤ‘‘(نساء: ۵۸)
اس آیت میں امانت کو ان کے حقداروں تک پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے ،ایک دوسری آیت میں ٹھیک طرح سے امانت پہنچانے والوں کی تعریف کے ساتھ انہیں دائمی جنت کی خوشخبری سنائی گئی ہے ، نیز متعدد احادیث میں خیانت کرنے والوں کے لئے سخت جملے استعمال کئے گئے ہیں ،ایک حدیث میں آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ جو امانت دار نہیں اس میں ایمان نہیں اور عہد کی پاسداری نہ کرتا ہو اس میں دین نہیں‘‘(بیہقی شعب الایمان:۴۳۵۲)
ووٹ کو شریعت میں امانت کا درجہ حاصل ہے ،اب ووٹر کی ذمہ داری ہے کہ وہ حق دار تک اس مانت کو پہنچائیں ،اس میں کوتاہی سے کام لیتے ہوئے خیانت کا مظاہرہ نہ کرے،ووٹ کا استعمال بھی کرنا ہے اور بڑی ذمہ داری کے ساتھ اسے حقدار تک پہنچانا بھی ہے ، اس میں کسی بھی طرح کی خیانت کا ارتکاب کرنا شریعت کی نظر میں ایک قسم کا بدترین جرم ہے۔’’وکیل ‘‘ وکالت سے ہے اور وکالت کہتے ہیں کسی کا معاملہ اس کے نمائندے کی حیثیت سے انجام دینا یا پیش کرنا ۔
ووٹ کی تیسری حیثیت وکالت کی ہے ، جیسے کوئی شخص کسی کو اپنے کسی معاملہ میں وکیل بناتا ہے تو اس کے لئے ایک اچھے ،قابل اور دیانتدار شخص کا انتخاب کرتا ہے ٹھیک اسی طرح ووٹر بھی جس امید وار کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرتا ہے گویا وہ اسے اپنی طرف سے ملک وقوم کے حقوق عامہ میں اپنا وکیل بناتا ہے ،ووٹر جسے ووٹ دے رہا ہے اسے اپنا وکیل بناکر اس کے اچھے ،فرض شناس اور قوم وملت کے لئے ہمدردر ہونے کا اظہار کررہا ہوتا ہے ،امید وار کے کامیاب ہونے کے بعد اگر وہ اپنا فرض منصبی بخوبی نبھاتا ہے اور وکیل بنائے جانے کے فیصلہ کو اپنے فعل وکردار کے ذریعہ درست ثابت کراتا ہے تو یقینا مؤکل بھی اس کے عمل میں برابر کا شریک ہوکر اجر پاتا ہے اور اگر وکیل یعنی کامیابی حاصل کرنے کے بعد اپنے فرض منصبی سے راہ فرار اختیار کرتا ہے اور اپنے منصب کا بے جا استعمال کرتا ہے تو وکیل کے ساتھ ساتھ مؤکل بھی وبال میں اس کے ساتھ شریک ہوتا ہے ، ووٹر کی حیثیت مؤکل کی ہے اس لئے اس کی ذمہ داری ہے کہ خوب غور فکر کرکے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرے ،اس کا غیر ذمہ دارانہ عمل پوری قوم وملت کے لئے نقصان کا باعث بن سکتا ہے اور اس کا صحیح فیصلہ پوری امت کے لئے باعث رحمت اور ملک کے لئے ترقی کا ضامن بن سکتا ہے۔ووٹ کی ایک حیثیت سفارش کی ہے،ووٹر جس شخص کے حق میں ووٹ کا استعمال کرتا ہے گویا اس کی سفارش کر رہا ہوتا ہے اور سفارش اسی آدمی کی کرنی چاہیے جس کے بارے میں یقین کامل ہوکے وہ قوم وملت کا ہمدرد اور خیر خواہ ہے ،عہدہ پر فائز ہونے کے بعد اس کا درست استعمال کرتے ہوئے قوم وملت کو نفع پہنچائے گا اور خیر خواہی کے جذبہ کے ساتھ کام کرتے ہوئے قوم کی ہر ضرورت میں پیش پیش رہے گا ،قرآن مجید میں سفارش کرنے والے کو توجہ دلاتے ہوئے کہا گیا ہے ، ارشاد خداوندی ہے:جو شخص کوئی اچھی سفارش کرتا ہے اس کو اس میں سے حصہ ملتا ہے اور جو کوئی بُری کی سفارش کرتا ہے اسے اس بُرائی میں سے حصہ ملتا ہے اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے‘‘(نساء: ۸۵)
اس لئے ووٹ کی حیثیت سفارش کی ہے، اب ووٹر کی ذمہ داری ہے کہ چاہے وہ اچھائی کا حقدار بنے یا بُرائی کو اپنے سر پر ڈال لے ،اپنے ووٹ کا استعمال انہی کے حق کرے جو اس کی نظر میں سچے ،امانت دار اور فرض شناس ہیں ۔
عجلت اور جلد بازی سے آدمی اکثر وبیشتر ٹھوکر کھاتا ہے اور شدید نقصان سے دوچار ہوتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ محض عجلت سے کام لینے کو شیطان کے فعل سے تشبیہ دی گئی ہے،جن لوگوں کو دستور کی رو سے ووٹ دینے کا حق حاصل ہے ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ خوب غور فکر کے بعد اپنے ووٹ کا استعمال کریں ، اپنے ووٹ کے لئے ایسے امیدوار کا انتخاب کرے جو ملک کی ترقی کو عزیز رکھتا ہے ،اپنے اندر خدمت خلق کا بھر پور جذبہ رکھتا ہے اور پوری امانت ودیانتداری کے ساتھ کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور شخصی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عوامی اور ملکی مفادات کے لئے کام کرنا چاہتا ہے،ووٹر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے امیدوار کے حق میں ووٹ دیںجس کی شخصیت صاف ستھری ہو اور جس کا کردار سچا و عمدہ ہو ،اسی طرح ایسے امیدوار کا انتخاب کریں جو کرسی کی حرص وطمع نہ رکھتا ہو ، اس کا صحیح استعمال کر نا جانتا ہو اور ناجائز فائدہ حاصل کرنے سے ڈرتا ہو،نیز اس شخص کو اپنا ووٹ دیں جو بلا لحاظ مذہب وملت عوام کی خدمت کا جذبہ رکھتا ہے اور انسانی بنیادوں پر احترام کرنا جانتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مشورہ میں خیر اور بھلائی رکھی ہے ، جب آدمی کسی کام میں مشورہ کرتا ہے تو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کی مدد ونصرت فرماتے ہیں اور شر وبُرائی سے اس کی حفاظت فرماتے ہیں ، سمجھدار لوگ ہمیشہ مشورہ کرتے ہیں بغیر مشورہ کے قدم بڑھانے کو دفن سے تعبیر کرتے ہیں ،اصحاب عقل وفہم سمجھ بوجھ رکھنے کے باوجود مشورہ کرتے ہیں،اہل ایمان کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ وہ قدم بڑھانے سے قبل قابل لوگوں سے مشورہ کرتے ہیں ، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مشورہ کو اہل ایمان کی علامت قرار دیا ہے ،ارشاد ربانی ہے :اور (اہل ایمان وہ ہیں) جو اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور ان کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں( شوری: ۳۸)۔
رسول اللہ ؐ نے بھی متعدد احادیث میں باہم مشورہ کی طرف توجہ دلائی ہے اور مشورہ کی اہمیت وافادیت کو بتلایا ہے ،ایک حدیث میں آپؐ مشورہ کے فوائد اور اس کے بہترین نتائج کو بتاتے ہوئے آپسی معاملات میں مشورہ کرنے کی طرف توجہ دلا تے ہوئے ارشاد فرمایا:
جب تم میں سے بہتر لوگ تمہارے امیر ہوں ،تمہارے دولت مند بڑے دل والے ہوں اور تمہارے معاملات تمہارے درمیان مشورے سے طے ہوں تو زمین کے اوپر کا حصہ تمہارے حق میں اس کے نیچے کے حصہ سے بہتر ہوگا(روح المعانی:۵۳۱؍۷)۔
مشورہ کی افادیت بیان کرتے ہوئے باب العلم اور خلیفہ چہارم سیدنا علی ابن ابی طالبؓ فرماتے ہیں کہ :(یقینا) مشورہ سراپا ہدایت ہے اور جو شخص اپنی رائے سے ہی خوش ہوگیا وہ خطرات سے دوچار ہو گیا( ادب الدنیا والدین:۳۰۹)
ملک کے موجودہ حالات میں ووٹروں کے کندھوں پر بڑی بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ فرقہ پرست اور سخت ذہنیت کے حامل لوگوں کو شکست دیں اور جمہوریت پسند اور حقیقی سیکولر مزاج رکھنے والوں کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرتے ہوئے انہیں کامیاب کرنے کی کوشش کریں ، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ آپس میں مشورہ کرنے کے بعد ہی اپنے ووٹ کا استعمال کریں تاکہ اس کا صد فیصد فائدہ حاصل ہو ،اس کے لئے سب سے بہترین شکل یہ ہوگی کہ مسلمانوں کی وہ تنظیمیں جو ملکی اور سیاسی حالات پر گہری نظر رکھتی ہوں ، جنہیں سیاسی بصیرت حاصل ہے اور جو مستقبل میں رو نما ہونے والے حالات اپنی بصیرت کی آنکھوں سے دیکھتی ہوں وہ تنظیمیں پہلے سیاسی جماعتوں کے منشور کا بغور جائزہ لیں اور ہو سکے تو ان سے بات چیت کرتے ہوئے ان سے اس بات کا تیقن حاصل کریں کہ وہ مسلمانوں اور دیگر مظلوم طبقات کے لئے وہ سارے حقوق دلوانے کی کوشش کریں گے جو دستور نے ان کو دیا ہے ،اس طرح کی فکر اور حکمت عملی کے ساتھ جب ووٹ دیا جائے گا تو اس کا خاطر خواہ فائدہ حاصل ہوگا اور ووٹ کے مقصد عوام کو کامیابی حاصل ہوگا ۔
اللہ تعالیٰ نے انفرادیت کے مقابلہ میں اجتماعیت میں بڑی طاقت رکھی ہے ،انفرادیت میں وہ نفع نہیں ہے جو اجتماعیت میں ہوتا ہے ،اللہ تعالیٰ کی رحمت ان پر ہوتی ہے جو اجتماعی قوت وطاقت بن کر رہتے ہیں ،رسول اللہ ؐ کا ارشاد گرامی ہے :اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہے (ترمذی: ۲۱۶۶)
خصوصاً موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لئے اشد ضروری ہے کہ وہ اپنی اجتماعی قوت کو مضبوط رکریں اور منتشر ہونے سے بچیں رہیں، ووٹ کی طاقت کو محسوس کرتے ہوئے عقلمندی اور ہوش مندی کے ساتھ ووٹ دیں ،ان شاء اللہ کامیابی مقدرہوگی ۔

 

 

 

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×